کوئٹہ :
جمعیت علماءاسلام ضلع کوئٹہ کی مجلس عاملہ کا ہنگامی اجلاس مولاناولی محمدترابی کی صدارت میں ہواجس میں مولانا عبد الغفور حیدری حفظہ اللہ پر ہونے والے حملے کی شدیدالفاظ میں مذمت کی گئی اور اس واقعہ کوپاکستان میں جمعیت علماء اسلام کی ا من کاوشوں پر حملہ قرار دیا گیا ،اجلاس میں صوبائی جماعت کی ہدایت کے مطابق ہفتہ کو سہ پہرتین بجے صوبائی سیکرٹریٹ سے ریلی نکالی جائے گی اورشہرکے مختلف شاہراہوں سے گزرکرمنان چوک پراحتجاجی مظاہرہ کیاجائے گااجلاس میں انجمن تاجران اورتمام سیاسی پارٹیوں سے ہڑتال کامیاب بنانے کی اور کارکنوں اورشہریوں سے مظاہرے میں شرکت کی اپیل کی گئی اجلاس میں شہداء کے درجات کی بلندی اورزخمیوں کی جلدصحت یابی کے لئے دعاکی گئی،اجلاس سے مولاناولی محمدترابی،مولانامحمدسرورموسی خیل،حاجی نورگل خلجی،مولانامحمدسلیم،مولانابشیراحمد،حاجی سازالدین،عزیزاللہ پکتوی،مفتی عبدالغفورمدنی،میریسین مینگل،رحیم الدین ایڈوکیٹ،حاجی نصیب اللہ،عبدالواسع سحر،حاجی قاسم خان خلجی،حاجی فیض اللہ ملاخیل،سیٹھ اجمل خان بازئی،حاجی امیرعثمان اچکزئی،پیرزین الدین،حافظ محمدطاہرزیرے ودیگرنے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ یہ واقعہ انتہائی درد ناک ہے اس واقعہ کے بعد جمعیت کے کار کن جو اپنے صدسالہ کی کامیابی پر خوشیاں منارہے تھے یکدم اس واقعہ نے پوری جماعت کو غم میں مبتلاکر دیا ہے انہوں نے کار کنوں سے کہاکہ وہ پر امن انداز میں آگئے بڑھتے رہیں ہم پر امن اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے ۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب