پشاور:
حکومت نے بل پیش کرتے ہوئے اعتماد میں نہیں لیا لیکن اس کے باوجود انضمام روکنے میں کامیاب رہے، عوام کی مرضی کے خلاف کوئی بھی فیصلہ قبائل عوام کے شکوک وشبہات میں اضافہ کریگا۔سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق حکومت نے تجاویز پر غور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے.مفتی عبدالشکور
ان خیالات کا اظہار سپریم کونسل کے رہنما جمعیت علماء اسلام کل قبائل کے امیر مفتی عبدالشکور، جنرل سیکرٹری مفتی اعجاز شنواری نے قبائل عمائدین سے بات چیت کرتے ہوئے کہا انھوں نے کہا کہ قائدجمعیت کی بصیرت اور دور اندیشی سے قبائل عوام کو حوصلہ اور جرات ملی ہے انضمام کا ایجنڈا روک کر سپریم کونسل اور قائد جمعیت نے قبائل عوام کی نمائندگی کا حق ادا کردیا ہے، انہوں نے کہا کہ قبائل اصلاحات اور قبائل کی ترقی کیلئے تمام تر اقدامات کی حمایت کرتے ہیں، لیکن عوام کی رائے کو نظر انداز کرنے کی کسی بھی اقدام کی مزاحمت کرینگے، انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی فاٹا تک توسیع کیلئے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا اس سے تمام جمہوری روایات کی نفی کی گئی ہے جیسے چوری چھپے واردات کی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کونسل کی تجاویز اورآئینی پہلووں پر رائے کا انتظار کیوں نہیں کیا گیا جمعیت علماء اسلام کا موقف ہے کہ اس حوالہ سے آئینی پہلووٗں کاجائزہ لیا جارہا تھا اور آئینی ماہرین کی اس پر مشاورت بھی جاری تھی جبکہ وزیر اعظم کی مشاورت سے سپریم کونسل کو تجاویز دینے کا موقعہ بھی دیا گیا لیکن اس کے باوجود اسمبلی میں عجلت کے ساتھ بل پیش کرکے آئین اور قانون کی دھجیاں آڑائی گئی، جمعیت علماء اسلام کا احتجاج حکومتی روایہ اور جلد بازی پر ہے فاٹا کی ترقی اور اصلاحات کیلئے جمعیت علماء اسلام روز اول سے مطالبہ کررہی ہے لیکن بعض ـمخصوص لوگ اپنا ایجنڈا مسلط کرکے قبائل عوام کو نظر انداز کرنے کی روش اپنائے ہوئے ہیں، انہوں نے کہا کہ وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے خود اعلان کیا ہے کہ ہم سپریم کونسل کی تجاویز پر غور کرنے اور انھیں بل میں شامل کرنے کیلئے تیار ہیں، قبائلی عمائدین نے جمعیت علماء اسلام کے قائدین کی کوششوں کو سراہاتے ہوئے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا، صوبائی سیکرٹریٹ میں اس موقعہ پر قبائلی عمائدین کے علاوہ مولانا عطاء الحق درویش، مولانا رفیع اللہ قاسمی، جہاد شاہ آفریدی ، عبدلجلیل جان بھی موجود تھے۔
حکومت ایک بار پھر اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنے جا رہی ہے جس سے دفاعی اداروں کو بے پناہ اختیارات ملیں گے جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر ہیں۔ پہلے نیب کے اختیارات پر اعتراض تھا اور ان میں کمی کی گئی تھی، لیکن اب دفاعی ادارے کو کسی کو شک کی بنیاد پر 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار دیا جا رہا ہے جو سراسر غیر جمہوری عمل ہے،ملک میں سول مارشل لاء کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ، جو جمہوریت اور “ووٹ کو عزت دو” کی بات کرتے ہیں، آج اپنے ہی ہاتھوں جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ 26ویں ترمیم میں کچھ شقیں واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی، لیکن یہ نیا ایکٹ اسی ترمیم کی روح کے خلاف ہے۔ یہ آئین اور پارلیمنٹ کی توہین ہے کہ ایک دن آپ ایک فیصلہ کریں اور اگلے دن اسے نظر انداز کر دیں۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان
فیصلے اجلاس مرکزی مجلس شوری جے یو آئی پاکستان
میں اداروں کا احترام کرتا ہوں لیکن میری نظرمیں بھی ان کی پالیسیاں سیدھی نظرآئیں، میں نے بھی چالیس سال صحراؤں میں گذارے ہیں، آنکھیں بند کر کے بات نہیں کر رہا بلکہ مشاہدات کے ساتھ بات کرتا ہوں،اگر ہم یہ بات نہیں کریں گے تو قوم کے ساتھ خیانت ہوگی،آپ اپنا قبلہ درست کریں ہم آپ کو سر کا تاج بنا لیں گے۔قوم کی قدر کریں، آپ کے کرنل اور میرے عام کارکن کے پاس ایک ہی شناخت ہے، دونوں کے لئے ایک ہی آئین ہے۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا ڈی آئی خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب
43ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چھبیسویں آئینی ترمیم پر قومی اسمبلی میں تاریخی خطاب