اجلاس میں ملک سکندرخان ایڈوکیٹ،مولانامحمدحنیف،مولاناصلاح الدین ایوبی،مولاناانوارالدین،عبدالواحدصدیقی،حاجی بہرام خان اچکزئی،مفتی غلام حیدر، حاجی عبدالباری اچکزئی،حاجی محمدحسن شیرانی،سیدجانان آغا،حافظ محمدابراہیم لہڑی ودیگرنے شرکت کی،اجلاس میں مختلف امورپرغورکیاگیااجلاس میں تمام اضلاع کے کارکنوں،تنظیموں،انصارالاسلام،چندہ مہم میں کرداراداکرنے اورہرقسم جانی ومالی قربانی دینے ولے تمام افرادکاشکریہ اداکیاگیا اوربھرپور اندازمیں صدسالہ اجتماع میں شرکت پرتمام کارکنوں کوخراج تحسین پیش کیاگیا اجلاس میں جاری مردم شماری کے حوالے سے ضلع قلعہ عبداللہ کی جماعت کی شکایت پرالیکشن کمیشن،ادارہ شماریات اورمتعلقہ اداروں سے قلعہ عبداللہ میں مردم شماری کے حوالے سے لوگوں کی شکایات کاازالہ کرنے کامطالبہ کیاگیااورکہاگیاکہ تمام اضلاع میں شفاف مردم شماری کویقینی بنایاجائے اورلوگوں کی شکایات کاازالہ کیاجائے اجلاس میں پیرامیڈیکل کے ملازمین پرلاٹھی چارج کرنے کی مذمت کی گئی اوران کے تمام جائزمطالبات تسلیم کئے جائیں،اجلاس سے مولانافیض محمد،ملک سکندرخان ایڈوکیٹ،مولانامحمدحنیف،مولاناصلاح الدین ایوبی ودیگرارکان مجلس عاملہ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ قانون رسالت میں ترمیم کرنے نہیں دیں گے مدارس کادفاع کریں گے ملک کوسیکولربنانے کی ہرسازش کاڈٹ کرمقابلہ کریں گے عوام کے مسائل کے حل کے لئے سماجی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں تمام اضلاع کی تنظیمیں عوامی مسائل کے حل کے لئے سماجی کمیٹیوں کوفعال بنائیں سیکولرقوتیں قانون توہین رسالت میں ترمیم کے لئے سرگرم ہوگئیں ایک واقعہ کی آڑمیں انہیں اپنے مذموم مقاصدمیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے ، انہوں نے کہا کہ عالمی اجتماع کی کامیابی نے بیرونی ایجنٹوں کے اوسان خطا کر دےئے ہیں اور دنیا کی تاریخ کے فقید المثال 3روزہ اجتماع نے اسلام اور جمعیت مخالف قوتوں کی نیندیں حرام کردی ہیں، آئندہ دور جمعیت علماء اسلام کا ہے اور عوام ووٹ کی قوت سے اسلام دشمن قوتوں کے عزائم خاک میں ملادیں گے،اجلاس میں مولاناعطاء اللہ لانگو،مولاناعبدالباقی،مولاناسیدمحمد،مفتی عبدالشکور،صدسالہ اجتماع سے واپسی پرٹریفک حادثہ میں شہیدہونے والے گلستان کے عبدالبصیرسمیت دیگرافرادکے انتقال پران کی مغفرت اوردرجات کی بلندی اور زخمیوں کی جلدصحت یابی کے لئے دعاکی گئی
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب