2018کے الیکشن کی تیاریوں کے سلسلے میں جمعیت علماء اسلام صوبہ خیبر پختونخوا نے مضبوط حکمت عملی کے تحت میدان میں اترنے کا فیصلہ کرلیا ہے، صوبہ بھر کے اضلاع کی طرف سے امیدواروں کی سفارشات بھجنے کا سلسلہ جاری، امیدوارں سے براہ راست انٹرویو لینے کیلئے چار مختلف کمیٹیاں تشکیل ، قومی اسمبلی کی 47اور صوبائی اسمبلی کی99نشستوں کا تقابلی جائزہ ، اور 2013,2008,2002کے نتائج اور اضلاع کی سفارشات پر مشتمل رپورٹ آئندہ ماہ صوبائی مجلس عاملہ کو پیش کر دی جائیگی،
جمعیت علماء اسلام صوبہ خیبر پختونخوا کی مجلس عاملہ کا اہم اجلاس صوبائی امیر مولانا گل نصیب خان کی صدارت میں صاحبزادہ ہاؤس سخاکوٹ میں منعقد ہوا جسمیں ارکان مجلس عاملہ مفتی کفایت اللہ ، شجاع الملک، مولانا عطاء الحق درویش، مولانا رفیع اللہ قاسمی، مولانا راحت حسین، عبدالجلیل جان، حاجی اسحاق زاہد، مولانا عین الدین شاکر، مولانا عزیز احمد، اور مولانا فضل معبود نے شرکت کی اجلاس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال ، آئندہ عام انتخابات ، علماء کی ٹارگٹ کلنگ، مدارس کے خلاف اقدامات، اضلاع کی طرف سے بھیجی گئی سفارشات اور دیگر اہم امور سے متعلق غورو غوض کیا گیا، اجلاس کے فیصلوں کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے جمعیت علماء اسلام کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات عبدالجلیل جان نے کہا کہ اجلاس میں آئندہ عام انتخابات کیلئے مضبوط اور ٹھوس حکمت عملی کے تحت میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا گیاہے، اور اس سلسلے میں مجلس عاملہ کے تمام ارکان کو خصوصی ٹاسک حوالہ کرتے ہوئے ہدایت جاری کی گئی کہ وہ اضلا ع میں جمعیت علماء اسلام کے امیدواروں کی کامیابی کیلئے ابھی سے حکمت عملی اور لائحہ عمل طے کرکے صوبائی جماعت کو رپورٹ دیں، اجلاس میں اضلاع کی طرف سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدوارں کی سفارشات کی روشنی میں 4مختلف کمیٹیاں تشکیل دی گئی، جنوبی اضلاع کیلئے مولانا شجا ع الملک، مولانا عطاء الحق درویش، مولانا رفیع اللہ قاسمی، ہزارہ ڈویژن کے لئے مفتی کفایت اللہ ، عبدالجلیل جان، مولانا راحت حسین، ملاکنڈ ڈویژن کیلئے حاجی محمد اسحاق زاہد، مولانا فضل معبود ، مولانا عزیز احمد، قبائل ایجنسیوں ، وسطی اضلاع کیلئے مولانا گل نصیب خان، مولاناعین الدین شاکر، عبدالوحید مروت، عبدالجلیل جان، پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی گئی جو اضلاع کی طرف سے بھیجی گئی سفارشات کی روشنی میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدوارں سے انٹر ویو لیگی، اجلاس میں الیکشن سیل کمیٹی کے ارکان مولانا عطاء الحق درویش، مولانا عزیز احمد، اور مولانا فضل معبود نے اضلاع کی طرف سے ارسال کردہ امیدواروں کی سفارشات اور درخواستوں سے صوبائی مجلس عاملہ کوآگاہ کیا، انھوںنے کہا کہ 12اضلاع جن میں لکی مروت، بنوں، کرک، کوہاٹ، چارسدہ مردان، ملاکنڈ ایجنسی، دیر پائین، دیر بالا، چترال ، تور غر اور بٹ گرام کی قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدوارں کی مکمل لسٹ اور سفارشات صوبائی کمیٹی کے حوالی کردی ہے، جبکہ باقی اضلاع سے درخواستوں اور سفارشات کی وصولی کا سلسلہ جاری ہے، اجلاس میں قومی اسمبلی کی 47اور صوبائی اسمبلی کی 99نشستوں کا جائزہ لینے کیلئے قائم کردہ کمیٹی کے ارکان مولانا مفتی کفایت اللہ اور عبدالجلیل جان نے کمیٹی کی تیار کردہ رپورٹ پیش کی جسمیں 3انتخابات کے قومی وصوبائی اسمبلی کے مکمل نتائج 2013,2008, 2002میں پارٹی پوزیشن اضلاع کی سیاسی صورتحال کا جائزہ رپورٹ شامل ہے، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ صوبائی کمیٹی ڈویژنل سطح پر تمام اضلاع کا دورہ کریگی اور ضلع میں انتخابی نتائج ، امیدوارں کی کامیابی اور دیگر سیاسی ،مذہبی جماعتوں سے اتحاد کے حوالہ سے رپورٹ مرتب کرکے عیدالاضحی کے بعد صوبائی مجلس کو پیش کریگی، اجلاس میں ڈیرہ اسماعیل خان میں شیخ الحدیث مولانا عطاء اللہ شاہ ؒ اور چارسدہ کے مولانا حق نوازؒ کے وحشیانہ اور بہیمانہ قتل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شہداء کو انکی علمی اور سیاسی خدمات پر عقیدت پیش کی گئ اور پسماندگان سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے فاتحہ خوانی کی گی، ایک قرارداد میں مولانا عطاء اللہ شاہ، اور مولانا حق نواز کی شہادت کو ایک سانحہ قرار دیتے ہوئے اس واقعہ کو حکومت اور مقامی انتظامیہ کی غفلت کا نتیجہ قرار دیا، اجلاس میں علماء کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو صوبائی حکومت کے ماتھے پر بد نماداغ قرار دیا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ عوام کے جان ومال کے تحفظ کیلئے فوری اور ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب