لاڑکانہ(پریس رلیز) وادی مہران کی عظیم دینی اصلاحی، روحانی درسگاہ گلشن شہید اسلام، جامعہ اشاعت القرآن والحدیث دودائی روڈ لاڑکانہ میں عظیم الشان پروقار ختم بخاری شریف اور دستار فضیلت کا پروگرام منعقد کیا گیا جس میں مختلف شعبہ جات سے فراغت حاصل کرنے والے 70 طلبہ کرام کی دستار فضیلت کروائی گئی جس میں تخصص فی الفقہ الاسلامی کے 7 طلبہ کرام دورہ حدیث مکمل کرنے والے 38 طلبہ کرام اور حفظ القرآن مکمل کرنے والے 25 حفاظ کرام شامل تھے، مکمل سال کے امتحانات میں پوزیشن حاصل کرنے والے طالبعلم میں خصوصی انعامات بھی تقسیم کیے گئے۔ اس موقع پر مختلف ممالک کے مہمانوں نے شرکت کی۔ جس میں سینٹ آف پاکستان کے ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری، دیوبند انڈیا سے سید محمد مدنی (انڈیا)، مولانا انوار الرحمٰن (انڈیا)، سید طارق علی شاہ (لنڈن)، خالد محمود (لنڈن)، مولانا راشد خالد محمود سومرو، مولانا ناصر خالد محمود سومرو، سینیٹر مولانا عطاالرحمٰن، مولانا عامر محمود، مولانا طبی حیدری، رفیع الدین، نور احمد کاکڑ، قاری محمد ابراہیم کانسی، ارباب فاروق جان (پشاور)، ملک صفی اللہ بابر، قمر عالم، مولانا عاصم کریم، جناب یوسف عالم، محبت علی کھوڑو، مولانا حمید اللہ سیال سمیت جید علمائے کرام، صحافی، دانشور، وکلائے اور تاجر برادری سمیت مختلف اہم شخصیات نے شرکت کی، اساتذہ کرام، طلبہ کرام اور مختلف سیاسی و سماجی، عوام الناس نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر استاد الحدیث، شیخ الحدیث مولانا عبدالحمید کبر بخاری شریف کا آخری درس دیا اور حفظ القرآن کا آخری سبق قاری حماد اللہ شیخ نے دیا۔ اس موقع پر 38 علمائے کرام کی دستار فضیلت کروائی گئی اور مولانا خالد محمود سومرو کی بھی اعزازی دستار کروائی گئی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ میاں رضا ربانی کی جانب سے حکومتی وزرائے کے رویے کے خلاف احتجاج کے فیصلے کی مکمل تائید کرتا ہوں، اس وقت استعیفیٰ انتہائی اقدام ہوگا نہیں لگ رہا کہ رضا ربانی استعیفیٰ دیں گے۔ جامعہ اشاعت القرآن والحدیث مدرسہ میں اتوار کی شب دیر سے دستار فضیلت کے پروگرام کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ پارلیامنٹ آئینی طور پر مقدس ادارہ ہے اور اس ادارے کو نظرانداز کرنا سوالات کے جوابات نہ دینا توہین کے زمرے میں آتا ہے، وزیراعظم آئینی مشکل سے پارلیامنٹ کو بچائیں، وزرائے کے گردنوں سے سریے نکالیں اور انہیں پابند کریں کہ وہ پارلیامنٹ کے اجلاس میں سوالات کی جوابات سمیت شرکت کریں۔ عبدالغفور نے مزید کہا کہ مردان یونیورسٹی کے واقعے کی مذمت کرتا ہوں قتل قتل ہوتا ہے اگر کسی پے توہین رسالت کا الزام تھا تو تھانے اور عدالتیں کھلی ہوئیں تھیں ایسا اقدام قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کی بدنصیبی ہے کہ یہاں کے حکمران ہونے کے باوجود عوام آج بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اپنے گریبان میں جھانکیں پھر دوسروں پر تنقید کریں، شہباز شریف میٹرو بس اورینج لائین ٹرین، موٹر وے منصوبے، بجلی کے پراجیکٹ اور ڈیم بناسکتے ہیں تو سندھ کا بجٹ بھی کسی سے کم نہیں، 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو مکمل اختیار ملے ہیں، باقی تین صوبوں کو بھی شہباز شریف کی طرح صوبے کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہیے لیکن یہاں تو صوبہ بلوچستان میں بجٹ کرپشن کی نظر ہونے کے ساتھ ساتھ لیپس ہوجاتا لیکن ترقیاتی منصوبے پورے نہیں کیے جاتے۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مدر بم کا استعمال شرمناک اور سفاکانہ عمل ہے اس کی مذمت کرتے ہیں جبکہ ایسے اقدامات اقوام متحدہ اور دنیا کی منہ پر تماچا ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ عدالت پاناما کے معاملے پر وزیراعظم کو نااہل قرار دے گی لیکن کچھ ضرور ہوگا جس کا ماحول پر کتنا اثر پڑسکتا ہے وہ پتہ چل جائے گا کہ معصوم بے گناہ لوگوں کو شہید کرنے والے اسلام اور انسانیت کے دشمن ہیں، دہشتگردوں کا کوئی بھی دین اور مذہب نہیں، اسلام امن کے راستے کا درس دیتا ہے، امریکا اور یہودی بے گناہوں کا خون بہانے والے اسلام اور مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے، مدرسے لوگوں کو دہشتگردی سے دو رکھنے کا درس دیتے ہیں، دہشتگردی اور انتہاپسندی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، پوری دنیا میں مدرسے خیر کے اسباب ہیں، دہشتگردی نے ملکی معیشت کو مفلوج کردیتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ کو امن کا مرکز بنایا جائے گا، حکومت سندھ نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا، عوام مایوس ہے، پیپلز پارٹی کی گذشتہ 9 سالوں سے دؤر اقتدار میں بدترین بدانتظامی، بدنظمی اور بدعنوانی پر مبنی رہا ہے، پورے پاکستان میں اس کا مثال کہیں نہیں ملتا، کرپشن، بدعنوانی اور بے ایمانی، اقربا پروری اور تعصب کے بنیاد پر سندھ کو مکمل طور پر تباہ کیا گیا ہے، دیئے گئے ٹھیکوں اور معاہدوں میں مکمل غیر شفافیت رہی۔ اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ امریکا ٹرمپ حکومت کی جانب سے افغانستان کے بے گناہ انسانوں پر بم گرانا گیا ہے جس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب