مستونگ حملے کے خلاف جمعیت علماء اسلام صوبہ خیبر پختونخوا کا صوبے بھر اور قبائل ایجنسیوں میں پرامن احتجاجی مظاہرے
مولانا عبدالغفور حیدری اور ان کے قافلے پر حملہ سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے ، ہمیں امن پسندی اور محب الوطنی کی سزا دی جارہی ہے ، پشاور کے مظاہرے سے حاجی غلام علی ، عبدالجلیل جان ، مولانا خیر البشر ، مولانا امان اللہ حقانی ، مولانا رفیع اللہ قاسمی ، ارباب محمد فاروق جان اور دیگر قائدین نے خطاب کیا ۔
جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمٰن کی اپیل پر آج یہاں صوبہ بھر کے تمام اضلاع پشاور ، ،مردان ، صوابی ، چارسدہ ، نوشہرہ ، کرک ،ہنگو ،لکی مروت ، بنوں ، ٹانک ، ڈیرہ اسماعیل خان ، ہریپور ، ایبٹ آباد ،مانسہرہ ، بٹگرام ، تورغر ، شانگلہ ، بونیر ، سوات ، چترال ،دیر بالا ، دیر پائیں ،مالاکنڈ ،کوہستان ،خیبر ایجنسی ، اورکزئی ایجنسی ، کرم ایجنسی ، باجوڑ ایجنسی ، مہمند ایجنسی ، شمالی و جنوبی وزیرستان اور ایف آر سی میں پرامن احتجاجی مظاہروں سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وضلعی قائدین نے مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر حملے اور تیس افراد کی شہادت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت علماء اسلام نے عالمی اجتماع منعقد کر کے ملت اسلامیہ اور پوری دنیا کو ایک سٹیج پر اکٹھا کر کے مظلوم قوتوں کی راہنمائی کا حق ادا کیاہے ، اور جمعیت علماء اسلام پاکستان آئین ، قانون اور جمہوریت پر یقین رکھتی ہے ۔
جمعیت کو آج محب الوطنی اور امن پسندی کی سزا دی جا رہی ہے ، انہوں نے کہا کہ ملک دشمن قوتوں اور اسلام دشمن عناصر کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے ۔
جب کہ محب وطن اور اسلام پسند قوتوں پر حملے کر کے انہیں راستے سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے ، انہوں نے کہا کہ دھماکے اور حملے جمعیت کا راستہ نہیں روک سکتے ، کیوںکہ جمعیت علماء اسلام ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے ۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب