قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب
17 فروری 2025
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
جناب اسپیکر! ایوان کا مشکل مرحلہ آپ کے حوالے کر دیا جاتا ہے اس لحاظ سے آپ تھوڑا بہت قابل رحم ضرور ہے، لیکن بہرحال جو ہمارے پارلیمانی روایات ہیں یا ہمارا پروسیجر ہے کوئی بھی ممبرشپ پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑا ہوتا ہے تو فوری طور پر مزید کاروائی جو ہے وہ روک دی جاتی ہے اور پوائنٹ آف آرڈر پر اس کو جو بھی بات کہی ہوتی ہے اس کی اجازت دی جاتی ہے، لیکن تعجب کی بات ہے کہ یہاں بات پروسیجر کی کی جا رہی ہے، قانون پاس ہو رہا ہے تو یہ ہو رہا ہے ہم نے تو اس ایوان میں وہ قانون سازی بھی دیکھی ہے کہ آن فان میں قانون آیا اور پاس ہو گیا ہے، نہ اس پر ڈیبیٹ ہوئی نہ ہی اس کی کوئی پروسیجر ہے۔ یہ کبھی کبھی آپ کو کس طریقے سے پروسیجر سامنے آجاتا ہے جب صرف آپ کی مفاد میں ہو اور اگر اپوزیشن اس پر بات کرتی ہے تو پھر آپ جھجک محسوس کرتے ہیں، کھلے دل کے ساتھ آپ اپوزیشن کو سنیں۔ اور ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے کہ ابھی تک آپ اس ایوان میں اضطراب، اس ایوان کی ہنگامہ آرائی کو ختم نہیں کرسکے ہیں اور اس وقت تک حکومت اور اپوزیشن کے بیچ میں اس حد تک بھی کوئی رواداری کے لیے تیار نہیں ہے کہ آپ ہماری بات سن سکیں۔ ہم اپنی گفتگو پوری کرسکیں اور ہمارا نقطہ نظر آپ سن سکیں۔ میرے خیال میں اس صورتحال میں ہر بات ہنگامہ آرائی کی نظر ہو جائے گی، ہر سیشن آپ کا ہنگامہ آرائی کی نظر ہوگا اور میرے خیال میں یہ حکومت چاہے نہ چاہے لیکن اسپیکر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایوان کو مطمئن رکھے اور اس کو اس قابل رکھے کہ وہ کسی اہم مسئلے پر ڈیبیٹ کر سکے اور ایک نقطہ نظر تک پہنچ سکے۔
جناب اسپیکر! مسئلہ صرف اس ایوان میں نہیں ہے پورا ملک پریشانی اور اضطراب میں مبتلا ہے۔ عام آدمی کے پاس نہ تو روزگار ہے اور نہ ہی جان و مال کا تحفظ، یہاں پر محکموں کے محکمے ملیامیٹ کیے جارہے ہیں۔ ادارے ملیامیٹ کیے جارہے ہیں اور وہاں پر ہزاروں لاکھوں بیروزگار ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کا فکر کس نے کرنا ہے ظاہر ہے کہ پارلیمنٹ نے اس کے بارے میں سوچنا ہے۔ اگر گورنمنٹ کوئی غلط فیصلہ کرتی ہے، عوام کے مفاد کے خلاف فیصلہ کرتی ہے، ملک کی اکانومی پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں تو ایک پارلیمانی فورم ہے کہ جہاں اس کو ڈیبیٹ میں لایا جاتا ہے اور اس پر بات کی جاتی ہے کہ حکومت کا یہ اقدام صحیح ہے یا غلط ہے۔ اور اگر اپوزیشن ایک صحیح تجویز دیتی ہے تو حکومت اسے فراخ دلی کے ساتھ تسلیم کرتی ہے تو جہاں اپوزیشن کو ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ایک سال سے میں دیکھ رہا ہوں کہ حکومت کی سائڈ سے بڑے ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔
جناب سپیکر! میں پہلے بھی یہ بات کہہ چکا ہوں اور آج دوبارہ اس کی طرف جانا چاہوں گا کہ مسئلہ ملک کی سالمیت کا ہے۔ ملک کے سالمیت کے حوالے سے کم از کم میرے مشاہدات یہ ہے کہ ملک کے سالمیت کے حوالے سے پالیسی ایوانوں میں نہیں بنائی جارہی، حکومتی حلقوں میں نہیں بنائی جا رہی بلکہ بند کمروں کے اندر ماورائے حکومت، ماورائے سیاست، ماورائے پارلیمان پالیسیاں بنائی جارہی ہیں اور ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی اس کی اجازت نہیں ہے کہ ہم ریاست کی بقا اور اس کی سالمیت کے حوالے سے یا کوئی بات کرسکیں یا کوئی تجویز دے سکے۔
خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کی صورتحال اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہی ہے۔ ہم ان کے خلاف لڑ رہے ہیں، مسلح گروہوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، ایوان بیٹھا ہوا ہے ہم سب پاکستانی ہے، ہمارا امن ایک ہے، ہماری معیشت ایک ہے، ہماری عزت و آبرو ایک ہے۔ ہمارے مشترکات ہیں قدریں ہیں اور اس حوالے سے ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اس وقت دو صوبوں میں حکومت کی کوئی رٹ موجود نہیں ہے۔ اور اگر میں آج وزیراعظم صاحب یہاں ہوتے اور ان کے خدمت میں بصد احترام یاد کرتا کہ قبائلی علاقوں میں کیا ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ متصل اضلاع میں کیا ہو رہا ہے، بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے تو شاید وہ یہی کہتے کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں ہے۔ اگر میرا حکمران جس حیثیت میں بھی ہے ملک کی معاملات کے بارے میں اتنا بے خبر ہے اور مجھے یاد ہے ایک زمانے میں ہم نے مل کر کام کیا ہے افغانستان ہمارے جرگے جاتے تھے اور میں نے جب ان سے پوچھا ان کو کوئی علم نہیں تھا، کون فیصلے کرتا ہے، کہاں فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ذمہ دار تو کل پاکستان ہوگا، ذمہ دار تو حکومت بھی ہوگی اور اپوزیشن بھی ہوگی۔ ذمہ دار تو پارلیمان ہوگا، عوام کی نظر میں تو ہم ذمہ دار ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اس وقت موجود نہیں ہے۔ کوئی نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، اور مکمل طور پر پاکستان میں خاص اسٹیبلشمنٹ وہ بند کمروں میں اور اپنے محلات میں جو چاہے فیصلہ کرتے ہیں اور حکومت کو ان کے فیصلوں پر انگوٹھا لگانا پڑتا ہے۔ ہمیں کچھ یہاں سے نکلنا ہوگا یا نہیں نکلنا ہوگا، پردوں کے پیچھے ہم نے سیاست کرنی ہوں گی، ہم نے ملک کو چلانا ہوگا۔
جناب اسپیکر! میرے علاقے میں ایسے ایسے ایریاز ہیں جس کو فوج نے بھی خالی کر دیا ہے پولیس تو خالی کر چکی تھی۔ میں آپ کو بھی بتانا چاہتا ہوں، اس ایوان کو بھی بتانا چاہتا ہوں کہ وہ علاقے جو پولیس تو خالی کر چکی تھی لیکن فوج بھی خالی کر چکی ہے اور جہاں پر جنگ ہو اور پولیس بھی نہ ہو اور فوج بھی نہ ہو تو وہ ایریا کس کے قبضے میں ہوگا اور وہاں کس کا رٹ قائم ہوگا۔ اور دل پہ ہاتھ رکھ کر مجھے کہنا پڑتا ہے انتہائی درد دل کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت بلوچستان کے پانچ سے سات اضلاع اس پوزیشن میں ہیں کہ اگر وہ آزادی کا اعلان کر دیں، اگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کر لیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، کہاں کھڑے ہیں ہم لوگ، میری گفتگو کو جذباتی گفتگو نہ سمجھا جائے میں جذباتی باتیں نہیں کیا کرتا، لیکن حقائق تک پہنچنے کے لیے پارلیمنٹ کو بھی پہنچنا ہوگا اور حکومت کو بھی پہنچنا ہوگا۔ اس وقت جب ہمارا ایوان یہاں بیٹھا ہے صوبہ خیبر پختون خواہ کے جنوبی اضلاع اس وقت وہاں کوئی حکومت نہیں ہے۔ وہاں کوئی پولیس نہیں ہے پولیس چوکیاں وہ اندر سے کنڈے لگا کر بند کر دی گئی ہے اور پولیس عملہ اس میں محصور ہے، اور سڑکیں اور علاقے اور گلیاں یہ مسلح قوتوں کے ہاتھ میں ہے۔ کب سوچیں گے ہم ملک کے لیے، کب سوچیں گے ہم اس بات کے لیے، اس ملک کے بقا کا بھی سوال ہے۔ آج اگر کوئی بقا کا سوال پیدا کرتا ہے اس پر چیخ و پکار کرتا ہے برا منایا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت بھی چیخ چیخ کر بولنے کو پسند نہیں کرتا لیکن مظلوم کی چیخ و پکار کو اللہ بھی سننے کے لیے تیار ہے۔ کوئی شخص بھی چیختے آواز کے ساتھ بات کرے اللہ کو پسند نہیں ہے، سوائے اس آدمی کے جس کے ساتھ ظلم ہو رہا ہو، اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہو۔ جو مضطرب ہے جو پریشان ہے۔ اور یہاں قانون سازیاں کی جا رہی ہیں، پہلے ریاست کو تو مضبوط کرو، پہلے اپنے رٹ کو تو مضبوط کرو، قانون اتا ہے پاس ہوتی ہی پورے ملک میں نافذ العمل ہوگا، پورا ملک آپ کے ہاتھ میں ہوگا تو نافذ العمل ہوگا، آپ قانون بنا رہے ہیں کس کے لیے بنا رہے ہیں۔ صوبوں میں اسمبلیاں ہے لیکن صوبوں کی اسمبلیاں بھی عوام کی نمائندہ نہیں ہیں۔ اور جب بغاوتیں پیدا ہوتی ہیں جب عوام باہر نکلتے ہیں تو کوئی منتخب نمائندہ جو آج منتخب کہلاتا ہے وہ پبلک کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، خواہ کس پوزیشن پر کیوں نہ ہو وہ عوام کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ آپ کا ممبر پارلیمنٹ عوام کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، آپ کا منسٹر عوام کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، کیونکہ عوام اس کو اپنا نمائندہ نہیں سمجھ رہا۔ جنگ ہے نظریات کی اور اتھارٹی کی، سیاست میں جنگ نظریات کی نظریات کے ساتھ، تھیوریز کی تھیوریز کے ساتھ، لیکن ایک طرف ہم ہیں بات کرتے ہیں نظریات کی، سوچ اور فکر کی، لیکن دوسری طرف صرف اتھارٹی کو اپنے ہاتھ میں لینے کی سیاست ہو رہی ہے، اس کے علاؤہ کوئی نظریہ موجود نہیں ہے۔ جھوٹی موٹی جیسے کیسے اتھارٹی ہو اسے اتھارٹی تسلیم نہیں کی جاتی، اگر میں نے 2018 کے الیکشن کے نتیجے میں پارلیمان کو تسلیم نہیں کیا تھا، تو میں 2024 کے الیکشن کے نتیجے میں بھی پارلیمنٹ کو عوام کا نمائندہ تسلیم نہیں کر رہا، اور اپ ہیں کہ ہماری اس چیخ و پکار کو غیر سنجیدہ لے رہے ہیں یہ غیر سنجیدہ گفتگو نہیں ہے۔ بہت بڑی بات ہے جو ہم کر رہے ہیں۔ کسی سطح پر اس کا نوٹس نہیں لیا جا رہا، جس طرح بنگال نہیں رہا آج کوئی ایک اور پر ہم سے ٹوٹ جائے گا کہیں کہ ایک اور بازو ہم سے ٹوٹ جائے گا۔ کسی وقت ہم نے اس بات کی فکر کی ہے۔
جناب اسپیکر! ہم نے چالیس سال سے پراکسی جنگ لڑی، ہم نے اپنی فوج اپنی ریاست کو جنگوں میں دھکیلا ہے۔ دنیا کا کوئی مسلح جوان، لڑاکا اس کے پاؤں کے نشان پاکستان سے ہو کر گزرتے تھے، جاتے ہوئے افغانستان کی طرف یا آتے ہوئے افغانستان سے پاکستان سے ہو کر گزرتے تھے اور دنیا کہتی تھی کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے۔ کیا ہم اس محاذ سے نکل چکے ہیں، لڑائی میں کوئی افغان مر جاتا ہے ہم سارا غصہ افغانستان کے اوپر تو نکال لیتے ہیں لیکن اپنی کمزور پالیسیوں کی طرف نہیں جاتے، لوگوں کی آنکھیں دوسری طرف پھیرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ قوم ہماری غلطیوں پر بات نہ کر سکے۔ اور کسی پڑوسی کو ہی مجرم سمجھتا ہے۔ یہ معاملات ہیں اس میں تفصیل سے جانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ذرا اپنا حساب بھی تو ہمیں کرنا چاہیے نا، یہاں جنرل مشرف کی حکومت تھی امریکہ میں ڈیموکریٹس کی حکومت تھی۔ ڈیموکریٹس نے کہا پاکستان کے اندر ایک ڈکٹیٹر کی حکومت ہے۔ کلنٹن انڈیا آرہا تھا اور پاکستان کی زمین پر قدم رکھنے کے لیے تیار نہیں تھا، ہم نے ترلے کیے ایک گھنٹے کے لیے یا دو گھنٹے کے لیے پاکستان میں اترا اور پھر یہ بھی کہا کہ میں پاکستان کے ڈکٹیٹر کے ساتھ تصویر نہیں کھنچواؤں گا یا وہ زمانہ تھا آپ کا، یا جب نائن الیون ہوا تو پاکستان کی سرزمین ان کے لیے بچھا دی گئی۔ اور ہم عالمی د ہشتگردی، نام نہاد عالمی دہشت گردی کے خلاف امریکہ اور نیٹو کے اتحادی بن گئے، اور ان کے اتحادی بن کر ہم نے ہوائی اڈے دیے، ان کو ہم نے فضائیں دی، اور ہمارے اڈوں سے ہوائی جہاز اڑتے اور افغانستان میں بمباری کرتے، پھر ظاہر ہے جنگ شروع ہوئی، کیا کبھی افغانستان میں طالبان نے آپ سے کہا ہے آپ کے ہاں سے جہاز کیوں اڑ رہے ہیں، امریکہ کے جہاز آپ کے ائیرپورٹ سے کیوں اڑ رہے ہیں، آپ کے فضاؤں کو عبور کرکے ہم پر بمباری کیوں کر رہے ہیں، کیا کچھ مظالم نہیں دیکھے انہوں نے، ہم نے انہی کو پاکستان پرو سمجھا۔ اب افغانستان میں ان پرو پاکستانیز کو ہم نے چلانا تھا، ہمارے پاس تجربہ تھا، ہمارے پاس ایک ذمہ دارانہ ریاست موجود تھی، ہم نے ہر قدم ذمہ داری سے اٹھانا تھا، میں الیکشن سے پہلے گیا، اپنے ملک کو اپنے ریاست کو اعتماد میں لے کر گیا ہوں۔ میں اپنا ایجنڈا لے کر گیا، اس ایجنڈے سے ان کو آگاہ کیا کہ یہ میرے ملک کی، ریاست کی ضرورتیں ہیں۔ ان ان موضوعات پہ میں نے ان سے بات کرنی ہے۔ فارن منسٹری میں ہمیں باقاعدہ بریفنگ دی گئی، ہمیں صورتحال سے آگاہ کیا گیا، مشاورت کے ساتھ ایک ایجنڈا طے ہوا اور اس ایجنڈے پر میں افغانستان اپنا وفد لے کر، ہر چند کے ان کی دعوت پر گیا۔ لیکن ایک ہفتہ میں نے وہاں گزارا، جو ایجنڈا میں لے کر گیا تھا ایک ایک نقطے پر میں نے ان سے بات کی، ان کو قائل کیا اور انہوں نے کہا کہ ہم ان خطوط پر پاکستان کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں۔ کس نے اس کے اوپر پانی پھیر دیا، کس نے وہ پراسیس روک دی، میں تو اکیلا آدمی تھا اپنی انڈیویجول حیثیت میں گیا تھا۔ اس کے بعد تو سٹیٹ ٹو سٹیٹ معاملات ہونے تھے، اداروں نے معاملات کو آگے چلانا تھا، یہ اہلیت ہے ہماری کہ آپ کا ایک شہری اپنے وطن عزیز کے تحفظ کے لیے اپنے وطن عزیز کی خدمت کے لیے ملک کو ایک بڑے شورش سے بچانے کے لیے، پچھتر سال ہم نے کشمیر کے محاذ پر انڈ یا کے ساتھ آزمائشوں میں گزاری، اب ایک نئی آزمائش کے لیے ایک نئی سرحد ہم کھول رہے ہیں۔ ہم نے اس تصور میں وطن عزیز کی مٹی کے ساتھ وفاداری نبھاتے ہوئے، اس کے لیے سہولت پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن میری ریاست، میرے ریاست کے کرتا دھرتا اتنے نااہل ثابت ہوئے کہ وہ کیے کرائے کام کو بھی نبھا نہ سکے اور ان کو آگے نہ لے جاسکے۔
جناب اسپیکر! میں آپ کی وساطت سے ایوان کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ملک کو مزید آزمائشوں کی طرف نہ دھکیلا جائے۔ یہ ملک نئی آزمائشوں کا متحمل نہیں، پالیسیاں سیاست دانوں کے حوالے کی جائیں، مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے، غلط فہمیاں دور کی جائیں، ہر قدم جنگ کی طرف بڑھانے کی بجائے ہماری شناخت یہ ہونی چاہیے کہ ہمارا ہر قدم امن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانا بہت آسان ہے لیکن اپنی ذمہ داریاں نبھانا وہ کوئی اسان کام نہیں ہے، اس کی طرف ہمیں متوجہ ہونا ہوگا۔
آج ایک نو آبادیاتی نظام سے تو ہم نکلے، جنگ عظیم اول جنگ عظیم دوم اور جنگ عظیم دوم کے بعد باقاعدہ نو آبادیات کا رواج تو ختم ہوا لیکن عالمی قوتوں نے ترقی پذیر ممالک اور غریب ممالک کو غلام بنانے کا ایک نیا طریقہ نکالا۔ ان کو سیاسی لحاظ سے غلام بنانا، ان کو اقتصادی لحاظ سے غلام بنانا، انہیں دفاعی لحاظ سے غلام بنانا، یہ ان کا وطیرہ رہا۔ ہمارے فیصلے سلامتی کونسل میں ہوتے ہیں، بین الاقوامی انسانی حقوق کنونشن میں ہوتے ہیں، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیٹیوں میں ہوتے ہیں، اور اگر وہ ایک فیصلہ کر لیں تو پھر ان کا فیصلہ ہمارے ہاں موثر ہوگا اور ہمارے اپنے ملک کا آئین اور قانون غیر موثر ہو جاتا ہے۔ کیا یہ حقائق نہیں ہے، ہماری معیشت بین الاقوامی اداروں کے حوالے کر دی گئی ہے۔ آج ہماری معیشت کو آئی ایم ایف کنٹرول کرتا ہے، ایف اے ٹی ایف کنٹرول کرتا ہے، دوسرے قرضے دینے والے ادارے کنٹرول کرتے ہیں۔ ہمیں ایک طرف قرضوں میں جکڑا جا رہا ہے اور دوسری طرف ہم پر پریشر ڈالے جا رہے ہیں۔ آئے روز آئی ایم ایف کا وفد آرہا ہے اور پھر ہمیں بلا رہا ہے اور اب تو آئی ایم ایف اس حد تک آگے چلا گیا کہ وہ حکومت سے بات کرنے کی بجائے وہ عدلیہ سے مل رہا ہے اور عدلیہ سے بات کر رہا ہے آئی ایم ایف کا ہمارے ملک کے عدلیہ سے کیا سروکار ہے۔ ہمارے ملک میں آج آئی ایم ایف آرہا ہے اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قیادت کے ساتھ مل رہا ہے، بار ایسوسی ایشن کے ساتھ آئی ایم ایف کا اور ایف اے ٹی ایف کا کیا تعلق ہے، کیا تحفظات ہیں اس کے، اور پھر اس کی پاداش میں ہم ادارے بناتے ہیں، احتساب کی ادارے بناتے ہیں، نیب کے ادارے بناتے ہیں، ایف آئی اے کو متحرک کرتے ہیں اور سارا بوجھ ان کا دو طبقوں کے اوپر آتا ہے ایک کاروباری طبقہ جو ملک میں انویسٹ کر رہا ہوتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان کو پکڑا جاتا ہے ان کے فائلیں بنائی جاتی ہیں ان کی پیشیاں ہوتی ہیں، ان کو سزائیں دی جاتی ہیں، اور دوسرا سیاستدانوں کے خلاف اس کو استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ایک سیاستدان اور ایک حکومتی پارٹی کو بدنام کیا جائے، دوسرے کو اس کی جگہ دی جائے۔ اس مقصد کے لیے بین الاقوامی ادارے میرے ملک میں مداخلت کر رہے ہیں۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ میرا پاکستانی سرمایہ کار اپنا سرمایہ لے کر مغرب میں چلا جاتا ہے پیسہ میرا میرے نظام سے تنگ آ کر وہ اپنا پیسہ منتقل کرتا ہے یورپ کی طرف اور میرے پیسے پر یورپ کاروبار اور تجارت کر رہا ہوتا ہے۔ تو یہ وہی بات ہوئی کہ انڈیا کا پیسہ انگریز لے گیا اس نے اپنا انگلستان کو آباد کیا اور ہمیں بھکارا چھوڑ دیا۔
دفاعی معاملات پہ جائیں حضرت، ایٹم بم میرا ہے، میزائل میرا ہے لیکن بین الاقوامی ادارے مجھے مجبور کر رہے ہیں اس پہ دستخط کرو، اس پہ دستخط کرو، اس پہ دستخط کرو اور مجھے بین الاقوامی معاہدات پر دستخط کرنے کے بعد یہاں پہنچایا جا رہا ہے کہ ایٹم بم میرا ہوگا، میزائل میرا ہوگا، طیارہ میرا ہوگا، لڑاکا سامان میرا ہوگا لیکن اس کو استعمال کرنے کا اختیار بین الاقوامی معاہدات کے تحت ان اداروں کو ہوگا، میرے ملک کا اختیار ختم ہو جائے گا۔ اس چیز میں پوری قوم مبتلا ہے۔ کس طریقے سے وہ میری ہی ہاتھوں سے میرے بھائی کو مروڑ کر میرے سرمائے کو اپنے ملک میں منتقل کر رہا ہے۔ کس طریقے سے وہ میرے ہاتھ پاؤں باندھ کر مجھے غیر مسلح کر رہا ہے، اور میری اپنی صلاحیت وہ میرے دفاع میں استعمال نہیں ہو سکتی، ان کی اجازت سے استعمال ہوگی۔ میری پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کر سکتی، اگر قانون سازی کرے گی تو کہیں گے بین الاقوامی دباؤ، آج ہم نے یہاں پر چھبیسویں ویں ترمیم پاس کی، چھبیسویں ویں ترمیم کے ساتھ ایک قانون دینی مدارس کے حوالے سے پاس کیا یہاں سے، جناب صدر مملکت نے خط بھیجا ہے پارلیمنٹ کی طرف، سپیکر صاحب کی طرف، اس پہ اس نے واضح طور پر کہا ہے کہ دینی مدارس کی رجسٹریشن یا دینی مدارس کے بینک اکاؤنٹس کا یہ قانون بین الاقوامی اداروں کے لیے تحفظ کا باعث ہو سکتا ہے، ان کی پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ ہمیں بین الاقوامی اداروں کی رعایت قبول، لیکن اپنے ملک کے اندر ایک طبقے کو ہمیشہ اپنے مقابلے میں متصادم رکھنا ہے، اپنے ملک کے شہری کو میں نے پریشان رکھنا ہے۔ آج قانون پاس ہو چکا ہے، ایکٹ بن چکا ہے، گزٹ ہو چکا ہے اس کا پارلیمنٹ سے، قانون پاس ہو جائے تو صوبائی اسمبلیوں میں قانون سازی ہوتی ہے، ابھی تک کسی صوبائی اسمبلی میں قانون سازی نہیں ہو رہی، فیڈرل گورنمنٹ نے اپروچ ہی نہیں کہ آج تک کسی ایک صوبائی اسمبلی کو، میری پارلیمنٹ نے اپروچ ہی نہیں کیا کسی صوبائی اسمبلی کو کہ یہ قانون یہاں سے پاس ہو گیا ہے مذید قانون سازی جو ہے صوبائی سطح پر وہ آپ کی ذمہ داری بنتی ہے۔ تو کیا کرے ہر بات کے لیے سڑکوں پہ آئیں، ہر بات کے لیے گھیراؤ جلاؤ کی سیاست کریں، ہر بات کے لیے ہم وزیراعظم ہاؤس کا گھیراؤ کریں، پارلیمنٹ کا گھیراؤ کریں، اسی لیے آپ نے قوم کو چھوڑ دیا اور اپنے ملک کو چھوڑ دیا ہے۔ اور آج ٹرمپ صاحب آئے ہیں، آتے ہی غزہ ہمارا ہے، غزے پہ ہم تعمیر کریں گے، غزے کے رہنے والوں کو اردن بھیج دو، مصر بھیج دو، وہاں آباد کر دو، ٹرمپ صاحب آپ ہوتے کون ہیں کسی آزاد قوم کے بارے میں اس کی سرزمین پر قبضہ کرنے، اور ایک آزاد قوم کو دوسرے ملکوں میں مہاجر بنانے کا آپ ہوتے کون ہیں مداخلت کرنے والے، آپ کا کٹھ پتلی پندرہ مہینے سے فلسطینیوں کا قتل عام کر کے انسانی جرم کا مرتکب ہوا ہے۔ اگر صرف دو تین شہروں میں فوجی کاروائی کے نتیجے میں قتل ہونے والوں کے پاداش میں صدام حسین کو لٹکایا جا سکتا ہے تو اس پاداش میں جہاں نیتن یاہو کو سرعام پھانسی ملنی چاہیے تھی آج امریکہ فلسطینیوں کے خون پر ان کو سپورٹ کر رہا ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ جنگ عظیم اول کے بعد جب دنیا میں یہودی در بدر ہو گئے اور جرمنوں کے ہاتھوں پٹ گئے تو اس زمانے میں لیگ آف نیشنز اقوام متحدہ میں قرارداد پاس کی کہ ان دربدر شدہ یہود یوں کو جگہ دینا ان کو از سرِ نو بسانا یہ بین الاقوامی ذمہ داری ہے۔ بین الاقوامی ذمہ داری قرار دے کر صرف فلسطین کی سرزمین کو اس کے لیے کیوں خاص کیا گیا۔ تمام ملکوں سے کہا گیا کہ جہاں جہاں پر کوئی یہودی بستہ ہے اپنے ملک میں ان کے لیے جگہ دو، کیونکہ کسی ملک نے ان کو جگہ نہیں دی اور سب کو اکٹھا کر کے فلسطین کی سرزمین میں لایا گیا، قرارداد میں کہا گیا ہے کہ کسی شہری کو، کسی یہودی کو جبراً کہیں آباد نہیں کیا جائے گا، قرارداد میں کہا گیا ہے کہ کسی سرزمین پر سرزمین والوں سے پوچھے بغیر جبرا ان کو آباد نہیں کیا جا سکتا، یہودیوں کو بھی جبراً لا کر آباد کیا گیا، فلسطین سے بھی جبراً زمین لی گئی اور وہاں ان کو آباد کیا گیا۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ فلسطین اوور پاپولیٹڈ ایریا ہے یہاں مزید کسی کو آباد کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے باوجود اوور پاپولیٹڈ ایریا پر ان کو آباد کیا گیا۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ فلسطین معاشی لحاظ سے انتہائی کمزور ہے اس پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے، اس معاشی لحاظ سے کمزور ترین ملک پر اتنی بڑی یہودی آبادی کا بوجھ لا دیا گیا، اور آج تک یہ صرف بوجھ ہی نہیں بلکہ ان کی پیٹھ میں گھونپا ہوا چھرا ہے، خنجر ہے جو آج بھی ہمارے جسم کو چھو رہا ہے اور ہمارے جسم سے لہو بہہ رہا ہے۔
تو جناب اسپیکر! کیا دوبارہ نو آبادیات کی طرف جا رہے ہیں، مجھے معاف فرمائیے یہ ہاؤس ہے میرا، میں اس سے بات کرتا ہوں۔ جو کچھ پاکستان کے بارڈرز پہ ہو رہا ہے یہ آج سے نہیں ہو رہا، چالیس سال سے ہو رہا ہے اور اگر چالیس سال کا عرصہ نہ گنیں تو گزشتہ بیس سال سے ایک ہی علاقے پر جنگ فوکس کی گئی ہے۔ اتنی طویل جنگ ایک ہی علاقے پر فوکس ہونا یہ جغرافیائی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ وہ منطقا ہے پہاڑوں کا یہ وہ منطقہ ہے جو عالمی جنگ کا سبب بنا ہے۔ جہاں روس آیا امریکہ نے پوری قوت استعمال کی اسے پیچھے بھگانے کے لیے، یہاں امریکہ آیا قبضہ کرنے کے لیے، لیکن افغانوں نے لڑ کر ان کو نکال دیا۔ آج چائنا کی بھی خواہش ہے کہ میری رسائی افغانستان تک ہو سکے، افغانستان اور ہمارے فاٹا کے علاقوں میں اور خیبر پختون خواہ کے علاقوں میں دو قسم کے معدنیات ہیں، ایک وہ معدنیات جس کے ساتھ عام لوگوں کی معیشت کا تعلق ہے گیس کوئلہ تیل چاندی کاپر وغیرہ وغیرہ کچھ وہ پتھر بھی ہیں کہ جو خلا میں جانے والے راکٹوں اور میزائلوں میں استعمال ہوتے ہیں، جو ساڑھے چار سو کی ہیٹ پر بھی تحلیل نہیں ہوتے، اس سے الٹا جائیں تو اتنی سخت سردی میں بھی وہ منجمد نہیں ہوتے، اس کی ضرورت امریکہ کو بھی ہے، اس کی ضرورت چائنا کو بھی ہے، اس کی ضرورت رشیا کو بھی ہے۔ وہ ان علاقوں تک پہنچنا چاہتے ہیں اور ہمارے ان وسائل پر کہ جن کے ساتھ بڑی قوتوں کے مفادات وابستہ ہیں جو ان کی میزائلوں میں استعمال ہونگے، ان کے راکٹوں میں استعمال ہوں گے اور اس کے لیے وہ تگ ودو کر رہے ہیں کہ کس طرح اس علاقے پر اپنا ہاتھ مظبوط کر لے، کوئی عجب نہیں اگر ٹرمپ غزہ کے بارے میں یہ بات کہہ سکتا ہے تو اس کے ایجنڈے پر یہ بھی ہو کہ قبائلی علاقے پر ہم قبضہ کر لیں، یہاں کا نظام اپنے ہاتھ میں لے لیں، پاکستان کا عمل دخل ہم ختم کر دیں۔ وہاں ویسے بھی اس کی رٹ کمزور ہو چکی ہے اور پھر اس کے بعد وہ یہی سے ہمارے معدنیات کو بھی لے جائیں اور افغانستان کو بھی ڈیل کرے، تہران کو بھی ڈیل کرے، انڈیا پہ بھی راج کرے، پاکستان کو بھی کرے اور چائنا کو بھی کرے۔ یہ جغرافیائی تبدیلیاں ان کے خطرات میں محسوس کر رہا ہوں، خدا میرے وہم کو جھوٹا ثابت کرے۔ لیکن خدا کے لیے سنو تو صحیح، اس بات کو کچھ اہمیت تو دی جانی چاہیے۔ ہمارے قبائلی علاقوں میں جنگیں ہو رہی ہیں، کرم ایجنسی میں جنگیں ہو رہی ہیں، کیا ریاست کسی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہاں کی صورتحال کو بہتر بنائیں، ایک طرف آپ نے ان کو ضم کر دیا ضم کرنے کے بعد بجائے اس کے کہ وہاں خوشحال انی چاہیے تھی۔ وہاں باغ بہار ہونا چاہیے تھا، وہاں سبزا ہونے چاہیے تھی، وہاں دودھ کی نہریں اور شہد کی نہریں بہنی چاہیے تھی، الٹا ہمارے علاقے بھی خوار ہو گئے، وہاں کا امن بھی ہم سے چھن گیا، وہاں کی خوشیاں بھی ہم سے چھن گئی۔ یہ ہوتی ہے فیصلے، انضمام کا یہ ویژن اس ویژن کے لیے آپ کے ساتھ لوگوں نے تعاون کیا تھا، اس ویژن کے ساتھ آپ کے پارلیمنٹ کے ممبر انہوں نے آپ کا ساتھ دیا تھا، کیا کر رہے ہیں اپ ملک کے ساتھ کیا آپ اس ریاست کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں کدھر اپ ملک کو لے جانا چاہتے ہیں بخدا مجھے اپنے اوپر اعتماد ہے اگر ہمارا ایوان حکومت ہو یا اپوزیشن سنجیدہ ہو کر خود اعتمادی کے ساتھ اپنے وطن عزیز کے لیے خود سوچے، فیصلے کریں، ویژن موجود ہے، دلیل موجود ہے، رائے موجود ہے، تحقیق موجود ہے ہم اس ملک کو بہتر طریقے سے چلا سکتے ہیں۔ لیکن کیوں ہم اس حد تک گر چکے ہیں کہ ہم ایک قدم اٹھاتے ہیں تو اس کے لیے بھی ایک اشارے کے محتاج ہوتے ہیں۔ یا کسی لمحے ہمارے ضمیر پر کچھ گزرتی ہے یا نہیں گزرتی۔
تو یہ وہ ساری صورتحال ہے حضرت میں آپ کو بتاؤں جناب اسپیکر، ہاؤس کی نوٹس میں آجانی چاہیے۔ ایک سال کے اس پورے عرصے میں باجوڑ جہاں سے ہم اپنی پارٹی کے نوے جنازے بیک وقت، روزانہ ہمارے دو دو تین تین جنازے اٹھ رہے ہیں ہر ایجنسی سے اور لڑائی ابھی جاری ہیں۔ قبائل کا بڑا جرگہ میرے پاس آیا، باجوڑ کا جرگہ میرے پاس آیا ہے، افریدیوں کے جرگہ میرے پاس آیا ہے، مہمند کا جلسہ میرے پاس آیا ہے، شنواری، اورکزئی، کرم، وزیروں، داوڑ، محسود، ایک ایجنسی ایسی نہیں ہے کہ جن کے لوگ جرگہ لے کر میرے گھر نہ آئے ہوں ایک ہی بھیک مانگ رہے ہیں کہ ہمیں امن دو، آپ بتائیں میں کہاں سے امن دوں۔ پارلیمنٹ کی نہیں سنتا کوئی تو میرے ایک آدمی کی کیا سنے گا، فضل الرحمان کی کون سنے گا۔ ابھی پشاور میں تمام قبائل کا جرگہ ہوا ایک ہی بات کر رہے ہیں کہ خدا کے لیے ہمیں امن دو۔ ہم دربدر ہوچکے ہیں، دو ہزار دس سے وہ لوگ مہاجر ہیں، اپنے ملک کے اندر مہاجر ہے، بھیک مانگ رہے ہیں۔ وہ قبائل جو اپنے روایات رکھتے ہیں، جن کی خواتین گھروں سے باہر نہیں نکلتی، آج وہ گلی کوچوں میں بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ تمہیں اپنے پشتونوں کے اور ان کی روایات کیا اور ان کی عزت کی کوئی لحاظ نہیں، تمہیں اپنے بلوچوں کی عزت کا کوئی لحاظ نہیں ہے۔ حوالے کرو صحیح لوگوں کے، تاکہ معاملات بہتری کی طرف جانا شروع ہو جائیں۔ ہم ملک کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں، ہم پوری طرح تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن معاملہ پارلیمنٹ طے کرے گی، یہ سیاستدان طے کریں گے، یہ فیصلہ کریں گے کیا کرنا ہے، کدھر جانا ہے۔ اعتماد کرو اپنے ملک کے لوگوں پر، سویلینز پر، سویلین قیادت کے اوپر ہمیں اعتماد کرنا چاہیے۔ ملک کی ماحول کو ہمیں تبدیل کرنا چاہیے، ورنہ پھر یہی ہوگا کہ آئے روز پارلیمان میں بھی ہنگامہ آرائی، نہ کوئی مشترکہ سوچ، نہ کسی مسئلے پر سنجیدہ ڈیبیٹ، نہ کوئی معاملہ فہمی، نہ ہی اس کی طرف آگے بڑھ سکیں گے۔
جناب اسپیکر! ازراہ کرم میری گفتگو کو آپ بوجھ نہ سمجھیے، بلکہ ذرا سنجیدگی سے ان سارے چیزوں کو لیجیے۔ میں درد دل سے باتیں کر رہا ہوں اور آپ کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔ خدا حافظ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب