جمعیت علماء اسلام صوبہ خیبر پختونخوا نے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی زیادہ سے زیادہ نشستیں جیتنے کیلئے حکمت عملی طے کرلی، ضلعی امراء ونظماء کا اجلاس 3اگست کو طلب کرلیا گیا،
آئندہ ماہ امیدواروں کے ناموں کو حتمی شکل دینے کیلئے اضلاع کو ہدایات جاری، الیکشن سیل اور امیدواروں کی جانچ پڑتال کیلئے مختلف کمیٹیاں تشکیل دے دی گئیں
پشاور :
جمعیت علمائے اسلا م صوبہ خیبر پختونخوا کی مجلس عاملہ کا اجلاس صوبائی سیکرٹریٹ پشاور میں مولانا گل نصیب خان کی صدارت میں منعقد ہو ا جسمیں ارکان مجلس عاملہ مولانا شجا ع الملک، مولانا عطاء الحق درویش، مفتی کفایت اللہ، مولانا رفیع اللہ قاسمی، عبدالجلیل جان، مولانا راحت حسین ، مولانا عین الدین شاکر، حاجی اسحاق زاہد، مولانا فضل معبود، عبدالوحید مروت، مولانا عزیز احمد نے شرکت کی، اجلاس میں ملک کی موجودہ صورتحال، آئندہ عام انتخابات، ممکنہ امیدواروں، تنظیمی صورتحال اور دیگر اہم امور پر غور وحوض کرتے ہوئے اہم فیصلے کئے گئے، اجلاس کے فیصلوں کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے صوبائی سیکرٹری اطلاعات عبدالجلیل جان نے کہا کہ اجلاس میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی زیادہ سے زیادہ نشستوں کی کامیابی کیلئے اہم حکمت عملی طے کی گئی اور تمام نشستوں پر امیدواروں کوکھڑا کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا، جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے حوالہ سے ہونے والی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا، اجلاس میں مفتی کفایت اللہ اور عبدالجلیل جان پر مشتمل 2رکنی الیکشن سیل کمیٹی قائم کی گئی جو قومی اور صوبائی اسمبلی کے 2008,2002,اور 2013کے الیکشن نتائج سیاسی جماعتوں کی پوزیشن کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے رپورٹ مرتب کرینگے، سیاسی جماعتوں سے رابطہ کیلئے مولانا گل نصیب خان، مولانا شجاع الملک، مفتی کفایت اللہ،مولاناراحت حسین، مولانا عطاء الحق درویش اور مولانا رفیع اللہ قاسمی پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی جبکہ عبدالجلیل جان صوبائی سیکرٹری اطلاعات کمیٹی کے رابطہ سیکرٹری ہونگے، اجلاس کے فیصلے کے مطابق صوبہ بھر کے اضلاع اور قبائل ایجنسیوں کے امرا ء ونظماء کا اجلاس3اگست کو پشاور میں ہو گا، جسمیں اضلاع کی سیاسی صورتحال او انتخابی صورتحال پر غور غوض ہو گا، اور اضلاع کی طرف سے امیدوراں کے حوالہ سے دی گئی رپورٹ کی روشنی میں اہم فیصلے کئے جائینگے اصولی طور پر فیصلہ کیا گیا کہ امیدواروں کی مشاورت کا کام ماہ اگست میں مکمل کرلیا جائیگا اور مرکز کو ممکنہ امیدواروں کی تفصیل جلد از جلد ارسال کر دی جائیگی، اجلاس میں امیدوارں کو براہ راست صوبہ کو درخواست دینے کے بجائے تحصیل اور ضلعی تنظیم کی وساطت سے درخواست دینے کا پابند کیا گیا ہے جبکہ ضلعی مقامی اور تحصیل کی تنظیموں کی جانب سے امیدواروں کو سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں تشہیر کرنے پر بھی پابندی عائد کیا گیا ہے، اجلاس میں ملاکنڈ اور چترال کے معاملات کا جائزہ لینے کیلئے 3رکنی کمیٹی قائم کی گئی جسکے ارکان حاجی اسحاق زاہد، مولانا عین الدین شاکر اور مولانا عزیز احمد ہو نگے، جبکہ امیدواروں کے کوائف ، ضلعی تنظیموں کی رپورٹ مرتب کرنے کے لئے مولانا عطاء الحق درویش، مولانا عزیز احمد اور فضل معبود پر مشتمل 3رکنی کمیٹی قائم کی گئی، ضلع نوشہرہ میں تنظیم کو توڑنے کے فیصلے کی توثیق کی گئی اور مفی شوکت اللہ خٹک کو ضلع نوشہر ہ کا کنونئیر مقرر کیاگیا ہےاور ضلع نوشہرہ میں نئے انتخابات کے لئے عبدالجلیل جان اور مولانا عطاء الحق درویش کو نگران مقر ر کیا گیا۔
صوبائی سیکرٹری اطلاعات حاجی عبدالجلیل جان
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب