تحریر :مولانا علی عمران
پاکستان کی سیاست کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی اور جہاں بھی لکھی جائے گی، اس میں مولانا کا تذکرہ ایک جزو لازم اور ایک ذکی، ذہین اور ماہرِ سیاسیات کے طور پر کیا جائے گا.ایک ایسے وقت میں جمیعت کی قیادت سنبھالنا، جبکہ ہر طرف سے مصائب ٹوٹ پڑے ہو اور غیر ہی نہیں، اپنے بھی چراغ بجھانے کی کوششوں میں لگے ہو اور سیاسی آمر مخالفت پر کمربستہ ہو، ایسے میں نظرئے اور محض نظرئے کی سیاست کو رجحان دینا اور اس خاطر قید وبند کی سہولت اختیار کرنا انہی پر جچتا ہے.
پھر وقت کے ساتھ ساتھ مولانا نے وہ سیکھا، جسے ان کے ساتھی سیاستدانوں نے نظرانداز کئے رکھا تھا، یعنی منفی سیاست کو چھوڑ کر، مثبت انداز جہت اختیار کرنا اور اپنے نظرئے اور مقصد کے حصول کی خاطر حکومت کا حصہ بن کر کام کرنا.
بظاہر یہ مولانا کے اوپر اعتراض کے طور پر کہا جاتا ہے کہ مولانا ہرحکومت کا حصہ ہوتے ہیں.! یہ مگر کون نہیں جانتا کہ ہر سیاسی پارٹی حکومت حاصل کرکے اپنے نظرئے اور منشور کو عام کرنے کے لئے بنائی جاتی ہے!
دنیا میں وہ کونسی پارٹی ہے، جو یہ کہے کہ اس کا مقصد حکومت نہیں، اپوزیشن میں بیٹھنا ہے اور اُدھر سے اپنے منشور کو چلانا ہے؟
ظاہر ہے ہر ایک پارٹی کا یہی سمجھنا ہے اور اسی کے لئے وہ ساری کوشش ہوتی ہے، جو پارٹیاں کرتی ہیں اور وہ ساری جوڑ توڑ، جس کا کچھ ٹریلر ہماری قوم نے حالیہ سینٹ انتخابات میں دیکھا ہے.
سچ تو یہ ہے کہ مولانا کی ذات نے اس وقت اسلام پسندوں کی ایک بڑی تعداد کو ریاست کے نظم کیساتھ جوڑے رکھا ہے اور ریاستی اداروں کی طرف سے زیادتی، تشدد اور ہر طرف سے تنگ کرنےکے باوجود بھی وہ سارا طبقہ پرامن رہاہے، جس کا انتساب مولانا کی سیاسی فکر کیساتھ ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر آج مولانا قوم کو دھرنے کی کال دیدے، تو ملک چند گھنٹوں کے اندر مفلوج ہوکر رہ جائے گا..مگر مولانا ملک و ملت کو جمہوری طور طریقوں کے مطابق چلانے کے قائل ہیں..اسی وجہ سے آج جب تمام پارٹیاں بوٹوں کی بو سونگھ کر اسی کیمپ کا رخ کر رہی ہیں اور پیپلز پارٹی جیسی اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعت بھی پیا دیس سدھار گئی ہے، یہ محض مولانا ہی ہیں، جو کھلم کھلا نواز شریف کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ مخالفت میں کمر ملا کر کھڑے ہیں، جس کا خمیازہ ان کو سبطین کی ہفوات اور بلوچستان میں ایسی اکھاڑ پچھاڑ کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے، جس کا اثر آئندہ الیکشن میں ان کی سیٹوں پر بھی پڑتا محسوس ہورہا، وہ مگر اس مشکل مرحلے میں نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھلے عام ان کی حمایت کررہےہیں.
ملکی سیاست پر نظر رکھنے والے ایک طالب علم کی حیثیت سے مولانا کا یہ اسٹینڈ واقعی قابل تعریف ہے اور ہر وہ انسان اس کی تعریف کرے گا، جو پارٹی سیاست سے بلند ہوکر اس سارے معاملے کو دیکھے گا.
مولانا فضل الرحمن صاحب کی سیاسی دوراندیشی
Facebook Comments