پشاور :
جمعیت علماء اسلام صوبہ خیبرپختونخوا کی صوبائی مجلس عاملہ ، ضلعی امراء ونظماء کا اہم اجلاس مولانا عطاالحق درویش کی صدارت میں منعقد ہوا ،جس میں ارکان مجلس عاملہ مولانا شجاع الملک ، مولانا رفیع اللہ قاسمی ،عبدالجلیل جان ،مولانا عین الدین شاکر ، حاجی اسحاق زاہد ، مولانافضل معبود ، مفتی عبدالشکور ، عبدالوحید مروت ،استقبال خان ، مولانا عزیز احمد ، مولانا خیر البشر ، مولانا امان اللہ حقانی ،حکیم احسان الحق ، سید ہدایت اللہ شاہ، قاری محمد عظیم ، امجد سعید ، مولانا امانت شاہ ، مفتی شوکت اللہ ، مولانا سمیع اللہ اور ضلعی امراء ونظماء نے شرکت کی ۔
اجلاس میں واقعہ مستونگ ، عام انتخابات کی تیاریوں کے حوالے سے اضلاع کی تجاویز ، فاٹا کی صورت حال پر غٖوروغوض کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ جمعیت علماء اسلام خیبرپختونخوا آئندہ عام انتخابات کیلئے بھر پور حکمت عملی طے کرتے ہوئے میدان میں نکلے گی ، اس سلسلہ میں اضلاع کی جماعتوں کو خصوصی اور ضروری ہدایات جاری کرتے ہوئے اضلاع اور صوبہ کی سطح پر کسی بھی سیاسی ومذہبی جماعت کے حوالے سے تجاویز طلب کرتے ہوئے ایک ماہ کے اندر ہوم ورک مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے ۔
اجلاس کے فیصلوں کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے صوبائی ترجمان عبدالجلیل جان نے بتایا کہ جمعیت علماء اسلام صوبہ خیبرپختونخوا عید الفطر کے بعد اضلاع کی مرتب کردہ رپورٹوں اور تجاویز کی روشنی میں لائحہ عمل اور حکمت عملی طے کر کے مرکزی جماعت کو ارسال کرے گی۔
اجلاس میں اضلاع کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تمام 99حلقوں میں جمعیت علماء اسلام کی پوزیشن ، سیاسی جماعتوں سے اتحاد 2002، 2008، 2013کے انتخابی نتائج اور موجودہ صورتحال کے تناظر میں طے کر کے صوبائی جماعت کو ارسال کریں ۔
اجلاس میں بعض اضلاع اور پی کے کی طرف سے امیدواروں کے اعلانات پر ضلعی جماعتوں کو ہدایات کی گئی کہ وہ متعلقہ حلقوں اور تنظیموں کے خلاف فوری نوٹس لیں اور آئندہ اس قسم کے اعلانات کی حوصلہ شکنی کریں ،امیدواروں کے اعلانا ت صوبائی جماعت کی مشاورت کے ساتھ مرکزی جماعت کرے گی ۔
اجلاس میں فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے بعض ارکان اسمبلی کے مبینہ رویہ اور کردار کشی مہم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واضع کیا گیا کہ جمعیت علماء اسلام قبائل عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کوئی بھی فیصلہ قبائل کی مرضی کے خلاف مسلط کرنے کی اجازت نہیں دے گی ، اجلاس میں واقعہ مستونگ اور مولانا عبدالغٖفور حیدری کے قافلے پر حملے اور جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں کی شہادت پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے جمعیت علماء اسلام بلوچستان ، مولانا عبد الغفور حیدری اور دیگر پسماندگان کے ساتھ صوبائی جماعت کی طرف سے دلی تعزیت کا اظہار کیا گیا ، اجلاس میں اس واقعہ کو ملکی وحدت کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے ایک سوچا سمجھا منصوبہ قرار دیااور مطالبہ کیا گیا کہ واقعہ میں ملوث ملک دشمن اور اسلام دشمن قوتوں کے خلاف کاروائی کی جائے ۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب