قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا اسلام آباد میں تقریب کتاب رونمائی سے خطاب
12 فروری 2025
الحمدلله رب العالمین والصلوۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین وعلی آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلی یوم الدین
حضرات علماء کرام، معززین کرام، میرے بھائیو، میری بہنوں! یہ تقریب بڑی مبارک تقریب ہے جس میں ہم ایک ایسی کتاب کی رونمائی کر رہے ہیں کہ جو کتاب ہماری ایک بہن کی داستان پر مشتمل ہے کہ کیسے اس نے قادیانیت سے اسلام کی طرف سفر کیا، اور خانوادہ کفر سے دائرہ اسلام میں آئی، شرف اسلام حاصل کرنے پر ہم سب دل کی گہرائیوں سے ان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ان کی استقامت کو سلام پیش کرتے ہیں، اور دعا کرتے ہیں کہ ساری انسانیت کو اللہ رب العزت ہدایت کی طرف لائے، دین اسلام کی طرف لائے، کیونکہ یہی حق راستہ ہے، یہی سچ راستہ ہے، یہی آخری راستہ ہے، اور اس کے بعد کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
اس سفر میں جن حضرات نے ان کی مدد کی، ان کو سہارا دیا، ان کی تربیت کی، میں انہیں بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ رب العزت اس کا اجر ان کو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی عطا فرمائے۔
پوری دنیا میں اور بالخصوص برصغیر میں قادیانیت برطانیہ کا خود کاشتہ پودا ہے، جس کا اعتراف اپنی کتابوں میں مرزا غلام قادیانی نے خود کیا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح اسرائیل برطانیہ کا خود کاشتہ پودا ہے۔ ایک مشنری تحریک کے طور پر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی ایک تحریک ہے، راہ حق سے ہٹانے کی ایک تحریک ہے۔ لیکن ہمارے اکابر، ہمارے اسلاف ان کو اللہ رب العزت کروڑوں رحمتوں سے نوازے جنہوں نے اس فتنے کا تعاقب کیا، اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ اس کی حقیقت دنیا پر واضح کی، انہیں غیر مسلم قرار دیا، اور برصغیر کے تمام مکاتب فکر کے علماء نے اس بات پر اجماع کیا کہ مرزا غلام ہو یا اس کے پیروکار وہ جس نبوت کا دعویٰ کرنے والے ہیں وہ جس نبوت کی پیروی کرنے والے ہیں وہ دائرہ اسلام میں نہیں رہ سکتے، نہ مسلمانوں کے قبیلے میں ان کا کوئی حق رہتا ہے۔ لیکن حد یہ ہے کہ آج دنیا میں جہاں بھی ہم جائیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے، بلکہ کیا جاتا ہے کہ آپ قادیانیوں کو غیر مسلم کیوں کہہ رہے ہیں، ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ تم پوری امت مسلمہ کو غیر مسلم کیوں کہتے ہو، تم پوری امت مسلمہ کو کافر کیوں کہتے ہو۔ سن 1974 میں جب یہاں اسمبلی میں اس زمانے میں مرزا ناصر کو اسمبلی کے کمیٹی کے سامنے بلایا گیا اور ان پر جرح ہوئی، تو ان کی کتابوں سے حوالے دے کر ان کو بتایا گیا کہ آپ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جو شخص مرزا غلام پر ایمان نہیں لاتا وہ کافر ہے، پکا کافر ہے، دائرہ اسلام سے خارج ہے، اولاد البغایہ ہے۔ تو جرح کے دوران حضرت والد صاحب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے ان سے سوال کیا کہ اگر آج حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ حیات ہوتے اور وہ ان پر ایمان نہ لاتے تو آپ کی نظر میں وہ کیا ہوتے تو اس نے کہا وہ کافر ہوتے، اگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ حیات ہوتے اور وہ ایمان نہ لاتے تو کہا وہ کافر ہوتے، اگر حضرت عثمان رضی النورین رضی اللہ تعالی عنہ حیات ہوتے تو کہا وہ بھی کافر ہوتے اگر ایمان نہ لاتے، حضرت علی کا ذکر کیا، حضرات حسنین کا ذکر کیا، حضرت فاطمہ کا ذکر کیا، اور پورا ایوان چونک اٹھا اس سے کہ اچھا یہ ہم سب کو کافر کہتے ہیں۔
