جمعیت علماء اسلام کے سیکرٹری جنرل اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبد الغفور حیدری پر قاتلانہ حملے کے خلاف قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کی اپیل پر پنجاب کے تمام ضلعی ہیڈکوارٹر لاہور ، ملتان ، فیصل آباد ، گوجرنوالہ ، راولپنڈی ، اٹک ، سرگودھا ، جھنگ ، ڈیرہ غازی خان ، مظفر گڑھ ، بہاولپور ، بہاولنگر،اوکاڑہ ، ساہیوال ، پاکپتن ، دیپالپور ، راجن پور ، بھکر ، میانوالی ، خوشاب ، تلہ گنگ، چکوال ،وہاڑی ، ٹوبہ ٹیک سنگھ ، خانیوال ، منڈی بہاوالدین ، گجرات ، کبیر والہ ، وزیر آباد ، چچہ وطنی ، میاں چنوں ، مری ، ٹیکسلا ، خانپور اور حاصل پور سمیت دیگر شہروں میں جمعیت علماء اسلام کے مرکزی ،صوبائی اور ضلعی راہنماؤں کی قیادت میں احتجاجی مظاہرے ، جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں ۔
اس موقع پر جمعیت علماء اسلام کے راہنماؤں مولانا امجد خان لاہوری ،مولانا اقبال رشید ، مفتیسید مظہر اسعدی ، مولانا سید انور شاہ بخاری ، پروفیسر اقبال اعوان ، حافظ حبیب اللہ چیمہ ، پیر محمد فیاض شاہ ، قاری محمد ابراہیم ، نور خان ہانس ایڈوکیٹ ، مولانا عبد المجید توحیدی ، پیر جی عزیز الرحمٰن ، قاری سعید بن شہید ، مولانا تاج محمد ، مفتی فضل الرحمٰن ناصر ، مفتی شاہد مسعود ، مولانا محب النبی اور سید محمد زکریا سمیت دیگر نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام امن پسند جماعت ہے اور ملک میں امن چاہتی ہے ،پاکستان اور اسلام کا دشمن ملکی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کیلئے علماء کو نشانہ بناتا ہے ، ہم لسانیت اور فرقہ واریت کے خلاف ہیں اورآئین کی اورجمہوریت کے تحفظ کی بات کرتے ہیں ۔
آج ہمارے دشمن کو پاکستان کی ترقی برداشت نہیں اور بلوچستان کے راستے عالمی منڈیوں میں گوادر کے کردار کا خاتمہ دشمن کی اولین ترجیح ہے ، جسکے کیلئے ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے ، مقررین نے کہا کہ مولانا عبدالغفور حیدری پر حملہ بھی مولانا فضل الرحمٰن پر حملے کا تسلسل ہے ، تاکہ مذہبی قوتوں کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جا سکے لیکن پاکستان و اسلام دشمن قوتیںاپنے اس ناپاک منصوبے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں ، انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام پاکستان میں جمہوریت کی علمبردار ہے اور کبھی بھی ملکی آئین سبوتاز کرنے کے اقدامات کی حمایت نہیں کر سکتی اگرچہ اس کے لئے جتنی بڑی سے بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ مملکت خداداد پاکستان پر دشمن اپنے پنجے گاڑنے کے لئے بے چین و بے قرار کھڑا ہے لیکن ہم جانوں کا نظرانہ پیش کر کے پاکستان کی حفاظت کریں گے ،
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب