مسلمان جو دنیا کے کسی بھی کونے میں بستے ہو،کتنے ہی کمزور کیوں نہ ہو ،کتنے ظلم وجبر کا شکار نہ ہو پھر بھی وہ دین سے محبت رکھتے ہیں ،دین کا پرچم بلند کرنے والوں کو سر آنکھوں پر رکھتے ہیں ،ایسے سرفروشوں کی محبت ان کے سینوں میں ہمیشہ سے جاگتی رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہر مسلمان امارت اسلامیہ افغانستان کے ساتھ ایمانی اور دلی تعلق رکھتے ہیں۔
اس لیے دنیا بھر کے علمائے کرام گاہے بگاہے امارت اسلامیہ کے طرز حکومت اور ان فقیر منش حکمرانوں کی طرز زندگی کا مشاہدہ کرنے کے لیے دورے بھی کرتے رہتے ہیں اور امارت اسلامیہ افغانستان کی قیادت ان کو احترام بھی دیتی ہے۔
بلاشبہ یہ صرف دین کی وہ برکت ہے، جو دو مسلمانوں کو باہم جوڑتی اور اتحاد پیدا کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر کے علمائے کرام امارت اسلامیہ افغانستان کو اُسی مرتبے اور اعزاز کی حامل سمجھتے ہیں جو احترام اور قدر و منزلت اللہ تعالی نے امارت اسلامیہ کو عطا فرمائی ہے، وہ قدر و منزلت جس کے متعلق اللہ تعالی قرآن مجید میں سورۃ الحج کی آیت 41 میں فرماتے ہیں:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۔
یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور لوگوں کو نیکی کی تاکید کریں اور بُرائی سے روکیں۔
دنیا دیکھ چکی ہے کہ امارت اسلامیہ نے ہمیشہ اسلام کے عادلانہ نظام کے قیام کے لیے کوششیں کی ہیں۔ امارت اسلامیہ افغانستان نے اقتدار حاصل کر کے معاشرے سے بُرائی ختم کرنے اور نیکی کی اشاعت کے لیے جدوجہد کی عملی صورت پیش کی ہے۔ جوکہ قابلِ رشک و قابلِ فخر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مسلمان خواہ وہ کسی بھی ملک میں رہتا ہو اُسے امارت اسلامیہ کے ساتھ بے لوث محبت ہے۔ اپنے ملک میں بھی امارت اسلامیہ کے طرز پر اسلامی نظام کا قیام اُس کی دلی تمنا ہوتی ہے۔
اسی نسبت پاکستان سے قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کی قیادت میں ایک موقر وفد امارت اسلامیہ افغانستان کے دورے پر کابل گیا تو امارت اسلامیہ کی قیادت نے قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کی جس قدر عزت افزائی کی وہ بلاشہ مسلمانانِ پاکستان کے دل جیت لینے کی ایک زندہ مثال ہے۔ امارت اسلامیہ افغانستان نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ وہ دینِ اسلام سے جُڑے ہوئے ہر شخص کو اپنا وہی بھائی سمجھتی ہے، جس بھائی چارے کی بنیاد حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرتِ مدینہ کے موقع پر رکھی تھی۔
قائد جمعیت کا یہ دورہ جن حالات میں ہوا ،ان حالات کے پس منظر میں یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا ، جن اعلیٰ مقاصد کے پیش نظر یہ دورہ ہوا ،ان مقاصد میں کامیابی کے نتیجے میں ان شاء اللہ پاکستان اور افغانستان میں بھائی چارے ،اعتماد،امن ، تجارت اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی نئی راہیں ہموار ہونگی ۔
اس دورے میں قائد جمعیت کی امارت اسلامیہ کے صف اول کے رہنماؤں سے بہت مفید ملاقاتیں ہوئیں اور طویل عرصے سے دونوں برادر ملکوں کے درمیان بہت سے اہم تشنہ امور پر بامقصد اور مثبت گفتگو ہوئی ۔طویل عرصہ سے جنگ اور امریکی انخلاء کے بعد امور حکومت سنھبالنے میں مصروف رہنے کے باعث برادر ملکوں میں پائے جانے والی بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے میں قائد جمعیت کا یہ دورہ مستقبل میں بنیادی کردار ادا کرے گا ۔
قائد جمعیت اور ان کے موقر وفد کا یہ دورہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لئے بہت ضروری تھا ، مشرق وسطیٰ کے ممالک میں خانہ جنگی عالمی دنیا کا اہم مقصد ہے ،اب جبکہ یہ ثابت ہوگیا کہ مشرق وسطی کبھی بیرونی جارحیت کو قبول نہیں کرتا تو عالمی دنیا اپنی سپرمیسی قائم رکھنے کے لئے ان ممالک کو باہم دست وگریبان رکھنا چاہتی ہے تاکہ عالمی دنیا کی لڑاؤ اور حکومت کرو پالیسی کامیابی سے چلتی رہے ۔
قائد جمعیت کے اس دورے سے اس خطے مین امن اور تجارت کی راہیں ہموار ہونگیں اور ان شاء اللہ ایک نیا بلاک قائم ہوگا جو تجارت کے میدان میں عالمی استعمار کے لئے چیلنج بنے گا اور ایک وقت آئے گا کہ معاشی لحاظ سے یہ خطہ دنیا کی قیادت کرے گا۔کیونکہ اب معاشی وار کا زمانہ ہے ۔ہتھیاروں سے دنیا کو مسخر کرنے کا زمانہ گذر چکا ،معیشت کے لئے پہلی سیڑھی امن وامان ہے ۔
قائد جمعیت کے دورے میں ان کے وفد کے ساتھ دلی احترام اور دینی جذبے کے ساتھ ہمہ وقت امارت اسلامیہ کا کوئی نہ کوئی رہنما ضرور موجود رہتا۔
امارت اسلامیہ افغانستان نے قائد جمعیت کے وفد کو جس نوعیت کا پروٹوکول دیا، وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک سبق ہے کہ حقیقی عزت اُسی شخص کی ہے، جو اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذ کے لیے خود کو وقف کیے ہوئے ہو۔ امارت اسلامیہ نے اپنے اس عمل سے یہ احساس بھی اُجاگر کیا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے علمائے کرام کا احترام کرنا اور اُن کے مرتبے کی قدر کرنی چاہیے۔
امارت اسلامیہ نے جمعیت علمائے اسلام کے وفد کی حفاظت اور احترام کے لیے وزارتِ خارجہ کے پروٹوکول ڈیپارٹمنٹ کے پانچ اہل کار اور سات آرمرڈ لینڈکروزر گاڑیاں ہمہ وقت وفد کی خدمت میں پیش رکھیں۔
امارت اسلامیہ نے وفد کو آرام و رہائش کے لیے سرینا ہوٹل کابل میں ٹھہرایا۔ اس طور پر وفد کے احترام میں کوئی کمی نہ رہنے دی۔ اس کے علاوہ اس دورے میں یہ اہم بات بھی نوٹ کی گئی کہ وفد کو سہولیات بہم پہنچانے میں کوئی کسر نہیں رہنے دی، لیکن معاصر سیاست دانوں کی طرح قومی خزانے پر بے جا مصارف کا بوجھ بھی نہیں پڑنے دیا۔
امارت اسلامیہ نے قائد جمعیت کو دینی سیاسی شخصیت ہونے کے ناطے جو احترام بخشا اس سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو نہ صرف اپنے دینی بلکہ سیاسی معاملات میں بھی علمائے کرام کو سپرد کرنے چاہئیں، کیوں کہ سیاست کے تقاضے اگر اسلام کے قوانین و مقتضایات کے مطابق ادا کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ ایک مقدس سلسلہ نظم بن جاتی ہے۔ بلاشبہ یہ اہم اور نازک کام علمائے کرام ہی اچھی طرح انجام دے سکتے ہیں۔
قوم کو چاہیے کہ وہ اپنے علمائے کرام پر اعتماد کریں اور اپنے مذہبی و سیاسی، تمام معاملات کے لیے علمائے کرام کی طرف ہی رجوع کریں۔ اِنہی کے ساتھ رابطہ رکھیں۔ انہی سے مسلمانوں کے اسلامی و مادی مفادات کا تحفظ ممکن ہے۔