اسمبلی میں احتجاجاً واک آوٹ اور اسمبلی اجلاس نہ چلنے کی دھمکی اور اعلی حکام سے مسلسل مطالبہ کرنے اور تحفظات کا اظہار کرنےکی وجہ سے وفاقی حکومت اعلی سطحی اجلاس بلانے پر مجبور ہوئی جس میں مردم شماری کے چیف کمشنر آصف باجوہ پاک آرمی کے افسران ڈی جی ایف ڈی ایم اے فاٹا سیکرٹریٹ کے افسران پولیٹکل ایجنٹس او وزارت سیفران کے افسران نے شرکت کی اور پورے فاٹا کے پارلیمنٹیرئنز میں سے صرف اور صرف مولانا محمد جمال الدین کو انکے مطالبہ کے پیش نظر شرکت کی خصوصی دعوت دی گئی تھی اور مردم شماری کے حوالے سے ان کے کئے گئے مطالبات پر اتفاق کیا اور آج وزارت سیفران میں ہونے والے اجلاس میں قبائلی آئی ڈی پیز کی مردم شماری کے طریقہ کار پر اتفاق ہوا۔
مردم شماری کے دوران قبائلی علاقوں میں ایک خاندان کا سربراہ تمام افراد شمار کروا سکےگا۔ سب افراد کا وہان رہائش پذیر ہونا لازمی نہیں ہوگا۔ وزیرستان کے وہ آئڈی پیز جن کی ملک کے دیگر علاقوں میں مردم شماری ہوچکی ہوگی اگر انکی رجسٹریشن ہوئی ہوگی تو انکو وزیرستان میں ہی شمار کیا جائگا۔ وزیرستان کے جن علاقوں میں دہشتگردی کے باعث مردم شمار ممکن نہیں ان کی نشاندہء کرکے بعد میں مردم شماری کی جائے گی۔ اور یہ تمام تر رعایت صرف و صرف مولانا محمد جمال الدین کی محنت سے وزیرستان کے لوگوں کو نصیب ہوئیں۔ کلئیر شدہ علاقوں میں رہنے والے جن لوگوں نے ابتک رجسٹریشن نہیں کروائی مولانا محمد جمال الدین محسود نے ان سے اپیل کی ہے کہ اپنے وطن و قوم میں مفاد رجسٹریشن کروائیں اور اپنہ قومی فریضہ ادا کریں۔ مولانا محمد جمال الدین محسود نے اس کامیابی پر وزیرستان کے لوگوں کو مبارکباد دی ہے۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب