بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
حامد میر: کیپیٹل ٹاک میں خوش آمدید آج ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک اہم پریس کانفرنس کی اور اس پریس کانفرنس میں انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال 9 مئی کو ایک سیاسی ٹولے نے چن چن کر اپنے کارکنوں کو اہداف دیے اور حملے کروائے اور جو پچھلے سال نو میں ہی کے واقعات ہیں اس میں جو ملوث لوگ ہیں ان کو سزا ملنی چاہیے تو یہ ڈی جی آئی ایس پی آر کا جو موقف ہے کوئی نیا موقف نہیں ہے اور اب دوبارہ نو مئی انے والا ہے اور تحریک انصاف بھی نو مئی کو ایک خصوصی تقریبات کر رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جمیعت علماء اسلام جو ہے وہ بھی نو مئی کو پشاور میں اس نے ملین مارچ کا اعلان کیا تو تحریک انصاف کی تو سمجھ آتی ہے لیکن جو جے یو آئی ہے وہ نو مئی کو خاص طور پہ ملین مارچ کیوں کر رہی ہے وہ بھی پشاور میں اس کی کیا وجہ ہے اور اس کے علاوہ ایک بات بڑی اہم ہے کہ کچھ عرصہ سے جنگ وائی کے اندر یہ بحث چل رہی ہے کہ کیا ہمیں جو پاکستان کی سیاست ہے اور جو سیاسی نظام ہے اس کا حصہ بنے رہنا چاہیے یا ہمیں سیاست کو خیرباد کہہ دینا چاہیے یہ بات بڑی ہی اہم ہے تو یہ بات کیوں ہو رہی ہے یہ بحث کیوں ہو رہی ہے جے یو ائی میں، اس پر اج ہم بات کریں گے ہمارے ساتھ موجود ہیں جے یو ائی کے سربراہ جناب مولانا فضل الرحمن صاحب، مولانا صاحب بہت بہت شکریہ سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ نو مئی کو ایک سال ہو رہا ہے اور ڈی جی ائی ایس پی ار نے پریس کانفرنس کی وہ کہتے ہیں جی نو مئی کی ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہیے اپ پہلے تو مذمت کر چکے ہیں نو مئی کی ابھی تک اپ کا وہ موقف برقرار ہے کہ نو مئی کے جو ذمہ دار ہیں ان کو سزا ملنی چاہیے ؟
قائد جمعیت: ہمارے جو ملین مارچ ہے یا عوامی اسمبلی ہے نو مئی کا، اس کا اِس حوالے سے کوئی تعلق نہیں ہے جب ہم جلسوں کا شیڈول بنا رہے تھے تو 20 اپریل کو ہم نے پشین کا جلسہ رکھا عوام اسمبلی رکھی پھر دو مئی کو ہم نے کراچی کی اور نو مئی جمعرات برابر ہو رہا تھا تو خواہش یہی تھی کہ جمعرات کے روز، تاکہ اگلے روز چھٹی ہو یا لوگ ذرا تھوڑا سا فریش ہوتے ہیں تواس لحاظ سے ہم نے نو مئی رکھا اور اس کا نو مئی کہ اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے جو یہاں ملک میں درپیش ایا تھا تو یہ بات ہماری طرف سے بالکل واضح ہونی چاہیے کہ نو مئی ایک وہ واقعہ کہ جس کو اپ موضوع بحث بنانا چاہتے ہیں یا ملک میں جو ہے زیر بحث ہے یا جس پر آج آئی ایس پی آر کا بہت لمبا پریس کانفرنس ہے اس حوالے سے، تو یہ دونوں ہمارے اور ان کے حوالے سے بالکل الگ الگ باتیں ہیں جی۔
حامد میر: اچھا تو یہ آپ اتفاق کرتے ہیں ڈی جی آئی ایس پی آر سے کہ نو مئی کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فوج کی تنصیبات پر حملہ ہوا اور ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہیے ؟
قائد جمعیت: دیکھیے جہاں تک واقعے کا تعلق ہے یقینا ہم نے بھی اس پر احتجاج کیا تھا اور ریاستی تنصیبات پر اور ریاستی مراکز پر اس طرح کے حملے یقینا پوری قوم نے اس کا نوٹس لیا تھا جی، لیکن اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے ائی ایس پی ار کی پریس کانفرنس اپنی جگہ پر اور ان کا اس پر احتجاج اپنی جگہ پر لیکن اگر ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں اور صحیح بات ہے ان کی، تو پھر یہ بتایا جائے کہ الیکشن میں دھاندلی کی ہے یا نہیں یا تو وہ تسلیم کریں کہ ہم نے الیکشن میں دھاندلی کی ہے مان لے اور اگر نہیں کی ہے تو پھر عوام نے اس کے نو مئی کے بیانیے کو مسترد کر دیا ہے پھر اکثریت جو ہے وہ ٹھیک ہے ۔
حامد میر: یہ بتائیں کہ 2018 کے الیکشن پر بھی اپ نے احتجاج کیا تھا مجھے یاد ہے اس وقت اپ نے اس وقت جو اپ کے اتحادی تھے ان کو کہا تھا اسمبلی میں مت بیٹھو ٹھیک ہے ابھی بھی اپ کہہ رہے ہیں کہ 2024 کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اور ابھی اپ اسمبلی میں بیٹھ گئے ہیں اس وقت بھی اپ نے تحریک چلائی ابھی بھی اپ تحریک چلا رہے ہیں تو جو اپ نے 2019 میں جو ایک تحریک شروع کی تھی اس میں اور اج کی جو اپ کی تحریک ہے اس میں فرق کیا ہے ؟
قائد جمعیت: دیکھیے ایک ہے اصول کا موقف لینا، ایک ہے کہ اپنی استطاعت کی حد تک لینا یعنی دو چیزیں جو ہیں وہ اصول پر کھڑے ہونا یہ بھی ضروری ہے جتنی استطاعت ہو اسی کیپیسٹی میں آدمی کو ایکٹ کرنا چاہیے اس کے مطابق ادمی کو اقدام کرنا چاہیے تو ظاہر ہے جی کہ کچھ چیزیں ہوتی ہیں جو صرف ہماری نہیں ہوتی اگر دھاندلی ہے تو سب کے لیے ہے سو اس وقت بھی میں نے یہ کہا تھا کہ اپ ابھی اسمبلی میں حلف نہ اٹھائے لیکن کسی نے نہیں مانی اٹھا لیا کیونکہ تنہا شاید ہم موثر نہ ہوتے جی اس بار پھر مینڈیٹ وہی یعنی پیپلز پارٹی کو اس وقت بھی صوبائی حکومت ملی تھی لیکن صوبائی حکومت ملنے کے باوجود وہ میدان میں ائی اور اس نے کہا دھاندلی ہوئی ہے جس طرح اج پی ٹی ائی کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں اکثریت ملی ہے تو ان کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ دھاندلی ہوئی ہے جیسے کہ وہ کہہ رہے ہیں لہذا ہم جمیعت علماء اسلام والے اکیلے ہیں اس وقت اور جو ہمارے دوست تھے وہ شاید اب انہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ مسلسل اقتدار سے محرومی بھی مناسب نہیں ہے لیکن ہم اس اصول سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں ہم نے جو پشین میں جلسہ کیا وہاں بھی عوام کا رد عمل بالکل واضح تھا حالانکہ بارشیں تھیں بہت سے راستے بند تھے ندیاں بہہ رہی تھی اسی روز بھی کچھ لوگ شہید ہوئے تھے پانی میں ان کی گاڑیاں بہہ گئی تھی اور پھر اس کے بعد ابھی جو کل پرسوں ہم نے کراچی میں کیا دو مئی کا تو اس نے بھی دنیا کو بتا دیا کہ عوام کس کو کہتے ہیں پبلک کس کو کہتے ہیں اور تا حد نظر انسانیت اور لاکھوں انسان ایک میدان میں اکھٹے تھے اور ان شاءاللہ جب کل پرسوں پشاور میں ہوگا تو وہ بھی ان شاءاللہ یہی پیغام دے گا کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے عوام کیا کہتے ہیں جی۔
حامد میر: مجھے یاد ہے اپ نے عمران خان کے دور حکومت میں بھی اس طرح کے بڑے بڑے جلسے کیے تھے کیا اس کا اپ بگاڑ سکیں عمران خان کا اور ابھی بھی اگر اپ پشاور میں ملین مارچ کرتے ہیں اور بہت بڑا اجتماع کرتے ہیں جس میں انسانوں کا سمندر بھی ا جائے کیا کر لیں گے اس سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔
قائد جمعیت: اپ کا کیا مطلب ہے اپ ہمیں اسلحہ اٹھانے کی ترغیب دے رہے ہیں ۔
حامد میر: میں یہ پوچھ رہا ہوں عمران خان کو ہٹایا گیا تحریک عدم اعتماد سے
قائد جمعیت: تحریک عدم اعتماد کے لیے فضا کس نے بنائی ماحول کس نے بنایا اور عوامی سیلاب ایسا ایا کہ میں جب لاہور سے نکل رہا تھا تو مجھے دور دور تک ایسا نظر ا رہا تھا جیسے کہ زمین پر انسان نہیں چیونٹیاں پھیلی ہوئی ہو تو اتنی زیادہ تعداد میں کہ دور دور تک ادمی جو ہے وہ بڑا معمولی سا نظر اتا تھا کیونکہ پبلک بہت زیادہ تھی یہ مناظر ہم نے دیکھے ہیں عوام کے، میں حیران تھا جب میں ساہیوال سے گزر رہا تھا اور اوکاڑے سے گزر رہا تھا تو مجھے یوں لگا کہ شہر میں کوئی مرد کسی گھر رہا ہی نہ ہو ساری دنیا جو ہے روڈ پہ اگئی تھی جب میں نے ملتان کا منظر دیکھا تو میں حیران تھا کہ ملتان میں اج تک ہم اتنی بڑی اجتماع نہیں کر سکے اور پھر جب ہم یہاں ائے تو پورا اپ کا جو کشمیر ہائی وے ہے کوئی آٹھ لائنوں کا یا اس سے زیادہ اور اس کے آگے پیچھے سے میدان ہے وہ سب کے سب انسانوں سے بھرے ہوئے تھے اور دو اعشاریہ چھ کلومیٹر یہ عوام تھی بارہ دن پندرہ دن رہی ہے یہاں پر، تو عوام تو تھے لیکن عوام کو اس طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جی اور ہمارے پاس ہتھیار ہی کیا ہے جی، عوام ہی ہو سکتے ہیں۔ عوام کے ساتھ ظلم ہوا ہے تو عوام ہی نے اس کا احتساب کیا ہے۔
حامد میر: آپ کی بات درست ہے لیکن وہ جو اپ نے بڑے بڑے اجتماعات کیں اور اسلام اباد میں اکے دھرنا دیا تو اپ یہ نہیں سمجھتے کہ آپ کے اس احتجاج کا فائدہ اپ کے ایک اتحادی نے اٹھا لیا اور بعد میں اس نے اپ کو السلام علیکم کر دیا ۔
قائد جمعیت: حضرت یہ ہمارے دوستوں کے رویوں اور نیتوں پر ہے اس سے ہماری نیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہمیں راستے میں کوئی چھوڑتا ہے راستے میں پہنچا کر چھوڑ دیتا ہے یہ ان کا رویہ اپنی کارکردگی تاریخ پر رقم کرا رہے ہیں اور ہم بھی تاریخ کے صفحات پر اپنی والی رقم کر رہے ہیں
حامد میر: یہ جو اب اپ کی تحریک ہے یہ اب پشاور کے بعد کیا کریں گے اپ اسلام اباد کی طرف ائیں گے کیا کریں گے ؟
قائد جمعیت: پشاور کے بعد ہم نے پھر بیٹھنا ہے اور مل کر لائحہ عمل بنانا ہے اور ملک گیر بنانا ہے ان شاءاللہ، ابھی تو ہم نے صرف ٹیسٹ کیا ہے ٹیسٹ کامیاب رہا ہے اور اگے ہم لوگ پھر اس سے بڑھ کر جائیں گے ان شاءاللہ، پنجاب میں بھی جائیں گے ۔
حامد میر: تو اس سے اگے اپ کو گرفتاریاں وغیرہ بھی دے سکتے ہیں ؟
قائد جمعیت: ظاہر ہے تحریک صرف جلسوں کا نام نہیں ہے اور جیسے اپ نے کہا کہ جلسوں سے کیا ہوا جلسوں سے کچھ اسمان تو نہیں گرتا جلسہ ہو جاتا ہے عوام اپنی رائے دیتے ہیں اور ہم نے عوام کی رائے دنیا کو بتائی اور دنیا نے نوٹ کی اس میں کوئی شک نہیں ہے اور عدم اعتماد کی طرف جب بات گئی اور ہماری اسٹبلشمنٹ کا بھی رخ تبدیل ہوا تو وہ ایسے تو نہیں ہوا بلا وجہ اور انہوں نے بہت کوشش کی بہت کوشش کی اخری حد تک کوشش کی کہ مجھے عوام سے علیحدہ کر دیا جائے اور اس تحریک کو ہم چھوڑ دیں دباؤ بھی رہا مختلف حربے استعمال کیے کہ ہم ڈٹ گئے اور وہ بھی مکمل طور پر مطمئن ہو گئے کہ ایک انچ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے ہمیں یہاں تک بھی کہا گیا کہ دیکھیے سیاسی جماعتیں اپ کے ساتھ کھیل رہی ہے ہم کو اڈیو کیسٹ لا کر سنا دیتے ہیں ہم نے کہا اس کی ضرورت نہیں ہے اس وقت کنٹینر کے اوپر ساری پارٹیاں اکٹھی ہے بس یہ کافی ہے ہمارے لیے کیونکہ یکجہتی لانی ہے ٹھیک ہے پبلک جمعیت علمائے اسلام کی ہو گی لیکن سب لوگ اس پہ اکر شریک ہوتے ہیں اور ہم ان کو خوش امدید کہتے ہیں اج صورتحال یہ ہے کہ ہم نے صرف علماء اسلام کی تحریک کی بنیاد پر عوام کو بلانا ہے اور ان شاءاللہ جمعیت علماء اسلام ہی اس وقت پورے ملک میں عوام کو لیڈ کرے گی اور تبدیلی لائے گی ان شاءاللہ
حامد میر: کوئی تحریک انصاف اور جے یو ائی میں فاصلے کم کرنے کے لیے کچھ کر رہے ہیں کچھ لوگ اپ کی پارٹی کے رہنما نے پچھلے دنوں تجویز دی تھی کہ ہماری ایک مشترکہ کمیٹی بننی چاہیے اس میں ہم تجاویز پہ غور کریں کہ فاصلے کیسے کم ہوں۔
قائد جمعیت: دیکھیے اپ کو بھی معلوم ہے کہ پی ٹی ائی اور جمعیت میں کتنے فاصلے تھے اور یہ بھی نہیں کہ کوئی پردہ بیچ میں تھا بلکہ پہاڑ بیچ میں تھا دیوار بھی نہیں تھی سو ابھی تک نہ انہوں نے پوزیشن تبدیل کی ہے نہ ہم نے پوزیشن تبدیل کی ہے لیکن جب ان کے وفود یہاں پر تشریف لائے تو ہم نے اپنے روایات کے مطابق ان کو ویلکم کیا اور ان کی تجویز تھی کہ ہم اگے جا کر کچھ معاملات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں میں نے کہا جی بسم اللہ اور اسی کا پاس رکھتے ہوئے ہم اکا دکا اکا دکا جو ان کے کچھ لوگوں کے بیانات آجاتے ہیں تو یہ ضرور ہمارے ہاں ایک سوال ہے کہ پی ٹی ائی ایک پیج پہ کیوں نہیں ہے لیکن ہم ان لوگوں کے بیانات کا کوئی نوٹس نہیں لے رہے ہم اس ذمہ دار وفد کا جو کہہ رہے تھے کہ ہم عمران خان صاحب کی کہنے پہ ائے ہیں تو ہمارے لیے وہی حجت ہے اور وہی پی ٹی ائی ہے ہمارے لیے تو جب تک وہاں سے کوئی خلاف ورزی نہیں ہوتی یا وہاں سے کوئی اس کے منافی کوئی بات نہیں ہوتی تو ہم اپنی بات پہ قائم ہیں اخلاقی طور پر بھی قائم ہیں ہم اصولی طور پر بھی ہم اس پر قائم ہیں اور اگر معاملات بنتے ہیں تو بہت اچھی بات ہے اور نہیں بن سکے گا تو پھر ہر ایک پارٹی کا اپنا ایک موقف ہوگا اپنی رائے ہوگی لیکن ہم ایک بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم نے نہ اج تک شخصی طور پر کسی کی توہین کی ہے اور نہ ہی آئندہ إن شاءالله ایسا ہو گا۔
حامد میر: اپ یہ بتائے کے اپ کی جماعت کے اندر یہ اج کل گفتگو چل رہی ہے کچھ جماعت کے جو اہم ادارے ہیں مجلس عاملہ وہاں پر بھی گفتگو ہوئی ہے کہ سیاست کو خیر بات کہہ دیا جائے اس کی کیا وجہ ہے ؟
قائد جمعیت: دیکھیے ہم الیکشن میں اس لیے حصہ لیتے ہیں کہ یہ پارلیمانی جمہوریت کا ایک بنیاد ہے اساس ہے اس کی، سب سے پہلا عوام ووٹ دیتے ہیں پھر عوام کے ان ووٹوں پر جو لوگ جیتتے ہیں وہ پھر حکومت کرتے ہیں پھر وہ ملک کو چلاتے ہیں معمولی کام تو نہیں ہے جی لیکن یہاں پر ریت یہ چل رہی ہے کہ یہاں پر اسٹیبلشمنٹ بیچ میں آجاتی ہے اسٹیبلشمنٹ جو ہے وہ اپنی امیدوار کھڑا کرتی ہے چاہے وہ ازاد کی صورت میں ہو یا کسی پارٹی سے کہیں کہ وہ ان کو ٹکٹ دے دیں اب اس قسم کی اگر کوئی سو میں ایک دو بات ہو تو سمجھ میں ا جاتی کہ چلو ٹھیک ہے کوئی اہم آدمی اپ کی طرف سے ہمیں ملتا ہے ایک دوسرے دوست کی طرف سے اچھی بات ہے جی، لیکن معاملہ اگر یہ ہو کہ بالکل سرے سے عوام کی رائے ہی تبدیل کر دی جائے یعنی عوام کی رائے اپ کے حق میں ہو اور مکمل طور پر میرے حق میں آجائے تو یہ بہت بڑی دھاندلی ہے تو اس صورتحال کو ہم 18 میں بھی دیکھ رہے ہیں اس صورتحال کو ہم نے اس دفعہ بھی دیکھا ہے اور یہ صورتحال پھر ظاہر ہے کہ الیکشن اور عوام کی نہیں رہی اگر عوام کی رائے کی یہ قدر و قیمت ہے تو پھر کیا ضرورت ہے جی ہم لوگ پیسے بھی خرچ کریں ہم لوگ خجل خوار بھی ہو ہم لوگ دشمنیاں بھی مول لے وہ دشمنیاں پتہ نہیں کتنے دہائیوں تک چلتی رہتی ہے یہ ساری چیزیں ہم اس لیے کرتے ہیں کہ ہم الیکشن لڑ رہے ہیں تو میرا اپنا منشور ہے اپ کا اپنا منشور ہے کوئی اپنے حوالے سے کوئی علاقائی مسائل پر بات کرتا ہے اور لوگوں سے ووٹ لیتا ہے یہ اتنی تھکان اور اتنی خجل خواری کس مقصد کے لیے، اس لیے کہ یہ لوگ فیصلہ کریں گے اور یہ ہمیں کہیں گے کہ فیصلہ تو ہم نے کرنا ہے یقین جانیے ایک دفعہ مجھے اپنے ہی ایک ساتھی نے کہا کہ تم بڑے بڑے جلسے کرو سیٹیں اتنی ملے گی جو وہ آپ کو دیں گے ۔
حامد میر: لیکن میں اپ کو تھوڑا پیچھے لے کے جاتا ہوں 1988 میں جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس وقت اپ کو قومی اسمبلی کے اٹھ سیٹیں ملی تھی، پھر 90 میں الیکشن ہوا تو چھ ہو گئی پھر 93 میں چار ہو گئی تو اس وقت بھی تو کم ہو رہی تھی تو اپ نے یہ کیوں نہیں سوچا ؟
قائد جمعیت: حامد میر صاحب ہمیں تو اس وقت پتہ بھی نہیں تھا کہ انتخابات میں ایجنسیوں کا بھی کوئی رول ہوتا ہے پتہ بھی نہیں تھا نئے نئے ہم لوگ ائے تھے اس میدان میں، تو ہم حیران تھے کہ یہ ہو کیا رہا ہے جس وقت 1993 کے بعد مجھ پر ایسے الزامات لگائے گئے جو شرافت سے بھی گری ہوئی تھی انتہائی گھٹیا قسم کے، تو ہمارے ذہن میں یہ بات ائی کہ یہ جو ہماری تعداد کم ہو رہی ہے یہ شاید عوام کے ووٹ کی وجہ سے نہیں ہو رہی یہ کچھ قوتیں ہیں جو قوم کو تاثر دے رہے ہیں کہ فضل الرحمن اس لیے ایوان سے نکل گیا کہ وہ کردار کا غلط تھا تو اس کے بعد پھر ہم نے 1997 میں مرکزی مجلس عمومی کا اجلاس بلا کر ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک اجلاس کیا اور اس اجلاس میں ہم نے کہہ دیا تھا کہ ہم شاید ائندہ اس الیکشن کا حصہ نہیں بنیں گے ہم تحریکوں کے ذریعے سے انقلابی سیاست کریں گے جی، بس یہ کہنا ہی تھا کہ دنیا پلٹ گئی اور پھر جو رابطے ہوئے اور میرے تو بزرگ تھے والد کی جگہ پر تھے نوابزادہ نصراللہ خان صاحب وہ جب میں ان کی خدمت میں ہمیشہ لاہور میں حاضر ہوتا تھا حاضر ہوا تو انہوں نے ڈانٹا مجھے، پھر انہوں نے کہا کہ نہیں یہ فیصلہ واپس لو یہ کرو وہ کرو میں نے کہا نہیں میں حتمی نتیجے پہ پہنچ چکا ہوں کہ اگر ہم عزت کے ساتھ اس ملک میں سیاست نہیں کر سکتے اگر یہ نتائج ہوتے ہیں اور اس طرح کے ادارے ہمارے ساتھ رویہ رکھتے ہیں اس کے بعد پھر اداروں نے مجھ سے رابطہ کیا اور یہ میری زندگی کا پہلا رابطہ تھا ان اداروں کے ساتھ، ان کے بڑوں کے ساتھ جی جس میں انہوں نے معذرت کی اور تسلیم کیا کہ ہم نے کیا تھا اور یہ الفاظ تھے اس کے کہ میں کنسرن کوارٹرز کو ہدایات دے دوں گا ائندہ ایسا نہیں ہوگا۔
حامد میر: تو اس بندے کا نام بھی بتا دیں ۔
قائد جمعیت: نہیں یار تنہائی میں تھا میں رازوں کا بڑا خیال رکھتا ہوں احترام ہوتا ہے ۔
حامد میر: اچھا چلیں بس مجھے شاید پتہ ہے وہ کون ادمی تھا لیکن چلیں اگر اپ نے خیال رکھا ہے تو میں بھی رکھتا ہوں یہ بتائیں کہ تو اب وہی صورتحال دوبارہ ہے اب اپ کا جو جنرل کونسل کا اجلاس ہونے والا ہے اس میں اپ یہ فیصلہ کریں گے کہ سیاست کبھی بھی
قائد جمعیت: جی ہماری مرکزی مجلس عاملہ کا جب اجلاس ہوا الیکشن کے فورا بعد چار پانچ دن کے بعد تو یہ بات بحث اس میں ائی ہے کہ پھر اس مشق کی ضرورت کیا ہے اس ایکسرسائز کی ضرورت کیا ہے تب تو ہم سیدھے سادھے ان کے دروازے پہ بیٹھ جائیں کہ سر ہم اپ کے نوکر اپ نے ہمیں اسمبلی میں کتنی سیٹیں دینے ہیں بتا دینا چاہیے ہمیں کیا پڑی ہے کہ ہم گلی گلی کوچے کوچے پھر رہے ہوں اور ادھر سے دہشت گرد ہمیں تھریٹ کر رہے ہوں ادھر سے ان کے تھریٹ لیٹر مل رہے ہوں اور گھر سے نکلنے کی اجازت بھی نہیں اور الیکشن بھی ہم لڑ رہے ہیں جی اس طرح خوار ہونے کی کیا ضرورت ہے مجھے اپ بتائیں حضرت کہ الیکشن جتنا قریب اتا گیا ہمارے تھریٹ بڑھتے گئے اور ان اداروں کے تھریٹ لیٹر بھی بڑھتے گئے ہمیں کوئی جلسہ نہیں کرنے دی یا پبلک سے ملنے نہیں دیا گیا اپ کو میں بتاؤں کہ میں پشین کے حلقے میں صرف گیا ہی نہیں ہوں ایک جلسہ بھی میں نے وہاں نہیں کیا، ٹانک میں میں نے ایک جلسہ کیا وہ بھی خوف کے ماحول میں، ڈیرہ اسماعیل خان میں میں نے ایک جلسہ کیا ہے اور بھی خوف کے ماحول میں اور بس اس کے علاوہ میں پبلک میں نہیں جا سکا ہوں ک جو میں جاتا تھا دیہاتوں میں پبلک کو ملنے کے لیے براہ راست ان سے ووٹ مانگنے کے لیے میں جایا کرتا تھا نہیں جا سکے ہم لوگ، اور جہاں جاتے تھے کہ اپ اس طرف نہیں جائیں گے یہاں پر لوگ بیٹھے ہوئے ہیں یہ ذرا اپ نے نہیں جانا یہاں لوگ بیٹھے ہوئے ہیں حالت یہ تھی کہ الیکشن کے دنوں میں بیس بیس پچیس پچیس تیس تیس پولنگ سٹیشنیں جو ہیں وہ ایک ہفتے کے اندر اندر تبدیل کی گئی تھی اور وہ پولنگ سٹیشنز چن چن کر تبدیل کی گئی جہاں پر ہماری اکثریت بن سکتی تھی اور ایک حلقہ ہمارا جو قومی اسمبلی کا تھا جس پر اسعد الیکشن لڑ رہا تھا اس کے چھ پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ الیکشن کرایا گیا ہے ہنگامے کر دیے گئے طالبان کے حملے شروع ہو گئے ادھر سے فوج نے حملے شروع کر دیے اور ہنگامہ مچا کر سارا کھیل ہی ختم کر دیا اور جو جہاں سے ہم نے اکثریت لینی تھی ہمیں اکثریت نہیں دی گئی جی۔
حامد میر: مولانا صاحب پچھلے کچھ عرصے میں مسلم لیگ نون کے بہت سے لوگ اپ کو ملے نواز شریف صاحب بھی اپ کو ملے انہوں نے کوشش کی کہ وہ آپ کے ساتھ ریکون سائل کر لیں دوبارہ اپ کو اپنا ساتھی بنا دیں اور ابھی تک دعوی کرتے ہیں رانا ثنا اللہ صاحب کے مولانا صاحب اخر کار ہمارے ساتھ ا ملیں گے لیکن ابھی تک اپ کی گفتگو سے اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ ان کے ساتھ نہیں جانے والے، تو نواز شریف صاحب بھی ائے اپ کے پاس تو معاملہ طے کیوں نہیں ہوا ؟
قائد جمعیت: ہمارے اور مسلم لیگ نون کی دوستی کچھ اس نوعیت کی ہے کہ ہم دوست رہنا چاہتے ہیں لیکن ان کی کوشش یہ ہے کہ میں ان کے ساتھ جا کر ملوں اور میری کوشش یہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ا کر ملے گی بس یہ ہے ابھی تک فالحال تنازع جو چل رہا ہے ہمارا، اور شاید میرا مطالبہ ان سے صحیح ہے۔
حامد میر: اچھا تو نہیں ائے اپ کے پاس ؟
قائد جمعیت: جی نہیں لیکن اپوزیشن میں بیٹھے ہیں نا
حامد میر: اچھا اپ کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن میں بیٹھے ؟
قائد جمعیت: اپوزیشن میں بیٹھے، میں نے قومی اسمبلی کی تقریر میں بھی ان کو کہا پوزیشن میں آؤ اقتدار پی ٹی آئی کو دو۔
حامد میر: تو پی ٹی ائی کس طرح اقتدار میں وہ ائے گی وہ تو کہتے ہیں نہ ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہیں ۔
قائد جمعیت: نہیں ان کی اکثریت ہے وہ بنا لیں گے۔
حامد میر: کس طرح ان کی اکثریت ائے گی ؟
قائد جمعیت: جس طرح پہلے ان کے ساتھ لوگ تھے اقتدار میں ان کے ساتھ لوگ مل گئے تھے اکثریت کے لیے لوگ مل جاتے ہیں۔
حامد میر: تو نواز شریف صاحب اس پر غور کریں گے ؟
قائد جمعیت: ان کو کرنا چاہیے کیوں کہ مجھ سے زیادہ وہ پریشان ہے، نتائج کے حوالے سے وہ مجھ سے زیادہ پریشان ہے مجھے پتہ ہے وہ میرے بڑے بھائی ہیں ۔
حامد میر: تو اپ کے بڑے بھائی ہیں تو الیکشن سے پہلے کیا یہ درست ہے کہ مسلم لیگ نون نے اپ سے یہ کہا تھا کہ آئیے اپ ہمارے ساتھ مل کے الیکشن لڑیں لیکن شیر کے نشان پہ لڑے ؟
قائد جمعیت: یہ پنجاب کی حد تک تھا اور ان کا خیال یہ تھا کہ یہاں پر اپ کے پاس الیکٹیبل آدمی نہیں ہے تو کچھ چیزیں ایسی انہوں نے کہی جو ہماری عزت نفس کے لیے مسئلہ تھا اور ہم ان کی باتوں پہ ناراض ہو گئے تھے کہ اپ ایسا ٹھیک نہیں کہہ رہے سیاسی پارٹی سے یوں کہنا، بہتر یہ تھا کہ وہ کسی فارمولے کے بغیر کہہ دیتے کہ بھئی یہاں پر اپ کے پچھلے ووٹ اتنے تھے ہم یہ حلقہ اپ کے لیے چھوڑ رہے ہیں معقول ووٹ اپ نے لیا تھا ہمارا ووٹ اپ سے ملے گا تو اپ جیت جائے گے یہ ان کے اوپر ہمارا حق تھا لیکن ان کو شائد ہماری یہ بات بھلی نہیں لگی مناسب نہیں لگی ہوگی تو انہوں نے پھر ہمیں الیکشن میں حصہ داری نہیں دی۔
حامد میر: تو پھر یہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار تھے ؟
قائد جمعیت: ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار تھے ان کا خیال تھا کہ ہر شخص ان کو ووٹ دے رہا ہے اور کسی اور پارٹی کے ہمارے پارٹی کے ساتھ گنجائش نہیں ہے اپ نے دیکھا نا جب میاں صاحب تشریف لائے باہر سے اور امید پاکستان بن کر تشریف لائے تو لاہور میں جو ان کا جلسہ تھا یا استقبال تھا ایئرپورٹ پر تو اکیلے مسلم لیگ نے کیا انہوں نے کسی دوسری پارٹی کو دعوت نہیں دی ۔
حامد میر: اس وقت تک تو وہ پی ڈی ایم کا حصہ تھے اور اپ پی ڈی ایم کے سربراہ تھے۔
قائد جمعیت: اس کے باوجود کسی کو نہیں بلایا صرف یہ نہیں کہ کسی کو بلایا نہیں بلکہ پوری تقریر میں پی ڈی ایم کا شکریہ تک ادا نہیں کیا کہ اپ لوگوں نے 30 سال میں کچھ کیا بھی ہے یا نہیں۔
حامد میر: اور اس کے بعد پھر اپ نے اسحاق ڈار صاحب کے ذریعے ملاقات کا پیغام بھیجا تو ملاقات کافی دنوں کے بعد ہوئی تھی۔
قائد جمعیت: جی کچھ باتیں ایسی تھیں کہ جس بات پر میاں شہباز شریف صاحب اور ان کے رفقا اکر اصرار کرتے رہے تو بار بار وہ تشریف لائیں اور اصرار کریں میں اس کا کوئی مثبت جواب نہ دے سکوں تو باعث شرمندگی ہوتی ہے تو ایک خاموش قسم کی دعوت تھی کوئی ایسا نہیں تھا کہ میں نے کوئی فارمولے کے ساتھ ان کو دعوت دی اور میری رائے یہ تھی کہ میں میاں صاحب کے ساتھ بات کر لوں تو وہ شائد میری بات کو سمجھ گئے اور انہوں نے ان کو کانوے کیا تو انہوں نے خود رابطہ کیا کہ میں ا رہا ہوں اپ کے پاس، تو میں نے پھر ان کے سامنے جو اپنی بات کی تو انہوں نے کہا کہ اپ کی بات بالکل صحیح ہے۔
حامد میر: پھر ایک کمیٹی بن گئی۔
قائد جمعیت: نہیں کوئی کمیٹی نہیں بنی ہم تو کسی کمیٹی میں نہیں ہے جی، کمیٹی کس بات پہ بنتی موضوع ہی نہیں بن رہا تھا بس چند خیر سگالی کی باتیں ہوئیں۔
حامد میر: اچھا اب یہ بتائیں کہ یہ جو ابھی سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے انہوں نے مخصوص نشستوں پہ جو پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے اس کو معطل کر دیا ہے اور جن پارٹیوں کو پی ٹی ائی کی سیٹیں مل گئی تھی نون لیگ کو، پیپلز پارٹی کو، اپ کو بھی ملی تھی اب اپ کی بھی تین سیٹیں جو ہیں وہ نکل گئی اپ نہیں سمجھتے کہ یہ غلط تھا کہ یہ سیٹیں نہیں لینی چاہیے ؟
قائد جمعیت: حضرت ہمارا تو دماغ پھر گیا ہے آئین کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معتبر ہے لاہور کا معتبر ہے اسلام اباد کا معتبر ہے سپریم کورٹ کا معتبر ہے الیکشن کمیشن کا معتبر ہے قوم کو ایسا کر دیا کہ ان کو سمجھ میں نہیں ا رہا کہ فیصلے کی اخری قوت کون ہے بناتے ہیں پھر بگاڑتے ہیں بناتے ہیں پھر بگاڑتے ہیں اور ان کی مرضی جس کو ممبر اسمبلی کا بنایا جس کو نہ بنایا ہے الیکشن کمیشن تو بیچ سے فارغ ہے بات بنیادی یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو اپنے حال پہ چھوڑے ان کو طاقتور بنائے ہر کیس ان کا لے کر جو ہے وہ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں فیصلہ ہمارا، تو ہم اس پر تعجب کا اظہار کر سکتے ہیں کہ یہ کون سا ائین ہے کہ جس کے تحت جو ہے کبھی کسی کو فیصلے کا اختیار ہے تو کبھی کسی کو، کم از کم کورٹ کو بڑی خوداعتمادی کے ساتھ یہ کہنا چاہیے کہ بھئی ہر چیز ہمارے پاس کیوں لے کر اتے ہو اور پھر کورٹ کے اندر بھی حضرت تقسیم ہے کچھ ایسے جج ہیں جو واضح طور پر ایک سیاسی پارٹی کے حلیف ہے اور وہ ان کے پاس دوڑتے ہیں دوسری پارٹی دوسرے کے پاس دوڑتی ہے تو جب پتہ چلتا ہے کہ اپ اس لیے فلاں عدالت میں جا رہے ہیں کہ وہاں ایک جج یا دو جج اپ کے حامی ہیں اور میں اس لیے اس عدالت کے پاس جا رہا ہوں کہ وہاں میرے حامی اور یہ عدالت ہو گئی پھر، لہذا اداروں کو اپنا مقام و مرتبہ جو ہے اس کو خود بھی ذرا خیال رکھنا چاہیے ۔ میں پاکستان کا ایک شہری ہوں میرا یہ تاثر عدلیہ کے بارے میں نہیں ہونا چاہیے ان کے مقام مرتبہ اس کے احترام کے ساتھ
حامد میر: لیکن آپ سیاست میں مداخلت کی بات کر رہے ہیں تو اب تو کچھ جج صاحبان بھی یہ کہہ رہے ہیں جی کہ ان کے معاملات میں مداخلت ہو رہی ہے تو وہ جج صاحبان جو ہیں وہ پہلے جب نون لیگ کو ریلیف دیتے تھے تو پی ٹی ائی والے کہتے تھے کہ یہ نون لیگ کے سپورٹر ہیں اب وہ پی ٹی ائی کو ریلیف دیتے ہیں تو نون لیگ کہتی ہے جی یہ پی ٹی ائی کے سپورٹر ہیں تو ان بیچاروں کا کیا قصور ہے ؟
قائد جمعیت: حضرت یہی مسئلہ ہے نا کہ ایک عدالت کہتی ہے کہ نواز شریف جو ہے وہ ملزم ہے مجرم ہے پچیس سال قید ہے پندرہ سال قید ہے اتنا جرمانہ ہے اور نا اہل ہے اور ہمیشہ کے لیے نا اہل ہے اور پھر بیچارہ ملک سے باہر چلا جاتا ہے علاج کے نام پہ چلا جاتا ہے پھر جب واپس اتا ہے تو امید پاکستان بن کر واپس اتا ہے اور ایک ہفتے کے اندر تمام کیس ختم اس کے خلاف کچھ بھی نہیں ہے پھر اج عمران خان ایک ہفتے کے اندر ایک کیس دوسرا کیس تیسرا کیس چوتھا کیس پانچواں کیس اور ڈال دیا اس کو جیل میں اور پتہ نہیں کتنے سزا ان کو دی کوئی پتہ نہیں کہ صورتحال کل بدل جائے اور عدالتوں کو بلا بلا کر یہ بھی غلط یہ بھی غلط ہے۔ یہ جو چیز ہمارے ملک میں عدم استحکام ہے عدلیہ کے فیصلے میں اور حالات کے ساتھ ساتھ ان کے تمام انصاف بدل جاتے ہیں انصاف کے پیمانے بدل جاتے ہیں انصاف کے معیار بدل جاتے ہیں یہ چیز عام ادمی تو دیکھ رہا ہے نا اس پر تعجب تو کرے گا حیرانگی تو کرے گا۔
حامد میر: لیکن قاضی فائز عیسی صاحب کہتے ہیں کہ میرے دور میں تو کوئی مداخلت نہیں ہو رہی ۔
قائد جمعیت: میں اپ کو بتاؤں جی ان کے دور میں چھ ججوں نے خط لکھا اس کے جو جوڈیشل کونسل ہے سپریم جوڈیشل، یہ ہمارے اوپر دباؤ ہوتا ہے اور ہم دباؤ کے ساتھ فیصلہ دیتے ہیں اگر چھ ججوں کے اوپر فیصلوں میں دباؤ آسکتا ہے تو آج جو ججوں کا ایک پینل ان کو سماعت کر رہا ہے سپریم کورٹ کے لیول پر، اگر ان ججوں پر دباؤ اگیا پھر کیا ہوگا پھر تو اپ تسلیم کر لیں کہ ان چھ پہ دباؤ تھا اور دباؤ کے ساتھ ان کے فیصلے تبدیل کیے جا رہے تھے تو یہ بھی تو عدلیہ کے لوگ ہیں نا اسمان سے تو تھوڑی اترے ہیں جی۔
حامد میر: تو اپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت جو کچھ جج صاحبان کہہ رہے ہیں کہ جب سے پاکستان بنا ہے تو سب لوگ یہاں پہ جھوٹ بولتے رہے غلط بیانی کرتے رہے اور اب وقت اگیا ہے کہ ہم سچ بولیں تو اگر پاکستان میں ائین کی بالادستی قائم ہو جائے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔
قائد جمعیت: دیکھیے یہ باتیں جو ہیں جب عملی ہوں گی جب ان کے اثرات ہم تک پہنچیں گے تبھی ہم اس وقت اس کی تصدیق کر سکیں گے مشکل یہ ہے کہ ائین کچھ کہتا ہے فوج کے بارے میں بھی عدلیہ کے بارے میں بھی اور ہو رہا ہوتا ہے کچھ اور، اور پھر اگر اپ اس پر اعتراض کرتے ہیں تو کہتے ہیں اپ فوج پہ کیوں تنقید کی اپ نے عدلیہ پہ کیوں تنقید کی اس پر تو ائین کے تحت اگر تنقید کی جائے تو اس میں یہ سزا ہے ۔
حامد میر: وہ آرٹیکل 19 جو ہے اس میں پانچ چھ پابندیاں ہیں ۔
قائد جمعیت: وہی عرض کر رہا ہوں نا تو وہ کام نہ کریں نا جس کے اوپر تنقید ہو سکے ذرا وہ بھی احتیاط سے کام لے نا وہ انہی دفعات کا سہارا لے کر ہمارے ساتھ جو کرے عوام کے ساتھ جو کرے سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ان کے رہنماؤں کے ساتھ جو کرے ان کو کھلی اجازت اور اگر اپ اس کی کارکردگی پر اعتراض کرتے ہیں تو کہتے ہیں جی اپ تو آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہے ہماری توہین کر رہے ہیں۔ کوئی توہین نہیں ہوتی حضرت لیکن ایک اوپن جو ایک پولیٹکل سوسائٹی ہے ہماری اس میں اگر اس قسم کی چیزیں سامنے ائیں گی پھر تو ظاہر ہے تنقید ہوگی فوج کا سیاست میں انا حرام ہے حرام ائین کے لیے
حامد میر: یہ تو اج ڈی جی ائی ایس پی ار نے بھی کہا ہے۔
قائد جمعیت: فوج کا سیاست میں انا حرام ہے پھر اس کے باوجود فل سیاست وہ کرتی ہے تمام سیاست پہ قبضہ کر لیتی ہے تمام سیاسی فیصلے وہ کرتی ہے قانون سازی تک میں مداخلت کرتی ہے فوج نہیں کرتی خفیہ ایجنسیاں کرتی ہیں ان کے ذریعے سے اتی ہیں تاکہ ہمارا بھرم جو ہے وہ رہے پھر اس کے بعد اپ کہتے ہیں جی ان پر تنقید نہ کریں تو جب سیاست یاد رکھیں جب فوج سیاست میں ائے گی تو سیاست بھی فوج میں جائے گی پھر گلہ نہ کرے۔
حامد میر: لیکن مولانا صاحب پھر سیاست دان بھی تو 2019 میں ارمی ہاؤس میں جنرل باجوا کے ساتھ ملاقات کرتے ہیں اور اس سے پہلے بھی ملاقات کرتے ہیں میں اپ کی طرف اشارہ کر رہا ہوں اپ بھی ملے شہباز شریف صاحب بھی ملے زرداری صاحب بھی ملے تو کیوں اپ کیوں ملتے ہیں ان کو جا کے وہاں پہ اپ کیوں نہیں کہتے بھئی کہ ارٹیکل 243 کے تحت اپ وفاقی حکومت کے ماتحت ادارے ہیں ہم سے ملاقات مت کرو ؟
قائد جمعیت: کیا یہ بچے ہیں کہ ان کو سکھانا ہوتا ہے کہ یہ دفعہ اس طرح لکھا ہوا ہے خود ان کو کوئی عقل شعور نہیں ہے ۔
حامد میر: وہ اپ کو سامنے بٹھا کے کہتا ہے تحریک اعتماد واپس لو اپ کہتے ہیں..
قائد جمعیت: ہم نے ان کی تجویز کی حمایت نہیں کی اور اخر وقت تک نہیں کی ہے میں بھی تو سیاسی پارٹی کا سربراہ ہوں میں کیوں اپنے موقف پر ڈٹا رہا، مجھے بھی ملے ہیں یہ کہ نہیں ملے اگر میری فوج ہے پاکستان کی فوج ہے وہ کسی معاملے پر بات کرنا چاہتی ہے تو میں کوئی ا نڈیا کے سربراہ سے تو نہیں مل رہا فوجی سربراہ سے، میں کوئی برطانیہ کے فوجی سربراہ سے تو نہیں مل رہا لیکن بات وہ کروں گا جو میرے ضمیر کے مطابق ہو اور اگر انہوں نے ائین کی خلاف ورزی کی ہے تو پھر منہ پر جو کہنے والا ہے وہ فضل الرحمن ہے ۔
حامد میر: میرا خیال ہے کہ اپ نے بھی کی ہوگی بات لیکن جو بات مولانا غفور حیدری صاحب نے کی تھی وہ اپ نہیں کر سکے تھوڑی تفصیل بتائیں گے ؟
قائد جمعیت: اس کا معنی یہ ہے کہ ہماری جماعت کے اندر وحدت فکر ہے وہ حضرت جذبات بھی ہے۔
حامد میر: اچھا انہوں نے جذباتی بات کی تھی ؟
قائد جمعیت: بس اب چھوڑے کچھ چیزیں ہوتی ہے جو اپس کی ہوتی ہے ۔
حامد میر: ویسے مجھے اپ نے تو نہیں بتائی نا
قائد جمعیت: وہ میں نے نہیں بتائی اپ کو ایک اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔
حامد میر: بہرحال کیونکہ وہاں پہ اپ دو کے علاوہ اپ کی پارٹی کا تیسرا ادمی بھی تھا تو بہرحال اگر میں نے یہ سوال اس لیے کیا ہے ۔
قائد جمعیت: شائد انہوں نے باہر کہی ہوگی ۔
حامد میر: نہیں میں نے یہ بات اس لیے کی ہے کہ اگر اپ ایک طرف کہتے ہیں جی کہ ان کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تو دوسری طرف اگر اپ ان کو مل کر غفور حیدری صاحب کے انداز میں اس گن گرج کے ساتھ اپ ان کو کہیں کہ اپ غلط کر رہے ہیں تو شاید وہ رک جائیں ۔
قائد جمعیت: دیکھیے ایسا نہیں ہے انہوں نے کچھ ذرا اپنے حدود سے نکل کر بات کی اس پر ردعمل تھا کہ ہمارے طرف سے ایسی ہمارے مزاج ہی نہیں ہے یہ کہ ہم ایک شخص سے بات چیت کر رہے ہوں اور پھر دیکھیے حامد میر صاحب ایک بات ہے اگر ہمارا سنجیدہ الزام ہو کہ بھئی الیکشن میں ساری دھاندلی اپ نے کی ہے تو پھر ان سے بات نہیں کریں گے تو کس سے کریں گے انہی سے کہیں گے نا کہ اپ نے زیادتی کی تو کیا وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ فضل الرحمن نے ہمارے ملاقات میں کہا کہ نہیں اپ تو بڑے اچھے لوگ ہیں ٹھیک ٹھاک کام کیا ہے جی وہ یہی کہیں گے کہ انہوں نے کہا کیوں میں نہیں مانتے اس چیز کو وہ میں نے جو باتیں کی ہیں وہ سب ریکارڈ پہ ہے یا شائد کل کو وہ کتاب لکھے گا اس میں شاید وہ یہ لکھیں ۔
حامد میر: لیکن اس میں شائد وہ یہ نہ لکھے کہ انہوں نے اخر میں اپ کو پرفیوم کا گفٹ کیا اور اپ نے وہ استعمال نہیں کی کسی اور کو دے دی ۔
قائد جمعیت: پتہ نہیں کون اپ کو یہ باتیں پہنچاتا ہے ۔
حامد میر: اچھا اب اخر میں یہ بتائیں کہ جو اپ کی جو تحریک ہے اپ کے ملین مارچ ہیں اس کے حوالے سے ایک عام تنقید یہ کی جا رہی ہے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب جو ہیں ان کے ساتھ تو دھاندلی ہوئی ہے خیبر پختون خواہ میں اور خیبر پختون خواہ میں ان سے جیتی ہے تحریک انصاف تو ان کو احتجاج تحریک انصاف کے خلاف کرنا چاہیے لیکن وہ الیکشن کمیشن کے خلاف ہو رہے ہیں اداروں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
قائد جمعیت: یہ سوال میں بھی سن رہا ہوں لیکن یہ ایک سکڑا ہوا دماغ نہیں ہوتا سکڑا ہوا دماغ جو ہمیشہ چھوٹے نقطوں پہ سوچتا ہے اور جس کے سوچ کا ظرف اتنا نہیں ہے کہ وہ کوئی ملک کا احاطہ کر سکے وہ ابھی تک بھی شاید ہماری پولیٹکس کو نہیں سمجھے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی پاکٹ پولیٹکس کر رہے ہیں دیکھیے اس وقت بھی ہم خیبر پختونخواہ میں ہی ہارے تھے نا تو پھر میں نے کراچی میں جلسے نہیں کیے سکھر میں نہیں کیے میں مظفرگڑھ میں نہیں گیا کوئیٹہ بھی گیا اور اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے الیکشن جب ہوتا ہے اگر ایک قومی اسمبلی کے الیکشن میں بھی دھاندلی ہو جائے تو پورے ملک کی دھاندلی کہلاتی ہے اگر ایک صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر بھی دھاندلی ہو جائے تو پورے صوبے کی دھاندلی کہلاتی ہے لہذا یہ کہنا کہ یہ جو ہمیں بالکل لوکلائز کر دیا گیا ہے کہ ہر شخص اپنے لوکل ایجنڈے کے اوپر ہی بات کرتا ہے اپنی ضلعے کی اپنے حلقے کی اور اسی کا رونا رونا تو یہ میرا خیال میں وہ قومی سطح کی سوچ کے عکاس نہیں ہوا کرتی ہمیں بڑے کھلے دل کے ساتھ ملک کے حوالے سے سوچنا ہے اگر کراچی کے لوگوں کے ساتھ اگر سندھ کے لوگوں کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے مجھے اس کی بھی اواز اٹھانی ہے اگر بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے مجھے اس کی بھی اواز اٹھانی ہے اگر پنجاب کے لوگوں کے ساتھ ہوئی ہے مجھے اس کی بھی اواز اٹھانی ہے یہ غلط بات ہے یہ تو میرے موقف کو کمزور کرنے کی ایک شعوری کوشش ہے کہ اوہ میں تو ڈی آئی خان میں ہارا ہوں تو شائد میں وہاں کے حوالے سے بات کر رہا ہوں۔ تو اس قسم کی سوچ کا حامل میں نہیں ہوں میں نے پہلے بھی جرنیلوں پر بھی واضح کر دیا تھا کہ مجھے کہا گیا کہ اپ سینٹ کے چیئرمین بنے سینیٹ کا رکن بنے میں نے کہا میں یہ لڑائی نہیں لڑ رہا ۔
حامد میر: سینٹ کا چیئرمین بنانے کی افر اپ کو پچھلے دور میں بھی ہوئی تھی ؟
قائد جمعیت: جی اور میں نے نہیں مانی ۔
حامد میر: باجوہ صاحب کا دور تھا ؟
قائد جمعیت: ہاں میں نے نہیں مانی اور پھر یوسف رضا گیلانی صاحب آگئے میدان میں،
حامد میر: اچھا یوسف رضا گیلانی صاحب کے چیئرمین سینٹ بننے میں تو اپ بھی بڑے خوش ہیں ؟
قائد جمعیت: ابھی ؟
حامد میر: ہاں
قائد جمعیت: حضرت میں بڑے لوگوں کا احترام اور ان کا بڑے مناسب پر فائض ہونا اس پر کبھی بھی میں نہ حسد کرتا ہوں نہ اس کے حوالے سے میں کوئی لیکن ایک ہے کہ اصولی طور پر کوئی چیز ٹھیک ہے یا نہیں ٹھیک جگہ پر ہے اور یوسف رضا گیلانی صاحب کے ساتھ ہمارے بڑے خاندانی تعلقات ہیں اور بہت پرانے والد صاحب کے زمانے سے ان کے والد صاحب ہمارے والد صاحب ملتان کے رہنے والے ہیں ہم سارے تو وہ جو عزت و احترام کا ایک رشتہ ہے جی وہ تو ہم سیاست میں ہم اس حوالے سے قدامت پسند ہیں نوابزادہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ شخصی تعلقات کے حوالے سے ہم قدامت پسند ہیں تو یہ جدید سیاست جو ہے نا یہ وہاں پہ اثر انداز نہیں ہوا کرتی ۔
حامد میر: بہت بہت شکریہ مولانا صاحب
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب