اسمبلی میں احتجاجاً واک آوٹ اور اسمبلی اجلاس نہ چلنے کی دھمکی اور اعلی حکام سے مسلسل مطالبہ کرنے اور تحفظات کا اظہار کرنےکی وجہ سے وفاقی حکومت اعلی سطحی اجلاس بلانے پر مجبور ہوئی جس میں مردم شماری کے چیف کمشنر آصف باجوہ پاک آرمی کے افسران ڈی جی ایف ڈی ایم اے فاٹا سیکرٹریٹ کے افسران پولیٹکل ایجنٹس او وزارت سیفران کے افسران نے شرکت کی اور پورے فاٹا کے پارلیمنٹیرئنز میں سے صرف اور صرف مولانا محمد جمال الدین کو انکے مطالبہ کے پیش نظر شرکت کی خصوصی دعوت دی گئی تھی اور مردم شماری کے حوالے سے ان کے کئے گئے مطالبات پر اتفاق کیا اور آج وزارت سیفران میں ہونے والے اجلاس میں قبائلی آئی ڈی پیز کی مردم شماری کے طریقہ کار پر اتفاق ہوا۔
مردم شماری کے دوران قبائلی علاقوں میں ایک خاندان کا سربراہ تمام افراد شمار کروا سکےگا۔ سب افراد کا وہان رہائش پذیر ہونا لازمی نہیں ہوگا۔ وزیرستان کے وہ آئڈی پیز جن کی ملک کے دیگر علاقوں میں مردم شماری ہوچکی ہوگی اگر انکی رجسٹریشن ہوئی ہوگی تو انکو وزیرستان میں ہی شمار کیا جائگا۔ وزیرستان کے جن علاقوں میں دہشتگردی کے باعث مردم شمار ممکن نہیں ان کی نشاندہء کرکے بعد میں مردم شماری کی جائے گی۔ اور یہ تمام تر رعایت صرف و صرف مولانا محمد جمال الدین کی محنت سے وزیرستان کے لوگوں کو نصیب ہوئیں۔ کلئیر شدہ علاقوں میں رہنے والے جن لوگوں نے ابتک رجسٹریشن نہیں کروائی مولانا محمد جمال الدین محسود نے ان سے اپیل کی ہے کہ اپنے وطن و قوم میں مفاد رجسٹریشن کروائیں اور اپنہ قومی فریضہ ادا کریں۔ مولانا محمد جمال الدین محسود نے اس کامیابی پر وزیرستان کے لوگوں کو مبارکباد دی ہے۔
حکومت ایک بار پھر اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنے جا رہی ہے جس سے دفاعی اداروں کو بے پناہ اختیارات ملیں گے جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر ہیں۔ پہلے نیب کے اختیارات پر اعتراض تھا اور ان میں کمی کی گئی تھی، لیکن اب دفاعی ادارے کو کسی کو شک کی بنیاد پر 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار دیا جا رہا ہے جو سراسر غیر جمہوری عمل ہے،ملک میں سول مارشل لاء کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ، جو جمہوریت اور “ووٹ کو عزت دو” کی بات کرتے ہیں، آج اپنے ہی ہاتھوں جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ 26ویں ترمیم میں کچھ شقیں واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی، لیکن یہ نیا ایکٹ اسی ترمیم کی روح کے خلاف ہے۔ یہ آئین اور پارلیمنٹ کی توہین ہے کہ ایک دن آپ ایک فیصلہ کریں اور اگلے دن اسے نظر انداز کر دیں۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان
فیصلے اجلاس مرکزی مجلس شوری جے یو آئی پاکستان
میں اداروں کا احترام کرتا ہوں لیکن میری نظرمیں بھی ان کی پالیسیاں سیدھی نظرآئیں، میں نے بھی چالیس سال صحراؤں میں گذارے ہیں، آنکھیں بند کر کے بات نہیں کر رہا بلکہ مشاہدات کے ساتھ بات کرتا ہوں،اگر ہم یہ بات نہیں کریں گے تو قوم کے ساتھ خیانت ہوگی،آپ اپنا قبلہ درست کریں ہم آپ کو سر کا تاج بنا لیں گے۔قوم کی قدر کریں، آپ کے کرنل اور میرے عام کارکن کے پاس ایک ہی شناخت ہے، دونوں کے لئے ایک ہی آئین ہے۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا ڈی آئی خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب
43ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چھبیسویں آئینی ترمیم پر قومی اسمبلی میں تاریخی خطاب