تو یہ ایک بہت بڑا سوال ہے بہت بڑی جرآت ہے کہ خود کفر کرنے والا وہ امت مسلمہ کو کافر تصور کرتا ہے۔
بہ فروغِ چہرہ روُیت ہمہ شَب زَند رَہِ دل
چہ دِلاور است دُز دے کہ بکف چراغ داَرد
تو اس تمام صورتحال میں ہماری بہن خنساء محمد امین جنہوں نے اسلام لانے کی پوری داستان لکھی ہے اور پورا سفرنامہ انہوں نے ذکر کیا، اس راستے میں مشکلات کا ذکر کیا، اور تب جا کر وہ ایک مقدس منزل پر پہنچی۔ اس راہ میں جنہوں نے بھی ان کا تعاون کیا ہے، ہم ان کے بھی شکر گزار ہیں اور ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ لیکن یقیناً اسلام کا راستہ، یہ قرآن کریم کے الفاظ میں ایک گھاٹی ہے، مشکل گزرگاہ ہے۔ اور اللہ رب العزت نے اسی حوالے سے فرمایا ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے اور جب وہ شریعت کی راہ میں اور اس گھاٹی میں قدم رکھتا ہے تو جانتے ہو یہ کیا گھاٹی ہے اس میں انسانیت کی آزادی کا پیغام ہے۔ اس میں انسانی معاشرے کی معاشی خوشحالی کا ذکر ہے۔ اس میں مفلوک الحال طبقوں کا ذکر ہے۔ جس کو سہارا دینا امت مسلمہ کی ذمہ داری قرار دی گئی۔ تو اس پیغام کو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ حق راستہ ہے، لیکن مشکل راستہ بھی ہے۔ اسلام قبول کریں، اسلام کا راستہ اختیار کریں، اور پھر سوچیں کہ مشقتیں نہیں ہوں گی، آزمائشیں نہیں آئیں گی، مشکلات نہیں آئیں گی، یہ شاید پھر ہم نے دین کو صحیح سمجھا نہیں۔ ویسے تو انسان اور ہر انسان خسارے میں ہے لیکن اگر انسان کامیابی کا متلاشی ہے تو چار باتیں ہیں جو اس کو اپنانے ہوں گے، ایک ایمان اور دوسرا پاک اور ستھرا کردار، عقیدہ و کردار کی یکسانیت ہونی چاہیے، عقیدہ کچھ ہے اور کردار کچھ ہے یہ آپ کو خسارے سے نہیں نکال سکتی۔ حق کو پھیلانا اور ہمارے اکابر علماء نے اس حق کی جو تعبیر کی ہے، علماء کرام جانتے ہیں، میری رہنمائی فرمائیں گے کہ جو چیز مطلقاً ذکر ہو، علی الاطلاق ذکر ہو تو خارج میں اس کا فرد کامل مراد ہوتا ہے، الحق کا ذکر یہاں مطلقاً ہوا ہے اور حق ضد ہے باطل کا، حق کے لغوی معنی کسی چیز کے ہونے اور رہ جانے کا نام ہے، اور باطل، لغت میں کسی چیز کی مٹ جانے کا نام ہے۔ اب ہمیں معلوم نہیں کہ ہم کس چیز سے اس حق کو تعبیر کریں، حق کا ضد باطل ہے اور باطل کا فرد کامل جو ہم مشاہدہ کرتے ہیں وہ ایک ظالمانہ حکمران ہوتا ہے۔ تو حق سے بھی مراد ظالم حکمران کے مقابلے میں حق کی آواز بلند کرنا ہے۔ طاقتور باطل کے مقابلے میں ہم نے حق کی بات کرنی ہے۔ اور دلیل کیا ہے، آزمائشیں غریب آدمی اور کمزور آدمی کے سامنے حق بات کہنے سے نہیں آیا کرتی، آزمائشیں سے ہمیشہ طاقتور حکمران جو باطل ہو اس کی طرف سے ایا کرتی ہیں۔ اور سب سے زیادہ آزمائشیں اور ابتلاء انبیاء کرام پر آئیں۔ تو انہوں نے بھی تو اس زمانے کے ظلم کو اور ظالمانہ اقتدار کو اور باطل حکمرانی کو چیلنج کیا، جس کے جواب میں ان پر کیا کیا مشقتیں آئیں، کیا کیا آزمائشیں آئیں۔ اب اس کے بعد چوتھی کامیابی کا راز یہ ہے کہ پھر آپ استقلال کا مظاہرہ کریں، استقامت کا مظاہرہ کریں، گھبرائیں نہیں، پیچھے نہیں ہٹنا، اور باطل کو باطل کہنا ہے۔
تو قادیانیت ایک فتنہ ہے، ایک آزمائش ہے، باطل ہے، اور ہمارے اکابر نے جس استقامت کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا، اس کے آقا انگریز کا مقابلہ کیا، جو برصغیر پر نوآبادیاتی نظام مسلط کیے ہوئے تھا اور اس کے مقابلے میں ہمارے اکابر نے سب سے پہلے آزادی کا نعرہ لگایا، جو شریعت اسلامیہ کا اساسی مقصد ہے، اور اس کے لیے قربانیاں دی۔ پچاس ہزار سے زیادہ مسلمان سولیوں پہ لٹکائے گئے، ستائیس ہزار سے زیادہ اس میں سے علمائے کرام تھے۔ لیکن کسی نے بھی، انگریز لکھتا ہے کہ ہم نے ہر عالم دین سے کہا کہ اتنا کہہ دو کہ میرا اس تحریک کے ساتھ تعلق نہیں تھا، آپ بچ جائیں گے۔ ایک فرد بھی ہمیں نہیں ملا جس نے کہا ہو کہ میرا اس سے تعلق نہیں ہے۔ آپ اور ہم آج ان قربانیوں کے امین ہیں، اگر ہم نے کوئی کمزوری دکھائی ہم اپنے ان ابا و اجداد کو قیامت کے روز جواب دینے کے قابل نہیں ہوں گے۔
