قمبر: جمعیت علماء اسلام صوبہ سندھ کی جانب سے قمبر میں سندھ حکومت کی تباہی، کرپشن کے خلاف کرپشن مٹائو سندھ بچائو احتجاجی ریلی
جمعیت علماءاسلام صوبہ سندھ کےسیکرٹری جنرل علامہ راشد محمود سومرو ،مولانا ناصر محمود سومرو مرکزی سالارانجینئرعبدالرزاق عابد لاکھو ،حافظ عزیر گل جاگیرانی کی قیادت میں نکالی گئی ریلی میں لاکھوں لوگوں شہریوں اور کارکنوں کی شرکت احتجاحی جلسہ بھی منعقد کیا گیا۔
جلسہ سے مولانا راشدخالد محمود سومرو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کچھ سندھ دشمن انگریز سامراج کی گود میں بیٹھ کر سندھ توڑنے کی سازشیں کر رہے ہیں ہم جانیں قربان کرکے سندھ کا تحفظ کرینگے۔
اب سندھ میں جمعیت علماءاسلام متبادل قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آچکی ہے قمبر کی عوام نے موجودہ سندھ حکومت کے خلاف ریفرنڈم دیدیا ہے۔
عوام سے کئے گئے وعدوں کےباوجود بھی بدحالی بدامنی بیروزگاری مہنگائی جیسے تحفے تاحال موجود ہیں۔
غریب عوام سے روٹی کپڑا اور مکان دینے کی بجائے چھینا جا رہا ہے۔ کرپشن کرکے قمبر سمیت سندھ بھر کے شہروں کو گندگی کے ڈھیر بنایا گیا ہے۔ مولانا راشدخالد محمود سومرو نے مزید کہا کہ مساجد مدارس کا تحفظ کرنے کیلئے اور سندھ کے حقوق کی جنگ لڑنے کیلئےسڑکوںپر نکلے ہیں شہید خالد محمود سومروؒنے اپنی ساری زندگی اسلام کی سربلندی اور سندھ کے حقوق کیلئے وقف کی تھی ہمارے جسم میں شہید خالد محمود سومرو کا خون ہے ہم ان کے مشن کو پورا کرینگے۔
کسی کرپٹ چور ڈاکو لٹیرے اور سندھ دشمن کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ میرے مدارس کے خلاف کارروائی کرے ۔
اس موقع پرمولانا ناصرخالد محمود سومرو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید خالد محمود سومرو کے خون سے انقلاب آئے گا اب عوام جمعیت علماء اسلام کی طرف دیکھ رہی ہے لاڑکانہ میں ایک سو ارب روپے کی کرپشن کی گئ، قمبر شہدادکوٹ کھنڈر بن چکا ہے احتساب کے عمل سے چوروں کو گذرنا ہوگا۔ انجنیئرعبدالرزاق عابد لاکھو نے کہا کہ سندھ کے حقوق کیلئے قائد سندھ علامہ راشدخالد محمود سومرو کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں سندھ میں لوگ روزگار کیلئے خودکشیاں کر رہے ہیں بچے بیچ رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے عوام کی جان مال تحفظ عزت آبرو محفوظ نہیں ہے اس موقعہ پرجمعیت علماءاسلام قمبرشہدادکوٹ کے مقامی رہنمائوں نے بھی خطاب کیا۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب