مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جامعہ صدیقیہ میں طلباء کرام سے خطاب

جناب مولانا منظور مینگل صاحب دامت برکاتہم العالیہ، جامعہ صدیقیہ کے اساتذہ کرام اور طلباء عزیز! واقعی یہ میری سعادت ہے کہ طلبہ علوم دینیہ کے اجتماع میں موجود ہوں اور آپ کی زیارت سے شرفیاب ہو رہا ہوں، یہ مدرسے انتظام کے لحاظ سے تو تقسیم ہے کسی جامعہ کی ذمہ داری ان کا نظام کسی کے حوالے کسی کا کسی کے حوالے لیکن یہ جامعات ہمارے مشترک اثاثے ہیں اور جو مدارس کے ماحول میں ہم آتے ہیں تو یہ اپنا ماحول محسوس ہوتا ہے اور پھر جہاں لوگ اللہ کے گھر میں بیٹھے ہوں اللہ کی کتاب کو پڑھتے ہو اور پڑھاتے ہوں، سمجھتے ہوں سمجھاتے ہوں، ایسے لوگوں کے بارے میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے 

وما اجتمع قوم في بيت من بيوت الله، يتلون كتاب الله ويتدارسونه بينهم، إلا نزلت عليهم السكينة، وغشيتهم الرحمة، وحفتهم الملائكة، وذكرهم الله فيمن عنده

جو لوگ اللہ کے کسی گھر میں بیٹھ کر قرآن کریم کو پڑھیں گے اور سمجھیں سمجھائیں بھی، ایسی مجلس پر اللہ تعالی کچھ نقد انعامات نازل فرماتے ہیں، پہلا انعام تو یہ ہے کہ ان پر سکینہ نازل کرتے ہیں، سکینہ، سکون، تسکین، اطمینان، طمانینت یہ ضد ہے اضطراب، پراگندگی اور پریشانی کے، اور علماء کرام نے سکینہ کی تعبیر کچھ اس طرح کی ہے کہ یہ قلب کی اس کیفیت کا نام ہے جس وقت اس پر انوار نازل ہو رہے ہوتے ہیں، تو پہلا انعام تو یہ ہے کہ اس مجلس میں بیٹھنے والے ہر شخص کے دل پر انوار نازل ہوتے ہیں اور اس کی طبیعت میں ایک تسکین آتی ہے، سکینہ آتا ہے، اضطراب اور پریشانی ختم ہو جاتی ہے، پراگندگی ختم ہو جاتی ہے

وغشيتهم الرحمة

اور دوسرا نقد انعام کہ اس مجلس کو رحمت ڈھانپ لیتی ہے 

وحفتهم الملائكة

اور تیسرا نقد انعام کے ملائکہ اس مجلس کو گھیرے میں لے لیتے ہیں، رحمت کے فرشتے ارد گرد چھا جاتے ہیں

وذكرهم الله فيمن عنده

اور چوتھی نقد نعمت وہ یہ کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے ماحول میں اپنی مجلس میں یاد کرتا ہے، اب آپ مجھے بتائیں کہ ہم جیسے کمزور لوگوں کو اگر بادشاہوں کی مجلس میں خیر سے یاد کیا جائے تو ہم اس پر کتنا فخر کرتے ہیں، کتنی خوشی ہوتی ہے ہمیں، تو جب بادشاہوں کا بادشاہ، شہنشاہ وہ اپنی مجلس میں ہمیں یاد کرے گا اس سے بڑھ کر ہمارے لیے سعادت اور کیا ہو سکتی ہے، اللہ رب العزت ہماری اس مجلس کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مصداق بنائے، باقی تو باتیں کہنے کی بہت ہیں اور جب ہم کچھ باتیں قوم سے کرتے ہیں تو آج کل سوشل میڈیا پر فوراً پہنچ جاتی ہے، آپ لوگ اسے لائیو بھی سنتے رہتے ہیں اور اگر وقت ہوتا تو میں کچھ اس حوالے سے بھی آپ سے کچھ باتیں کرتا لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اسلام کا جو حقیقی مقام ہے اس کے حقیقی مقام کو ہمیں سمجھنا چاہیے اور ہمارے اکابر نے دین اسلام کی جو حقیقی مقام ہے اس کا ذکر کچھ یوں کیا ہے کہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں 

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا

میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے، تو پہلی چیز ہے اکمال دین، ہمارے حضرات فرماتے ہیں کہ اکمال دین کے معنی یعنی دین مکمل ہے باعتبار تعلیمات و احکامات کے

وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي

اور میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے، تو اتمام نعمت یہ اس کامل اور مکمل دین جو تعلیمات احکامات کے حوالے سے مکمل ہے اور کسی نئے دین کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں اس دین کا جو کامل فرد ہے خارج میں وہ اس کا اقتدار ہے اس کی حاکمیت ہے، تو جب تک اللہ کے دین کی حاکمیت نہیں ہے ہم اس کو اتمام نعمت سے کیسے تعبیر کریں! ہاں یہ بھی نعمت ہے کہ میرے گھر میں اللہ کا ذکر ہے، یہ بھی نعمت ہے کہ میرے گھر میں قرآن ہے، یہ بھی نعمت ہے کہ میرے گھر میں لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، ہمیں اللہ نے پانچ وقت کی نماز نصیب کی ہے، ہمیں دین کے احکامات پر عمل کی توفیق عطاء فرمائی ہے، لیکن یہ افراد ہیں اور کامل اور مکمل فرد دین اسلام کا جو کامل اور مکمل ہے وہ اس کا اقتدار اور حاکمیت ہے، تو اس کام کے لیے فرشتے اوپر سے آئیں گے؟ یا اس کی ذمہ داری بھی ہمارے پاس ہے، تو وہی دین جو اللہ نے بھیجا ہے اسی کے لیے تو ہمیں خلیفہ بنایا ہے، کہ اب اس کی حاکمیت ہونی چاہیے، شریعت کے مطابق ہمارے نظام چلنا چاہیے

وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا

اور میں نے اسلام کو بطور نظام حیات کو پسند کردیا ہے، یہ پچھلے دو تعبیرات کی آخری شرائط پر دلیل ہے، تو اس اعتبار سے ہمارے اکابر نے جس طرح دین اسلام کی تشریح کی ہے اس سے بہتر تشریح کوئی اور نہیں کر سکتا جی۔

میرے والد صاحب رحمہ اللہ حدیث کے بہت بڑے استاد تھے اور میں نے خود ان سے سنا فرماتے تھے کہ میں نے صحاح ستہ کی جب سے ان کی تصنیف ہوئی ہے اس کے بعد سے اس کی جتنی شروح ہوئی ہے میں نے تمام شروح کا مطالعہ کیا لیکن میرے دارالعلوم دیوبند کے اکابر نے جو شروح لکھے ہیں اس معیار کی کوئی شرح نہیں ہے، اب یہ بات معمولی بات نہیں ہے، ایک ذمہ دار آدمی کہہ رہا ہے، بذل المجہود جو یہ چھپی ہیں ملتان سے تو اس وقت جو تقریظ لکھی ہے اس میں بذل المجہود کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے اور قاسم العلوم کے جلسہ عام میں کچھ مسئلہ تھا جس کے لیے تمام کتابوں جو انہوں نے وہاں جمع کی ہے اسے انہوں نے حوالے دیے تو وہاں انہوں نے یہ ارشاد فرمایا تمام کتابوں کے بارے میں، تو اپنے اکابر پر اتنا بڑا اعتماد اور پھر حضرت شیخ الحدیث، جب شیخ الحدیث کا نام لیا جاتا ہے برصغیر میں تو حضرت شیخ زکریا رحمہ اللہ ہی مراد ہوتے ہیں تو وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اکابر کی تشریحات کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کو حدیث پڑھایا تو پھر ظاہر ہے کہ میرے اکابر کے مطابق کوئی چلے گا تو ہماری طرف سے بھی اجازت ہوگی ورنہ نہیں ہوگی، یہ جو روز روز نئے نئے فتنے پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ نئی تشریحات شروع ہو جاتی ہیں اور ایسی ایسی تشریحات، ایسی ایسی تعبیرات کہ جو مغرب کے لیے قابل قبول ہوں مسلمانوں کے نہیں کیونکہ ایمان جا رہا ہے اس سے، تو ہم نے مغرب کو راضی کرنے کے لیے قرآن و حدیث نہیں پڑھا، جو اللہ کو مقصود ہے اور جس طرح ہمارے اکابر نے اس کو سمجھا ہے اس کے لیے محنت کی ہے وہی ہمارے لیے حجت ہے، ہر روز کوئی نہ کوئی ایسے مولوی، مولوی تو نہیں ہوتا مولوی نما پیدا ہو جاتا ہے جدید اصطلاح میں اس عالم دین کو سکالر کہا جاتا ہے، ویسے سکالر پیدا ہو جاتے ہیں جو الفاظ سے ہم پر رعب ڈالتے ہیں کہ شاید کوئی جدید تحقیق کی بہت بڑی اس کے پاس پتہ ہے حالانکہ وہ صرف شریعت کو ضائع کرنے کی ایک مہم پر کام کرتے ہیں اور اس طرح کے شریعت کہ جو مغرب کے لیے قابل قبول ہو تو یہ بالکل آپ دیکھیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو خبردار کیا اور فرمایا

لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَن قَبْلَكُمْ شِبْرًا بشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بذِرَاعٍ، حتَّى لو سَلَكُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوهُ، قُلْنَا: يا رَسُولَ اللَّهِ، اليَهُودَ وَالنَّصَارَى؟ قالَ: فَمَنْ؟

ایک زمانہ آئے گا جو تم بالشت بالشت اور قدم قدم پچھلی قوموں کی اس طرح پیروی کرو گے کہ اگر وہ گوہ کے غار میں گھس چلیں گے تو تم وہاں بھی اس کے پیچھے جانے کی کوشش کرو گے، تو صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہود و نصاری کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کون ہو سکتے ہیں۔ آج آپ دیکھیں اور بات صرف علمی اعتبار کی نہیں ہے یہ بات بھی سن لیں، علم میں وہ ہم سے تگڑے نہیں ہیں، کتاب کے میدان میں وہ ہم سے تگڑے نہیں ہیں مار کھاتے ہیں، ہمیں جو انہوں نے اپنا پیروکار بنایا ہے اپنی تہذیب کے، ننگی تہذیب کے، عُریا تہذیب کے، عیاشی اور فحاشی کے ذریعے سے انہوں نے پوری دنیا کی حکومتوں کا رُخ تبدیل کیا ہے، تو یہ وہ ساری چیزیں ہیں جو ہمارے مد نظر ہیں اور ہونی چاہیے تب جا کر پھر ان مدارس اور ان بلڈنگوں کے ایک افادیت ہمیں نظر آتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان پر اس طرح کے نتائج مرتب فرمائے، بہرحال میں بیمار بھی ہوں میرے گھر پر مہمان آیا تو مجھے کہا کہ آج اس دفعہ کمزور نظر آتے ہیں میں نے کہا میں کمزور نہیں ہوں تمہارے دعائیں کمزور ہو گئی ہیں، تو اپنے دعاؤں میں زرا زور پیدا کریں اور اللہ رب العزت سے درخواست کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قوت عطاء کرے، ایسی قوت جو اس کی دین کی خدمت میں صرف ہو جائے اور اللہ تعالیٰ گناہوں سے محفوظ رکھے اور جو ہو چکے ہیں اللہ ان کو درگزر فرما دے، ہمارے پاس اور کیا راستہ ہو سکتا ہے۔

دعا فرمائیں۔۔۔۔۔

ضبط تحریر: #محمدریاض

Facebook Comments