تو مشکلات آتی تھی، مشکلات آج بھی ہیں، آج بھی ٹرمپ کہتا ہے کہ غزہ کو میں قیمتاً خرید لوں گا، یہ جائے مصر میں اور اردن آباد ہو جائیں، نیتن یاہو کہتا ہے سعودی عرب کے سرزمین پر فلس طین کو بسایا جائے۔ یہ ایک بار پھر نو آبادیاتی نظام کا اعلان ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ ملکوں پر قبضہ کرنا، قوموں کو غلام بنانا، اور یہ کہ پیسے دینا ہم آپ کو آباد کریں گے، ہم آپ کو پیسے دیں گے، ہم آپ کو مدد دیں گے، یہ ان کے ایمان کو خریدنے کی ایک قیمت کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن ہم واضح طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ دنیا کے کسی ملک میں بھی جن کو برائے نام سہی آزادی حاصل ہے ہم ان کی آزادی کی حفاظت کے لیے میدان میں رہیں گے۔ ان کی حریت کی ہم جنگ لڑیں گے۔ ہم نے پاکستان میں بھی جنگ لڑی ہے، ہم نے اس لابی کو پاکستان میں شکست دی ہے جس لابی نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم چلائی، ہم نے اس لابی کو شکست دی ہے جس نے پاکستان میں قاد یا ن یوں کو دوبارہ مسلمان ڈیکلیئر کرنے کا ایجنڈا لائے تھے۔ ہم نے اس ایجنڈے کو ناکام بنایا ہے۔ میرے سامنے خود اعتراف ہوا کہ اگر آپ نے یہو د یوں سے معاشی مدد لینی ہے تو پھر اپنی تہذیب کو تبدیل کرنا ہوگا، کہ آپ کو جو اپنا وطنی تہذیب ہے جو مذہب میں رنگا ہوا ہے اس کو ختم کرنا ہوگا، بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دینا ہوگا، ہم نے اس ایجنڈے کے ساتھ جنگ لڑی ہے اور الحمدللہ شکست دی ہے ان کو، اور مزید بھی شاید اللہ ہمارا امتحان لے اس کی مرضی ہے ہم آزمائشوں کو دعوت نہیں دیں گے، ہم اللہ سے کہیں گے یا اللّٰہ آزمائشوں سے بچا لیکن اگر مقدر ہے تو پھر ہمیں اس کے لیے تیار رہنا ہوگا، کیونکہ بنیادی چیز امن ہے، عافیت ہے، نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا اللہ سے عافیت مانگا کرو اور دشمن کا سامنا کرنا اس کی تمنا نہ کیا کرو اور اگر آمنا سامنا مقدر ہو تو پھر ڈٹ جایا کرو، تلواروں کے سائے کے نیچے جنت ہے۔ تو ہر میدان کے اپنا میدان ہوتا ہے نا، گھر میں ہو تو ماں کے قدموں میں جنت ہے، میدان جہاد میں ہو تو پھر تلوار کے سائے میں جنت ہے۔
تو الحمدللہ مولانا حیدری صاحب نے اس کا ذکر کیا۔ ابھی بھی یہ فتنہ موجود ہے، ابھی حال ہی میں جو سپریم کورٹ میں ہمیں ایک آزمائش سے گزرنا پڑا، وہ بھی تو انہی سے متاثر ہو کر اس طرح کا فیصلہ دے گئے، لیکن اللہ نے کرم کیا، وہ سوچ شکست کھا گئی، اور عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی انسان ہیں ہم سے بھی غلطی ہو سکتی ہے، اور اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہو گئے۔ اور آئندہ بھی ان شاءاللہ اگر ہمارا عزم مضبوط ہے تو کسی کا باپ بھی ہم پر غلامی مسلط نہیں کر سکتا اور جو لوگ اس ایجنڈے کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالی ان کو بے نقاب کرے گا اور ہمیں ان کا مقابلہ کرنے کی توفیق عطا کرے گا۔
اللہ ہمارا حافظ و ناصر ہو، ایک بار پھر خنساء بی بی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اور ان کے لیے استقامت کی دعا کرتا ہوں۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب