قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب
13 فروری 2025
الحمدلله رب العالمین والصلوۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین وعلی آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلی یوم الدین
میڈیا کے یہاں پر موجود قائدین، ذمہ داران، اور بالخصوص ہمارے بزرگ خاتون مہمان سے ہم خوش آمدید کہتے ہیں۔ سب سے پہلے تو میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے یہ اجتماع منعقد کیا اور اس مجھے اس میں شرکت کا اعزاز بخشا۔ پیکا قانون جب آیا، تو آپ کے یونین کی طرف سے صحافی حضرات کا ایک وفد مجھے ملا۔ چونکہ میں خود بھی میڈیا سے کچھ شاکی رہتا ہوں، تو میں نے ضرور یہ کوشش کی کہ میں اس قانون کو سمجھوں اور اگر اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں یا واقعتاً کچھ خامیوں کو ایڈریس کیا گیا ہے، اور اس کی اصلاح کی گئی ہے تو میں اس کی حمایت کروں اور اگر اس میں خامیاں ہیں اس میں قدغنیں ہیں، ناجائز قدغنیں ہیں، اور ایک جمہوری ملک میں جمہوری ماحول میں میڈیا کا گلا گھونٹا جا رہا ہے تو پھر میں واضح طور پر ایسے قانون سے اختلاف کروں۔ مجھے اس گفتگو کے نتیجے میں اس بات کا اطمینان ہوا کہ ماضی میں حکومتوں نے ڈکٹیٹرز نے آزادی رائے پر جب بھی ہاتھ ڈالا ہے وہ سب سے پہلے انہوں نے صحافت کا گلا گھومنے کی کوشش کی ہے۔ ان کو اپنے مرضی کے تابع بنانے کی کوشش کی ہے۔ ان کو سچ بولنے سے روکا ہے، اور میں چونکہ اس گھرانے میں آنکھ کھول چکا کہ جب میں طالب علم تھا سکول میں، تو بھی میں یہی نعرے سنتا تھا “لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی، “ظلم کی ضابطے نا منظور” حبیب جال کے نظمیں ہم سنتے تھے۔ آمین گیلانی کی ہم نظمیں سنتے تھے اور آزادی، جمہوریت، بے لاگ تجزیوں کہ اس جدوجہد میں، میں نے آنکھ کھولی ہے اور میں آج بھی اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ صحافت کی دنیا میں قدغنوں کو نامنظور کرتا ہوں اور ان کی آزادی کے لیے آپ کے شانہ بشانہ کھڑا ہوں۔
میں ہمیشہ اس بات کا حامی رہا ہوں جب کہ پارلیمنٹ میں یا حکومتی ایوانوں میں یہ تجویز آئی ہے کہ میڈیا کے لیے، صحافت کے لیے، ایک ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے۔ تو میں نے ہمیشہ یہ نقط نظر پیش کیا ہے کہ حکومت کی طرف سے ضابطہ اخلاق بنانے کی بجائے صحافی حضرات خود اپنا ضابطہ اخلاق بنا لیں، وہ بھی شریف لوگ ہیں، اس معاشرے کے لوگ ہیں، اگر ان کے نظام میں کوئی خامی ہے تو وہ خود بطور انسان کے اور شریف انسان کے سمجھیں گے کہ ہمارے اندر یہ خامی کیوں ہے اور ہماری وجہ سے کسی کی عزت نفس کیوں مجروح ہوتی ہے۔ ہم کیوں غلط خبر شائع کرتے ہیں، ہم کسی کے اوپر فیک الزامات کیوں لگاتے ہیں۔ یہ ان کو حق دیا جائے اور مجھے یقین ہے کہ اگر آج بھی آپ کو یہ حق مل جائے کہ آپ اپنا ضابطہ اخلاق خود بنائیں گے تو حکومت سے بہت ہی بہتر بنائیں گے۔
باقی تو ظاہر ہے سٹیج پہ بہت سے اکابرین موجود ہیں۔ بہت سے لوگوں نے باتیں کرنی ہیں۔ تفصیلی گفتگو کی شاید گنجائش نہ ہو، لیکن ایک بات ہمیں ضرور سمجھنی ہوگی کہ ہر ڈکٹیٹر نے آئین پر، جمہوریت پر، پارلیمنٹ پر شب خون مارا ہے، اور ابھی چند مہینے قبل 26 ویں ترمیم کے نام سے جو اس وقت شب خون مارا گیا ہم نے اس کا مقابلہ کیا، عدلیہ کو اپنی لونڈی بنانے کی کوشش کی گئی، ملٹری کورٹس بنا کر بنیادی انسانی حقوق کو سکیڑا گیا، اور آئین میں جو کچھ ایک بہت مختصر، محدود ایک استثنائیہ دیا گیا ہے اس استثنائیے کی پیٹ کو بڑھایا گیا۔ لیکن ہم نے اس مسودے کو مسترد کر دیا۔ ہم سیاسی لوگ ہیں بات چیت پر یقین رکھتے ہیں، اور بات چیت کا راستہ لیا، اس 26 ویں ترمیم کے 56 کلازز تھے، اور ہم نے حکومت کو 36 شقوں سے دستبردار کیا اور 22 شقوں پر لے آئے۔ ہمارے ہاں صرف ایک فضا بنتی ہے، حکومت مردہ باد کی فضا بن جاتی ہے، پھر اس کے بعد اپنے الفاظ میں اس کی حمایت تائید کے پیمانے بنایا جاتے ہیں۔ کوئی نہیں سوچتا کہ اس پورے پراسس کی تفصیل کیا ہے، کہاں غلطی تھی، کہاں ٹھیک تھا، کس کو مانا گیا، کس کو نہیں مانا گیا اور اس تفصیل کے ساتھ تجزیہ کر کے اس کی حمایت یا مخالفت کی جائے۔ آج مجھے بھی پتا ہے کہ بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ، دو تین مہینے کی منصوبہ بندی کے ساتھ پھر کچھ لوگ انسٹالڈ کیے گئے تاکہ وہ جنہوں نے ایک جنگ لڑی، اصول کی جنگ لڑی، اس میں فتح پائی، لیکن اس نے حمایت کی اس نے مخالفت کی اور اس عنوان کے ساتھ معاملے کو پھر ایسا معمہ بنایا جا رہا ہے کہ عام آدمی اس کے اوپر اپنی مرضی سے بحث کرنے لگ جائے۔ جب بھی آپ کوئی نیا قانون لاتے ہیں اور جب آپ اس کو امپلیمنٹ کرتے ہیں تو امپلیمنٹیشن کے دوران کچھ نہ کچھ مشکلات ضرور آتی ہیں۔ ضروری ہوتا ہے کچھ اس کی امپلیمنٹیشن میں جب مشکل آئے گی، کوئی خرابی آئے گی تو اس کی اصلاح کی جائے، نہ یہ کہ پورے پراسس کا انکار کر دیا جائے۔ نہ یہ کہ پورے اصول کا انکار کر دیا جائے۔ اگر عدلیہ کے حوالے سے میں آپ کو واضح طور پر کہہ دوں کہ ججز کی اپوائنٹمنٹ میں یا چیف جسٹس کی اپوائنٹمنٹ میں پارلیمانی کردار جہاں پوری دنیا کی جمہوریتوں میں ہے، 18ویں ترمیم کے ذریعے سے پارلیمنٹ کے کردار کو شامل کیا گیا تھا 2010-11 میں، اور پھر ایک چیف جسٹس صاحب کی دھمکی نے حکومت کو بلیک میل کیا، 19ویں ترمیم کے ذریعے پارلیمانی کردار جو نکال دیا گیا۔ آج پھر ہم نے پھر اس میں پارلیمانی کردار کو ڈالا ہے۔ اب ظاہر ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس، میری حکومت ہوگی تو شاید میں اس کا غلط فائدہ اٹھاؤں، مسلم لیگ کی حکومت ہوگی پیپل پارٹی کی حکومت ہوگی تو اس کا کوئی غلط فائدہ اٹھائیں، پی ٹی آئی کی حکومت ہوگی تو شاید وہ اپنے حکومت میں اس کا غلط فائدہ اٹھائیں۔ اب اس قسم کی چیزوں کا راستہ روکنا کچھ دشوار ضرور ہوتا ہے لیکن ہمارا ایک عوامی پریشر ہونا چاہیے اس بات پر، کہ اگر اس کا کوئی غلط فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو ہم اس کی غلط استعمال کے راستے روکتے ہیں۔
تو اس صورتحال میں ضرور کچھ چیزیں آرہی ہیں جو ہمیں بھی پتہ چلتا ہے، کہ یہاں پر آپ اندازہ لگائیں جب ملٹری کورٹ کو آئین کے ذریعے سے ہم سے نہیں منوایا گیا، تو ایکٹ کے ذریعے ان کو منوانے کی کوشش کی جہاں دو تہائی ضرورت کی ضرورت نہیں تھی۔ عدالتوں کے حوالے سے جو چیزیں وہ آئین میں ہم سے نہ منوا سکیں وہ اپنی اکثریت کی بنیاد پر ایکٹ کے ذریعے سے وہ اقدامات کر رہے ہیں اور آئین کے انے کے بعد پھر سادہ اکثریت کے ساتھ ایسے اقدامات کرنا جو آئین کی ترمیم کے روح کے منافع ہو یہی تو جمہوریت دشمنی ہے، ان کو احترام نہیں آئی ان کا، ان کو احترام نہیں پارلیمنٹ کے فیصلوں کا، ان کو احترام نہیں دو تہائی اکثریت کے فیصلوں کا، آئیے ہم اس بنیاد پر سوچیں کہ کچھ تھوڑا سا احترام کر کے آپ اس کو امپلیمنٹ کرتے ہیں، شائستگی کے ساتھ امپلیمنٹ کرتے ہیں اور اس میں قانون کے ذریعے ایکٹ پاس کر کے آپ اس کی روح کو نہ چھینتے تو ایک اچھی پیش رفت اس بارے میں ہوسکتی تھی۔
تو اس حوالے سے سیاسی کھیل بھی کھیلے گئے، اپوزیشن کو تقسیم کرنے کی بھی کوشش کی گئی، پی ٹی آئی اور جے یو آئی کو دوبارہ لڑائی کی طرف لے جانے کی بھی کوشش کی گئی، لیکن ہم نے پوری دانشمندی کے ساتھ، سنجیدگی کے ساتھ اپوزیشن کو بھی اعتماد میں رکھا، یک جا رکھا اور ہم نے ایک ایک قدم باہم مشاورت سے آگے بڑھایا اور الحمدللہ اصولی جنگ ہم نے جیت لی۔
اب اس کے بعد ظاہر ہے کہ مسائل اب بھی بہت زیادہ ہیں۔ ہمارے دو صوبوں کی صورتحال آپ لوگ بھی خبریں دیتے رہتے ہیں، وہ انتظامی لحاظ سے پاکستان سے کٹ چکے ہیں۔ وہاں پر حکومتی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ اس وقت جب ہم اور آپ بیٹھے ہیں شام کے اس پانچ بجے کے بعد، اس وقت وہاں پر کوئی پولیس نہیں اور مسلح گروہ وہ سڑکوں کو کنٹرول کر رہے ہیں، دیہاتوں کو کنٹرول کر رہے ہیں، محلوں کو کنٹرول کر رہے ہیں، بازاروں کو کنٹرول کر رہے ہیں اور کوئی رٹ وہاں پر موجود نہیں ہے۔ جو واقعہ وہ آپ تک بھیجنا چاہتے ہیں آپ وہی چھاپ لیتے ہیں۔ آپ کو بھی علم نہیں ہے کہ اس ایک خبر کے پیچھے کتنے سینکڑوں خبریں چھپی ہوئی ہوتی ہیں۔ جو آپ کو نہیں بتائی جاتی۔ اس سے ملک نہیں چلتے ہیں۔ بلوچستان کی صورتحال یہی ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچنا ہے کہ ان سیاسی دھندوں سے جو اسلام آباد میں ہم کھیل رہے ہیں اس سے فارغ ہوں گے تو ملک کے لیے فکر کریں گے نا۔
میرے بھائیو! دو عنوان ہیں اس ایک جنگ کے، کچھ لوگ ہیں جو نظریات کی جنگ لڑتے ہیں لیکن ہمارے کچھ لوگ ہوتے ہیں وہ اپنی اتھارٹی کی جنگ لڑتے ہے۔ ان کو صرف اپنی اتھارٹی کی فکر ہوتی ہے، نہ نظریہ ہے نہ ملک کی کوئی خیر خواہی ہے صرف اور صرف اپنے اتھارٹی، نہ اس کی پرواہ ہے کہ ہمارا کردار اپنے کو قبول ہے یا نہیں، عوامی رائے چاہے ملٹری ہو اور چاہے ملٹنٹ ہو ان کے ہاں عوام کے رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ عوامی رائے کو سیاستدان لے کر چلتے ہیں۔ لیکن سیاستدانوں کو ملکی انتظام سے بے دخل کیا جا رہا ہے، پارلیمنٹ کے کردار کو ختم کیا جا رہا ہے، اور ایک بار پھر میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہا ہے۔ پھر لوگ کدھر جائیں گے۔ یہ جو دو چار آواز پارلیمنٹ میں بچے ہوئے ہیں کل اس کو بھی باہر کر دیں گے۔ کیونکہ فیصلے تو عوام نے نہیں کرنے، عوام نے دکھاوے کے لیے قطار میں کھڑے ہو کر ووٹ ڈالنا ہوتا ہے، پھر جس نے بکسہ کھولنا ہوتا ہے اس کی مرضی ہے کہ وہ کیا نتیجہ برآمد کرتا ہے۔ پھر ایسی حکومتوں پر عوام کا اعتماد نہیں رہتا، پھر ایسی مشکل میں یہ ڈمی نمائندے وہ عوام کے سامنے نہیں جا سکتے، وہ پبلک کا کیس نہیں لڑ سکتے۔ ایک زمانہ تھا میں نے بہت سوچا پورے ملک کی صورتحال پہ، میں ایک عجیب نتیجے پہ پہنچا کہ جہاں جہاں سے جمعیۃ علماء اسلام کا نمائندہ منتخب تھا چاہے قومی اسمبلی ہو چاہے صوبائی اسمبلی، اس علاقے میں امن تھا، وجہ کیا تھی کہ وہ کردار تھے، وہ پبلک میں جاتے تھے، وہ عوام کی بات سنتے تھے، مشکل حل کرتے تھے۔ آج ان کا اختیار بھی چھین لیا گیا ہے۔
تو سیاسی جماعتوں کے کرداروں کو اگر اس طریقے سے سمیٹا جائے گا، اس طریقے سے غیر موثر کیا جائے گا تو جب حق کی آواز روکی جائے گی تو پھر بات روکنے کے بعد ہاتھ اٹھتا ہے اور جب ہاتھ روکا جاتا ہے تو پھر بندوق اٹھتی ہے۔ پھر حالات کہاں جاتے ہیں اور کہاں جائیں گے اور کس طرف ہم جا رہے ہیں مجھے آج بڑا اچھا فورم ملا ہے کہ میں اپنے صحافی بھائیوں کے بیچ میں کھڑے ہو کر جہاں آپ مجھ سے پیکا کے حوالے سے تائید حاصل کرنا چاہتے ہیں اور میں علی الاعلان آپ کی تائید کر رہا ہوں۔
بہرحال یہ ہمارا ملک ہم سب کا ہے اس کی بقا اور اس کا استحکام ایک ایک شہری کی ضرورت ہے۔ صرف ہمارے اندر خود اعتمادی ہونی چاہیے۔ ہمیں طاقت کے سامنے مرعوب نہیں ہونا چاہیے۔ طاقت مردہ باد عدالت زندہ باد۔
ان شاءاللہ العزیز قدم بہ قدم ہم ایک ساتھ چلیں گے، ان شاءاللہ اور کچھ ایک پہلو اور بھی ہے جو شاید وقت طلب ہوگا پھر کسی موقع پر آپ کے ساتھ ان شاءاللہ اس پر بھی بات ہوگی۔ اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب