مولانا فضل الرحمٰن کا ملتان میں ادارہ جامعہ خیر المعارف میں تقریب سے خطاب

الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم 

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَنزِيلًا۔ فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا۔ صدق الله العظیم

حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری صاحب دامت برکاتہم العالیہ، سٹیج پر موجود، پنڈال میں موجود حضرات علماء کرام، معززین علاقہ، میرے بزرگو، دوستو اور بھائیوں! جب مجھے یہاں آنے کے لیے دعوت دی جا رہی تھی تو اس دعوت کا جو تاثر تھا وہ بڑا مختصر چھوٹا سا تھا لیکن جب میں یہاں پہنچا ہوں تو اس کا تو حجم جو ہے وہ دعوت سے کئی گناہ زیادہ بڑا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ جامعہ خیر المدارس کی خدمات کو دنیا کا کوئی باشعور آدمی نظر انداز نہیں کر سکتا، بہت علماء پیدا کیے، حفاظ پیدا کیے، قرآء پیدا کیے۔ مدینہ منورہ میں کچھ قرآء حضرات ہیں پاکستانی ان کا بھی زیادہ تر تعلق جامعہ خیر المدارس سے رہا ہے اور اس کا تذکرہ وہ کرتے تھے کہ دیکھو ہم مدینے آئے یہاں حرم میں بیٹھے ہم نے شاگرد پیدا کیے اور یہ جو حرم کی امام ہمیں نماز پڑھاتے ہیں ان میں بھی ہمارے شاگرد ہیں تو حضرت مولانا خیر محمد صاحب رحمہ اللہ نے جس کام کا آغاز کیا تھا ہم ان کے ثمرات یہاں تک دیکھ رہے ہیں ہماری اپنی زندگی میں، تو یقیناً یہ کار خیر ہے صدقہ جاریہ ہے اور ہم بھی جب اس ماحول میں آتے ہیں کچھ وقت بیٹھتے ہیں تو ہمیں بھی یہ چند لمحات بہت ہی قیمتی نظر آتے ہیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ حفاظ اور قرآء کا یہ اجتماع ہے، قرآن کے عنوان سے یہ اجتماع منعقد ہے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے 

وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ، ويتَدَارسُونَه بيْنَهُم، إِلاَّ نَزَلتْ علَيهم السَّكِينَة، وغَشِيَتْهُمْ الرَّحْمَة، وَحَفَّتْهُم الملائِكَةُ، وذَكَرهُمْ اللَّه فيِمنْ عِنده

جو لوگ اللہ کے کسی گھر میں اکٹھے ہوں اور اس میں وہ قرآن پڑھے بھی اور ایک دوسرے کو سمجھائیں بھی ان لوگوں پر اللہ تعالی کچھ نقد انعامات نازل فرماتے ہیں۔ جس میں سب سے پہلا انعام وہ سکینہ ہے، سکینہ، سکون، تسکین، اطمینان، طمانینت یہ ضد ہیں اضطراب، پریشانی اور پراگندگی کے، اور علماء فرماتے ہیں کہ سکینہ یہ قلب کی اس کیفیت کا نام ہے جس وقت اس کے اوپر انوار کا نزول ہو رہا ہوتا ہے، اور دوسرا نقد انعام اس مجلس میں شریک لوگوں پر کہ اللہ کی رحمت ان لوگوں کو ڈھانپ لیتی ہے، اور ملائکہ ہر طرف سے ان کو گھیر لیتے ہیں چھا جاتے ہیں اس ماحول پر اس منظر کو دیکھنے کے لیے کہ اچھا یہ وہ انسان ہے کہ جس کو بنانے کا جب اللہ نے فیصلہ کیا تو ہم نے اعتراض کیا تھا اس کے اوپر کہ خون بہائے گا روئے زمین میں فساد پھیلائے گا، یہ اللہ کے گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں اللہ کی کتاب پڑھ رہے ہیں ایک دوسرے کو سمجھا رہے ہیں درس و تدریس کا کام جاری ہے اس احساس کے ساتھ اس مجمع کو گھیر لیتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اپنے ماحول میں یاد کرتا ہے، اگر ہمارے جیسے غریب فقیر لوگ کمزور عاجز لوگ بادشاہوں کے ماحول میں خیر سے یاد کیے جاتے ہوں تو کتنا بڑا اعزاز سمجھتے ہیں اپنے لیے اتنی بڑی مجلس بادشاہوں کی مجلس میں مجھے یاد کیا گیا میرے لیے اچھے الفاظ بولے گے ہم اس کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں، تو جب اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب تم مسجد کے ماحول میں بیٹھ کر قرآن پڑھتے ہو اور ایک دوسرے کو سمجھاتے ہو تو میں آپ کو اپنے ہاں یاد کرتا ہوں، اس سے بڑھ کر بھی کوئی اعزاز حاصل ہو سکتا ہے کسی کو؟ تو یہ اجتماع بھی قرآن پڑھنے پڑھانے والوں کا ہے، قرآن سیکھنے اور سکھانے والوں کا ہے اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ ہماری اس مجلس کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مصداق بنائے۔

ایسا کہی بھی نہیں بدقسمتی سے ہمارے برصغیر کی یہ تاریخ بن گئی کہ یہاں علم تقسیم ہو گیا ہے، دینی علم اور عصری علم، ہم سب ایک دو الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں مجھے اج تک ان کی بنیاد نہیں ملی کہ ہم کس بنیاد سے یہ دو لفظ استعمال کر رہے ہیں اور علم کو تقسیم کررہے ہیں، لیکن اس کی بنیاد انگریز نے ڈالی تھی، جب علی گڑھ میں سب سے پہلا مدرسہ قائم ہوا تو اس مدرسے کے نصاب سے قرآن اور اس سے متعلق علوم نصاب سے نکال دیے گئے، حدیث اور اس سے متعلقہ تمام علوم نصاب سے نکال دیے گئے، فقہ نصاب سے نکال دیا گیا، اور برصغیر کی سرکاری زبان تھی فارسی وہ بھی نصاب سے نکال دی، ہمارے وقتوں تک تو ابتدائی کتابیں صرف اور نحو کی یا منطق کی وہ فارسی میں پڑھی جاتی تھی، لیکن اب تو سنا ہے کہ ہم نے بھی فارسی نکال دی ہے، ہم پڑھتے تھے ضرب را ضربا بنا کردن، ضرب کو ضربا سے بنایا گیا اور ہم کہتے ہیں کہ ضرب کو ضربا سے پیدا کیا گیا، ضرب کو ضربا سے پیدا کیا گیا، یہ تقسیم کون لایا ہے؟ میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ جب مالٹا سے واپس آئے تو ضعیف ہو چکے تھے پیرانہ سالی بھی تھی بیماری اور ضعف بھی تھا اور اس کے باوجود علی گڑھ کی طرف گئے، اور یہ تجویز دینے کے لیے کہ آئیں ہم نصاب ایک کردے، لیکن ان کی اس تجویز کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی، پورے ہندوستان میں وہ نصاب تعلیم پھیلا سرکار کی نگرانی میں اور جب پاکستان بنا تو اسی اسٹیبلشمنٹ نے اور اسی بیوروکریسی نے اس نظام تعلیم کو من و عن برقرار رکھا اور ہمارے علماء مجبور ہوئے کہ وہ قرآن و حدیث اور فقہ کے علوم کو محفوظ کرنے کے لیے دینی مدرسے کو قائم و دائم رکھے۔ ایک زمانے میں حضرت شیخ الہند فرمایا کرتے تھے کہ جس درد سے میری ہڈیاں پگھلی جا رہی ہیں میرے اس درد کو پہچاننے والے مجھے علی گڑھ کے مدرسے میں نظر آرہے ہیں، اپنے مدرسوں کے بارے میں اس امید کی بات نہیں کی جس امید کی بات آپ نے کالج اور یونیورسٹی کے طالب العلم کے بارے میں کی، لیکن آج مدرسہ نہیں چاہیے، مدرسوں کے رجسٹریشن بند، مدرسوں کے بینک اکاؤنٹ بند، چندہ نہیں لے سکتے اگر لے لیں تو مدرسے والے پر بس نہ چلے تو چندہ دینے والے پر ہاتھ ڈالتے ہیں، اور یہ کس کے کہنے پہ؟ کس کے دباؤ پہ؟ اسی مغرب اور اسی یورپ کے دباؤ میں اور اسی امریکہ کے دباؤ میں جنہوں نے اس وقت بھی سرکار کے زیر انتظام وہ مدارس قائم کیے کہ آنے والی نسلیں قرآن و حدیث سے ناواقف ہو جائیں، اور آج بھی میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ اگر یہ مدارس نہ ہو اور اس کی شکل تبدیل ہو جائے تو شاید آپ کی گاؤں کے محلے کی مسجد کے لیے کوئی امام مسجد بھی آپ کو نہ ملے گا جو آپ کو نماز پڑھا سکے۔

اسلام کی طرف منسوب ہر چیز آج ہمارے ملک میں نشانے پر ہیں، آپ کے علوم ان کے نشانے پر ہیں، اور یہ بات میں بھی جانتا ہوں مولانا حنیف صاحب بھی جانتے ہیں کہ اس جرم کے مرتکب سیاستدان تو ویسے بدنام ہیں اس جرم کے ارتکاب کرنے والے بھی ہماری اسٹبلشمنٹ اور بیوروکریسی ہیں، وہ لوگ جو مغرب کی اشاروں پر پاکستان کو چلاتے ہوئے اگر وہ کہیں کہ پاکستان کو کافرستان بنا دو تو پھر اسی کو رحمت بنا کر پیش کریں گے، اس مخلوق سے ہمارا واسطہ ہے، ان عناصر سے ہمارا واسطہ ہے، آپ سمجھتے ہیں کہ فضل الرحمان ویسے کوئی خود کسی بات پہ ناراض ہے تو غصہ کر رہا ہے، نہیں! میں ان کے اندر کے حرام مغز کو جانتا ہوں، ان کے کھوپڑیوں کے اندر غلاظتوں کو جانتا ہوں، بلاوجہ بات نہیں کر رہا ہوں میں، اگر اسلام کے حوالے سے آج ہم مایوس ہیں یا مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں انہی کے ہاتھوں سے، جس طرح کی اسمبلیاں بنائی جاتی ہیں پھر جس طرح کی اسمبلی میں جس طرح وزیراعظم بنایا جاتے ہیں اس کو مخلوق سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا مجعول سے تعمیر کیا جائے گا، یہ بناوٹی عہدے بن گئے، اصل کمانڈ جہاں پر ہے اور پھر اس کا جو اصل کمانڈ جہاں پر ہے اگر ہم سیاست میں نہ ہوتے تو شاید آج تک ہمیں پتہ نہ چلتا، لیکن اتنا پتہ چل گیا ہے کہ اصل رکاوٹ کون ہے اور تبھی میری نشانے پر یہ اولین لوگ ہیں، ہم دین اسلام پر اور دینی تعلیمات پر کسی قسم کی کوئی کمپرومائز کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ہم زندہ ہوں اور ہمارے سامنے قرآن کریم کے علوم کو دفن کیا جائے یہ کہہ کر کے ہم تو دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں، او قومی دھارا، یہ قوم میں اس محلے میں جاتا ہوں عام گھر محلے کے لوگوں کو دیکھتا ہوں وہ قوم ہے، دیہاتوں میں جائیں پبلک جس طرح زندگی گزارتی ہے یہ ہے قومی دھارا، اب آپ مجھے بھی دیکھ لیں ان کو بھی دیکھ لیں ان کو بھی دیکھ رہے ہیں اور اپنے محلے اور معاشرے کے عوام کو بھی دیکھ لیں ہم قوم سے شمار ہوتے ہیں یا وہ قوم سے شمار ہوتے ہیں؟ ابھی اس جلسے میں ایک پنجابی کھڑا ہو جائے ابھی اس جلسے میں ایک پٹھان کھڑا ہو جائے ابھی اسی جلسے میں ایک مولوی صاحب کوئی سندھ سے سندھی کھڑا ہو جائے بلوچی کھڑا ہو جائے کوئی تعارف کی ضرورت نہیں اس کے شکل و صورت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پنجابی ہے یہ سندھی ہے یہ بلوچی ہے یہ پٹھان ہے، اور ان کو آپ پہچان سکتے ہیں جس لباس میں وہ رہتے ہیں؟ پھر بھی قومی دھارے میں وہ رہتے ہیں ہاں ہم کہتے ہیں ٹھیک ہے یہ سودا بھی کرنے کو تیار ہیں، ہم قومی دھارے میں آنے کے لیے تیار ہیں تم دینی دھارے میں آنے کے لیے تیار ہوجاؤ، وہ اپنی جگہ پہ کھڑے رہیں گے ہمیں کہیں گے یہ ختم کرو وہ ختم کرو یہ اس طرح کرو وہ اس طرح کرو کیا مجھے اپنے بچوں کی تعلیم کی فکر نہیں ہوگی؟ علم علم ہے بھائی علم علم ہے، ہم اپنے مدارس میں جس کو تم عصری علم کہتے ہو وہ ہمارے انبیاء کا علوم ہیں، اگر حضرت نوح علیہ السلام کو لکڑی کا کام نہ آتا تو لکڑی سے کشتی کیسے بناتے؟ اور قرآن میں اس کا ذکر ہے، اگر داوٗد علیہ الصلٰوۃ والسلام کو لوہے کا کام نہ آتا تو زِرہ کیسے بناتے؟ اگر حضرت یوسف علیہ السلام کو ریاضی نہ آتی، علمِ حساب نہ آتا تو کس طرح کہتے کہ وزیر خزانہ مجھے بناؤ؟ 

وَاجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ

کیسے کہتے یہ؟ تو یہ سارے علوم جس کو آج ہم عصری علوم کہتے ہیں قرآن کی طرف جائیں تو یہ انبیاء کا عمل نظر آتا ہے، تو قوم کو تقسیم کرنے کے ذمہ دار وہ ہیں۔ ہم نے اسے جوڑنے کی کوشش کی ہے اور ہم اب بھی انہی مدارس میں جو روز مرہ کے حساب سے حالات کے تقاضوں کے مطابق جب ہم نصاب تبدیل کرتے ہیں عصری تقاضوں کو اس میں لاتے ہیں تم سے اچھا نصاب بناتے ہیں، تم سے نصاب بھی ہم اچھا بناتے ہیں تم سے اچھا پڑھاتے ہیں اور ہمارے امتحانات کا معیار بھی تمہاری امتحانات سے ہزار درجے بہتر ہے، کوئی مقابلہ نہیں کر سکتے ہمارے، اس کے باوجود ہمیں ایسا پیش کیا جا رہا ہے جیسے ہم اولاد کو ضائع کر رہے ہیں، ہاں ٹھیک ہے ہمیں وہ علوم حاصل کرنے چاہیے کہ ہم ملکی نظام میں داخل ہو سکتے ہیں، جب میں اسلامی نظام کی بات کروں گا تو اسلامی نظام کوئی ہوا میں کھڑی چیز تو نہیں ہے اس نے زمین پر نافذ ہونا ہے، اس نے تو زمین پہ نافذ ہونا ہے دفتروں میں ہونا ہے اسی کے مطابق ہمارا نظام چلتا ہے، اسی کے مطابق ہمارے فیصلے ہونے ہیں اسی کے مطابق ہمارے فائل بننے ہیں اگر اس کے ماہرین ہمارے پاس نہ ہوں اور صرف اسلام کا مطالبہ کرتے رہیں تو اس نظام کو عملی جامہ کون پہنائے گا، اس کا احساس تمہیں ہو سکتا ہے یا ہمیں ہو سکتا ہے، یہ کبھی جو ہم اسلامی نظام کے حوالے سے محسوس کرتے ہیں اس کو ہم نے پورا کرنا ہے یا تو نے پورا کرنا ہے، تو کیسے ہم ان علوم کا انکار کرتے ہیں، بات یہ نہیں مسئلے کو سمجھو بات قطعاً یہ نہیں کہ ہم عصری علوم کو قبول نہیں کر رہے، جھگڑا اس بات پر ہے کہ وہ دینی علوم کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ہم ختم نہیں ہونے دے رہے، یہ پروپگنڈا ختم کرو اس کو کہ ہم انگریزی نہیں پڑھانا چاہتے، ہم عصری علوم نہیں پڑھانا چاہتے یہ پروپیگنڈا ہے جھوٹ ہے ہمارے بارے میں، دراصل وہ اسلامی علوم کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ہم گواہی دے سکتے ہیں اس بات کی۔

پشاور میں دارالعلوم اسلامیہ قائم ہوا پھر سرکار کے نظام میں چلا گیا پھر اسلامیہ کالج بن گیا وہ آج بھی ہے لیکن اندر جا کے ذرا دیکھو تو سہی کہ اس میں کوئی اسلامی علوم ہیں؟ جامعہ عباسیہ بہاولپور جس میں علامہ شمس الحق افغانی رحمہ اللہ استاد تھے جس میں ہمارے جامعہ اشرفیہ کے مولانا محمد ادریس کاندھلوی استاد تھے، یہ وہاں کے پڑھے ہوئے ہیں، ہمارے ملتان کے مولانا سید کاظمی صاحب رحمتہ اللہ علیہ وہ استاد تھے اس میں، بڑے بڑے علماء استاد تھے اس میں دیوبندی بریلوی علماء اکابرین، جب سرکار کے قبضے میں آیا تو آج پتہ کرو نا اس کا، کچھ ہے؟ کچھ بھی نہیں، تو جو آپ کے کنٹرول میں گیا اس سے دینی علم ختم ہوا، تو اس کا ہمارے پاس مشاہدہ ہے ہم اس کے گواہ ہیں اور دینی مدرسے نے کہیں پر بھی جدید علوم کا انکار نہیں کیا، رفتہ رفتہ ہم اپنی سوچ کے مطابق لا رہے ہیں تمہارے نیتوں کو ہم جانتے ہیں کہ تمہارے سوچ کے مطابق نہیں لائیں گے اپنی سوچ کے مطابق لائیں گے یہ ضرورت ہم سمجھتے ہیں۔ تو یہ وہ چیزیں ہیں جو اس زمانے میں ہم اس کے مقابلے میں کام کررہے ہیں، مدارس پر دباؤ بڑھ رہا ہے اب دباؤ بھی بڑھ رہا ہے اور مدرسے میں طلباء کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، جتنا دباؤ بڑھ رہا ہے اتنے ہی مدرسے میں طلباء کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن ان کی یہ سازش اس لیے کامیاب نہیں ہونے دینی کہ یہ منشا اس وقت امریکہ کا ہے یہ منشا یورپ کا ہے یہ منشا برطانیہ کا ہے، جب اس کی حاکمیت تھی اور ہم غلام تھے تب تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن آج ہم اس صورتحال کو کیوں قبول کریں! تو ان شاءاللہ العزیز یہ ادارے بھی زندہ رہیں گے، چلیں گے بھی اور ہمیشہ مل کر چلائیں گے ان شاءاللہ اور انہوں نے جو دینی مدرسے کے نام پر ڈمی مدرسے بنائے ہیں ڈمی مدرسے۔

ایک دفعہ ہمارے سامنے کہا ہمارے مدرسوں کی تعداد ماڈل مدرسوں کی تعداد 15 ہزار تک پہنچ گئی ہے، ہکے بکے رہ گئے ہم لوگ بھئی کدھر ہے تمہارا مدرسہ؟ مولانا مفتی مجیب الرحمٰن صاحب نے ان کو کہا کہ آپ شیخوپورہ کے رہنے والے ہیں آتے ہیں میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں ایک مدرسہ دکھا دو جس کا ذکر تم کر رہے ہو ایک مدرسہ، یہ آپ بتائیں یہ ہو کیا رہا ہے ہمارے ملک میں لیکن ان شاءاللہ استقامت کے ساتھ مقابلہ کریں گے، یہ مدارس بھی رہیں گے اور سب سے جو خطرناک جنگ ہے وہ تہذیب کی جنگ ہے، تہذیب ہماری چادر ہے، دینی علوم ہمارے ایمانیات میں سے ہے، ایمان کی جگہ قلب ہے، اب اندر سے ایمان نکل جائے اور اوپر سے تہذیب کی چادر نوچ لی جائے کیا رہ جائے گا؟ ننگا تڑنگا معاشرہ بن جائے گا۔ تو ان مدارس نے آپ کی تہذیب کو زندہ رکھا ہوا ہے، تم ہمیں لاکھ طعنے دیتے رہو یہ دقیانوسی ملا اور یہ 500 سال ہزار سال ہمیں پیچھے لے کے جا رہا ہے ان باتوں میں ہم نہیں آئیں گے کیونکہ ہم تمہارے حرام مغز سے واقف ہیں، اور جتنی آپ چلائیں چلائیں، ان کے خیال یہ ہیں کہ یہ تھک جائیں گے ان کو یہ نہیں معلوم کہ انہی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

الجهاد ماض إلى يوم القيامة

اسلام کے لیے جدوجہد اور محنت اور جہاد قیامت تک جاری رہے گا، تو نہ تھکنے والی امتی مسلمان امت ہے علماء کی امت ہے تم تھک جاؤ گے ہم نہیں تھکتے۔ سمندر نے مچھلی سے کہا کب تک تیرتے رہو گے تھک جاؤ گے تو مچھلی نے کہا کہ جب تک تیرے اندر موجیں مارنے کی طاقت ہے اس وقت تک میرے اندر تیرنے کی طاقت ہے، نہ تمہارے موجیں ختم ہوں گی نہ میرا تیرنا ختم ہوگا۔ یہ سامنے کی تعریفیں نہ کیا کرو، یہ میں حقیقت بیان کر رہا ہوں وہ حقیقت ہی سے تو شروع ہوا ہے یار جھوٹ بولو گے تو اور گناہ ہو جائے گا۔ جس طرح غیبت کے بارے میں کہ آپ نے منع فرمایا تو ایک صحابی نے کہا حضرت نے اگر وہ حقیقت ہو پھر اس نے کہا اسی کو تو غیبت کہتے ہیں اگر حقیقت نہ ہو تو پھر تو وہ بہتان ہے، تو اپنے دلوں کو ٹٹولیں تیار رہیں ان شاءاللہ العزیز اور علمی میدان میں سیاسی میدان میں ہر محاذ پر ان شاءاللہ انہی مدرسوں کے لوگ کام کر رہے ہیں اور آگے بڑھتے جائیں گے لیکن عوام سے دور نہیں رہنا، عوام کی خدمت اس کو ہی دینی حکم سمجھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

إن لله خلقاً خلقهم لحوائج الناس يفزع الناس إليهم في حوائجهم أولئك الآمنون من عذاب الله

اللہ تعالی کی ایک مخلوق وہ بھی ہے جس کو اللہ نے اس لیے پیدا کیا کہ وہ لوگوں کی ضرورتیں پوری کرے اور لوگ اپنی ضرورتیں لے کر ان کی طرف لپکتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ جو قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے محفوظ رہیں گے، یہ خدمت کرنا

إذا أراد الله بعبد خيرا صير حوائج الناس إليه

جب اللہ تعالی کسی کے لیے خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو لوگوں کی ضرورتیں اس کی طرف متوجہ کردیتے ہیں، جو لوگوں کی مشکل کو دور کرتا ہے حوائج کو دور کرتا ہے مدد کرتا ہے اس میں تو یہ بھی ایک کام ہے اور عام آدمی کو روزانہ اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم نے سیاستدانوں کے حوالے کر دی ہے جو ووٹ لڑتا ہے وہی کام کرے گا باقی آپ لوگ ہم فارغ ہیں، جس کا جتنا ہو سکتا ہے عوام سے رابطہ بھی اسی پہ ہو سکتا ہے اور جو اسباب ہوتے ہیں انہی کو استعمال کرنا پڑتا ہے تو ان کو ہم استعمال کریں گے، انہوں نے تو جمہوریت کو برباد کیا ہے، جمہوریت کو بھی انہوں نے برباد کیا اسلام کو بھی برباد کیا معیشت کو انہوں نے برباد کیا، کیا چھوڑا ہے انہوں نے؟ تو ان شاءاللہ العزیز یہ ملک ہمارا ہے یہ گھر ہے ہمارا اس کو مستحکم بنائیں گے اس کے ساتھ وفادار رہیں گے لیکن کسی سے وفاداری کا سرٹیفیکیٹ نہیں لیں گے گھر گھر ہوتا ہے وطن وطن ہوتا ہے، حب الوطن من الایمان، تو اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو قبول فرمائے ہمارے حاضری کو قبول فرمائے، دعا فرمائیں۔ 

ضبط تحریر: #محمدریاض

Facebook Comments