جمعیت علماء اسلام صوبہ سندھ کی مجلس شوری کااہم جلاس گلشن شہیداسلام جامعہ اسلامیہ لاڑکانہ میں منعقد ہوا ۔ اجلاس میں 26 نومبر 2017 کولاڑکانہ میں منعقدہونے والی شہید اسلام کانفرنس کی کامیابی،آئندہ عام انتخابات میں جماعت کا لائحہ عمل اور امیدواروں کے انتخاب کے متعلق اہم امور زیر غور
تفصیلات کے مطابق
گلشن شہید اسلام جامعہ اسلامیہ لاڑکانہ میں ہونے والے اجلاس میں مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمداسلم غوری سمیت صوبہ سندھ کی مجلس شوریٰ کے اراکین نے شرکت کی
اجلاس میں 26 نومبر کو ہونے والی شہید اسلام کانفرنس کیلئے حتمی انتظامات کا جائزہ لیاگیا اور کانفرنس کی کامیابی کیلئے اہم امور پر مشاورت کی گئی علاوہ ازیں آمدہ انتخابات میں صوبائی سطح پر بھرپور طور پرامیدواروں کے انتخاب اور الیکشن میں کامیابی کیلئے مشاورت کی گئی ۔اجلاس کے اختتام پرصوبائی جنرل سیکرٹری مولانا راشدخالد محمود سومرونے میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ
شہید ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے اصل قاتلوں کو گرفتار نہ کرکے اور کیس فوجی عدالت میں نہ بھیج کر نانصافی کی ہے
آئندہ انتخابات سندھ میں بھرپور عوامی اتحاد کیساتھ مل کر لڑینگے
29 نومبر کو لاڑکانہ میں 10 لاکھ کارکنان کیساتھ شہید اسلام کانفرنس منعقد کرینگے، مرکزی جماعت کی طرف سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ووٹ دینے کا فیصلہ درست تھا انہوں نے اقوام متحدہ میں روہینگیا مسلمانوں کیلئے آواز بلند کی اور آنگ سونگ سوجی سے امن کا نوبل انعام واپس لینے کا مطالبہ کرکے پاکستانی عوام کے جذبات کی ترجمانی کی ہے جس پر ہم ان کے مشکور ہیں
اس موقع پر انکا کہنا تھا کہ تانیہ خاصخیلی کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہیں اور مظلوم خاندان کیلئےانصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب