جمعیت علماء اسلام صوبہ خیبر پختونخوا نے قومی اور صوبائی اسمبلی کیلئے اضلاع سے امیدواروں کے نام 13اگست تک طلب کرلئے ،ضلع مردان، چترال،بنوں، کوہاٹ،کرک بٹگرام، تورغرنے امیدواروں کے نام صوبائی جماعت کے حوالہ کردےئے الیکشن سیل نے قومی اسمبلی کی 47اور صوبائی اسمبلی کی 99نشستوں میں جمعیت علماء اسلام کی پوزیشن اور آئندہ کے لئے حکمت عملی کی رپورٹ پیش کردی۔پشاور( )جمعیت علماء اسلام کی مجلس عاملہ اور صوبہ بھر کے اضلاع کے امراء ونظماکا اہم اجلاس صوبائی سیکرٹریٹ میں مولانا گل نصیب خان کی صدارت میں منعقد ہو ا جسمیں ارکان مجلس عاملہ مولانا شجاع الملک، مفتی کفایت اللہ، مولانا عطاء الحق درویش، مولانا رفیع اللہ قاسمی ، عبدالجلیل جان، مولانا فضل معبود، مولانا راحت حسین، مولانا عزیز احمد ، مولانا عین الدین شاکر ،عبدالوحید مروت، ضلعی امراء ونظماء نے شرکت کی ، اجلاس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال، آئندہ عام انتخابات، اضلاع کی مرتب کردہ رپورٹ، آئندہ کا لائحہ عمل اور دیگر اہم امور پر غورغوض کرتے ہوئے اہم فیصلے کئے گئے، اجلاس میں الیکشن سیل کمیٹی کے ارکان مفتی کفایت اللہ اور عبدالجلیل جان کو زمہ واری سونپی گئی کہ وہ 15دن کے اندر تمام اضلاع کی قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں کی پارٹی پوزیشن اور زیادہ سے زیادہ نشستوں میں کامیابی کیلئے مربوط حکمت عملی طے کرکے اضلاع کی سیاسی اور انتخابی صورتحال پر رپورٹ مرتب کرکے صوبائی جماعت کو رپورٹ دیں تاکہ رپورٹ کی روشنی میں آئندہ عام انتخابات کے حوالہ سے لائحہ عمل طے کیا جاسکے، اجلاس میں تمام اضلاع کو 13اگست تک امیدوراں کے نام صوبائی کمیٹی کے حوالہ کرنے کی بھی ہدایات کی گئی ، کمیٹی کے ارکان مولانا عطاء الحق درویش، مولانا فضل معبود، مولانا اسحاق زاہد اور عزیز احمد ہونگے، اجلاس میں اضلاع کے امراء ونظماء نے ضلع کی سیاسی صورتحال اور انتخابی نتائج اور آئندہ سیاسی ومذہبی جماعتو ں کے ساتھ اتحاد کے حوالہ سے رپورٹ پیش کی، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ قومی اسمبلی کے 47اور صوبائی اسمبلی کے 99حلقوں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کا کام اگست میں مکمل کرکے مرکزی جماعت کو منظوری کیلئے بھیج دیا جائیگا، اجلاس کے فیصلے کے مطابق عام انتخابات کیلئے امیدواوں کا اعلان مرکز جماعت کی منظوری سے بہت جلد کردیاجائیگا،اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا گل نصیب خان نے کہا کہ 2018میں جمعیت علماء اسلام ریکارڈ کامیابی حاصل کریگی، اضلاع زیادہ سے زیادہ نشستوں میں کامیابی کیلئے دن رات محنت کریں اور تمام تر اختلافات کو ختم کرکے صوبہ میں مغربی ایجنڈے کے خاتمہ کیلئے اپنا رول ادا کریں، مدارس اور علماء کے خلاف حالیہ اقدامات مغربی ایجنڈے کا حصہ ہے، پانامہ کیس، سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی سازش تھی جیسے ناکام بنادی گئی ،، مولانا گل نصیب خان نے کہا کہ صوبائی حکومت نے صوبے کو اقتصادی اور معاشی بدحالی کی طرف دھکیل دیا ہے، اور تمام محکمہ جات کو این جی اوز کے حوالہ کرکے مغربی ایجنڈے پر عمل پیر ا ہیں، انھوں نے کہا کہ عوام کو ریلیف دینے کے بجائے چار سال دھرنوں ،ناچ گانوں اور سیاستدانوں کی کردار کشی کرنے پر وقت ضائع کیا گیا، انھوں نے کہا کہ ملک میں جاری ایک بڑے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کیلئے پانامہ کا ایشو کا اچھلا گیا سی پیک کے منصوبے کے خلاف تمام تر سازشوں کے باوجود کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے انھوں نے کہا کہ مستقبل جمعیت علماء اسلام کا ہے، اور آئے روز جمعیت میں سیاسی شخصیات کی شمولیت عالمی اجتماع کے اثرات کا نتیجہ ہے ۔اجلاس سے مولانا شجا ع الملک، مفتی کفایت اللہ، عبدالجلیل جان،مولانا راحت حسین، قاری محمد یوسف، مفتی فضل غفور، مولانا امان اللہ حقانی، قاری عبداللہ، احمد خان کامرانی، امانت شاہ، عطاء الحق درویش اور ضلاع کے عہدیداروں نے بھی خطاب کیا
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب