تورخم بارڈر فوری طور پر کھولا جائے،#مفتی_کفایت_اللہ
لنڈی کوتل،جمعیت علماء اسلام کے صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر نائب امیر اور سابق ایم پی اے مفتی کفایت اللہ نے لنڈی کوتل پریس کلب میں ایک اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ طورخم بارڈر کی بندش سے مقامی لوگوں ، کاروباری افراد ، اور ٹرانسپورٹروں کا بہت زیادہ نقصان ہور ہا ہے اور طورخم بارڈر کی بندش سے معمولات زندگی درہم برہم ہو چکے ہیں اور سارا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے مفتی کفایت اللہ نے کہا کہ بارڈر کی بندش ایک حساس معاملہ ہے اور فاٹا کی پوزیش بھی معلوم ہے انہوں نے کہا کہ پڑوسی ملک افغانستان میں نیٹو کی موجودگی بھی حساسیت میں اضافہ کرتی ہے اور تعجب ہے کہ ہندوستان کے ساتھ شروع سے کشمیر کے مسئلے پر تعلقات خراب رہتے ہیں لیکن ہندوستان کے ساتھ کبھی سرحد بند نہیں کی گئی حالانکہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین جنگیں ہو ئی ہیں جبکہ افغانستان کے ساتھ تمام رشتے موجود ہیں اور کبھی کوئی جنگ نہیں ہوئی ہے اس لئے افغانستان کے ساتھ سرحد بند کرنا عقلمندی کی بات نہیں مفتی کفایت اللہ نے کہا کہ ہندوستان کے ساتھ حالات پیچیدہ اور فطری ہیں جبکہ ایران کے ساتھ بھی تعلقات خوشگوار نہیں اس لئے ایسے حالات میں افغانستان جیسے برادر پڑوسی ملک کے ساتھ بارڈر بند کرنا درست فیصلہ نہیں اور طورخم بارڈر فوری طور پر کھول دی جائے مفتی کفایت اللہ نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ رفت آمد اور تجارت بند کرنے سے پاکستان کی سالمیت پر بھی سولیہ نشان پیدا ہوگا اس لئے کہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوگا تب تک پاکستان میں امن نہیں آسکتا انہوں نے کہا کہ پڑوسی کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور کہا کہ افغانستان کے ساتھ حکمت کے ساتھ چلنا ہوگا اور اس کو دشمن بنانے سے گریز کیا جائے مفتی کفایت اللہ نے کہا کہ نوہزار کنٹینر کراچی میں کھڑے ہیں اگر بارڈر نہیں کھلتی تو تاجر اور ٹرانسپورٹروں متبادل راستوں پر غور شروع کر سکتے ہیں جس سے ملک کو معاشی طور پر نقصان ہوگا مفتی کفایت اللہ نے کہا کہ پڑوسیوں کے ساتھ حالات میں نشیب و فراز آتے ہیں لیکن مستقل دشمنی کا روش اختیار کرنا درست نہیں ہوگا اور پاکستان کو طورخم بارڈر کی بندش کی صورت میں مستقل مورچہ زنی سے بچنا چاہئے اور نہ ہی بھارت کی طرح ایک اور دشمن کو پیدا کیا جائے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں دہشت گردی کے شکار ہیں اور دونوں برابر متاثر ہو رہے ہیں انہوں نے کہا کہ افغان سفیر کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد مولانا اپنا بھر پور کردار ادا کرینگے اور امید ہے کہ بہت جلد طورخم بارڈر کھول دی جائیگی انہوں نے کہا فاٹا کے لوگ پہلے ہی بہت زیادہ پریشان ہیں اس لئے طورخم بارڈر بند کرکے ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے نہ کئے جائیں اور کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی غلطیوں سے عبارت ہے اور کبھی پاکستان کے مفاد میں پالیسی نہیں بنائی گئی ہے بلکہ بیرون دنیا کے مفاد میں ہماری پالیسیاں بنتی ہیں
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب