پشاور: ( صوبائی ترجمان عبدالجلیل جان کے مطابق )
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان مدظلہ کی اپیل پرجمعیت علماء اسلام صوبہ خیبر پختونخوا کے زیر اہتمام صوبہ بھر میں احتجاج کیاگیا صوبے کے تمام اضلا ع پشاور،مردان، صوابی، چارسدہ، نوشہرہ، ہری پور، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام، تورغر، شانگلہ ، چترال، بونیر، سوات، دیر بالا، دیر پائین،ملاکنڈ ایجنسی،کوہاٹ، ہنگو، کرک، بنوں ،ٹانک ، ڈیرہ ،شمالی، وجنوبی وزیر ستان ، اورکزئی ایجنسی، مہمند ، باجوڑ، خیبر ، کرم، ایجنسی ایف آر میں نماز جمعہ اور عید کے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علماء اسلام کے صوبائی عہدیداروں ، خطباء اور علماء کرام نے امریکی صدر کی طرف سے افغا ن پالیسی کے اعلان کے موقع پر پاکستان کو دی جانے والی دھمکیوں کو امت مسلمہ ، عالم اسلام اور پاکستان کیخلاف کھلی دھمکی تصور کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے سابق حکومت کی پالیسیوں کو یکسر ختم کرکے نئی پالیسی جاری کرنے اور امریکہ کو منہ توڑ جواب دینے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا گیا کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں برما کے ظلم پر خاموش ہیں، حکومت پاکستان برما کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وتشدد کو رکوائے ، انہوں نے کہا کہ امریکہ دنیا کا سب سے بڑا دہشتگر ملک ہے جو پوری دنیا میں مسلمانوں کو چن چن کر قتل کررہا ہے، انسانی حقوق کاچیمپئن ہونے کا دعویدار امریکہ اور اس کے اتحادی لیبیا،عراق، شام، برما، افغانستان، فلسطین میں بہنے والے خون کے ذمہ دار ہیں اور ایک منظم سازش کے تحت مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے، انہوں نے کہا کہ افغانستان میں واضح شکست دیکھ کر امریکہ پاکستان اور اس کے بہادر عوام کی قربانیوں کو سبوثار کرکے پاکستان کیخلاف کارروائی کرنے کا جواز ڈھونڈ رہا ہے، انہوں نے پوری قوم سے اپیل کی کہ وہ امریکی عزائم کیخلاف یکجہتی کا مظاہرہ کریں، جمعیت علماء اسلام کے صوبائی قائدین جن میں مفتی کفایت اللہ نے مانسہرہ، مولانا شجا ع الملک نے مردان، مولانا عطاء الحق درویش نے صوابی، مولانا رفیع اللہ قاسمی نے مہمند ایجنسی، مولانا فضل معبود اور مفتی فضل غفور نے بونیر ، مولانا راحت حسین نے شانگلہ ، مولانا عزیز احمد نے ہنگو ، عبدالوحیدمروت نے لکی مروت، مولانا عین الدین شاکر نے کرم ایجنسی، عبدالجلیل جان، مولانا خیرالبشر ، مولانا امان اللہ حقانی، قاری سمیع اللہ جان فاروقی، قاری فیاض الرحمان، مولانا حسین احمد مدنی، اور دیگر قائدین نے مختلف مساجد میں نماز جمعہ کے موقع پر اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کی دھمکیوں کی مذمت کرتے ہوئے حکومت اور فوج کے جرات مندانہ موقف کی تائید کی ہے ، انہوں نے کہا کہ 8ستمبر سے صوبہ بھر میں امریکی عزائم کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی جائیگی اور ہفتہ احتجاج منایا جائیگا۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب