کراچی :
جمعیت علماء اسلام سندھ کے صوبائی نائب امیر قاری محمد عثمان نے کہا کہ مولانا عبدالغفور حیدری پر دھماکہ بزدلانہ حرکت اور اتحاد امت کو نقصان پہنچانے کا حربہ ہے ۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری کو بلٹ پروف گاڑی اور سیکیو رٹی مہیا نہ کرنا خود سوالیہ نشان ہے ۔ جمعیت علماء اسلام کی قیادت کو بلوچستان میں بار بار نشانہ بنانا لمحہ فکریہ ہے ،حملہ اسلام اورپاکستان پر حملے کے مترادف ہے۔دہشتگرد ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔ وہ جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکریٹری جنرل اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر حملے کے بعد جامعہ عثمانیہ شیر شاہ میں جمع ہو نے والے جماعتی کارکنوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ قاری محمد عثمان نے کہا کہ مولانا حیدری سمیت تمام زخمیوں کو فوری طور پر علاج معالجے کی مناسب سہولتیں فراہم کی جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ مولانا عبدالغفور حیدری کو جب انکی گاڑ ی سے منتقل کیا جارہا تھاتو وہ دوسرے دوستوں کا حال پوچھتے ہوئے تسلی دے رہے تھے۔قاری محمد عثمان نے کہا کہ ہمیں اس ملک اور اسلام کے استحکام کیلئے کام کرنا ہے، ملک بھر کے جماعتی احباب دعاؤں کا اہتمام کریں اورصبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ مولانا حیدری صاحب کی حالت بہت بہتر ہے ۔ان پر بزدلانہ حملہ جمعیت علماء اسلام کے صد سالہ عالمی اجتماع کی تاریخ ساز کامیابی پر پہلا حملہ ہے ۔کارکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں اور مرکزی وصوبائی قیادت کے حکم کا انتظار کریں۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ جمعیت علماء اسلام کی قربانیوں سے بھری پڑی ہے ۔جبکہ خود قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان صاحب پر 3 خود کش حملوں سے سمیت 6 حملے ہو چکے ہیں ۔جمعیت علماء اسلام ملک اور اسلام کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریگی ۔ اور اسلام کے پیغام امن وسلامتی کو ملک بھر سمیت پوری دنیا میں پھیلائے گی۔قاری محمد عثمان نے سانحہ مستونگ کے درجنوں شہداء اور زخمیوں کے لواحقین سے اظہار تعزیت و ہمدردی کرتے ہوئے کہاکہ اس عظیم سانحے پر پوری قوم اور جمعیت علماء اسلام کا ایک ایک کارکن اور بچہ بچہ سوگوار اور غم زدہ ہے۔بعدازاں جامعہ عثمانیہ شیرشاہ میں شہداء کے ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی کرتے ہوئے دعائے مغفرت اور زخمیوں کیلئے صحت یابی کی دعا کی گئی۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب