صوبائی امیر مولانا گل نصیب خان نے اہم اور ضروری ہدایات جاری کی، صوبہ خیبر پختونخوا اور قبائل سے ایک اندازے کے مطابق 15لاکھ افراد شریک ہو نگے، دیگر صوبوں سے آنے والوں کی تعداد بھی آئندہ 2روزہ میں جاری کردی جائیگی، 1000ڈاکٹرز عوام کو طبی سہولیات مہیا کرینگے، سیکورٹی کے انتظامات بھی مکمل ۔
جمعیت علماء اسلام صوبہ خیبر پختونخوا کے میڈیا سیل سے جاری ایک بیان کے مطابق جمعیت علماء اسلام صوبہ خیبر پختونخوا کی مجلس عاملہ، ضلعی وقبائل ایجنسیوں کے امراء ونظماء کا اہم اجلاس عالمی اجتماع کے پنڈال میں صوبائی امیر مولانا گل نصیب خان کی صدارت میں منعقد ہوا جسمیں ارکان عاملہ، مفتی کفایت اللہ، مولانا عطاء الحق درویش، مولانا رفیع اللہ قاسمی، مولانا شجا ع الملک، عبدالجلیل جان، مولانا عین الدین شاکر، حاجی اسحاق زاہد، مولانا لطف الرحمان، مولانا عزیز احمد امراء ونظماء مختلف کمیٹیوں کے ارکان نے شرکت کی، مولانا شجا ع الملک نے ضلعی جماعتوں ، تنظیمی سرگرمیوں اور عالمی اجتماع کی کامیابی کے حوالہ رپورٹ پیش کی، مولانا گل نصیب خان نے 30دسمبر سے اب تک پنڈال میں ہونیوالے انتظامات کی جائزہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عالمی اجتماع کے پنڈال میں تیاریوں کا کام تیزی سے جاری ہے اور 2اپریل تک تمام انتظامات مکمل کردیا جائیگا، اجلاس میں ضلعی جماعتوں کی کارگذاری رپورٹ کے پیش نظر آنے والے شرکاء کی تعداد جاری کرتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ صوبہ خیبر پختونخوا سے 15لاکھ سے زائد شرکاء شریک ہونگے، جس کے لئے ٹرانسپورٹ کا نظام ضلعی جماعتوں کی وساطت سے تیار کرلیا گیاہے، اجلاس کو بتایا گیادیگرصوبوں سے آنے والے شرکاء کی تعداد 2دن میں جاری کردی جائیگی، اجلاس کو بتایا گیا کہ 1000ڈاکٹر ز عوام کو بوقت ضروری طبی امداد مہیا کرینگے، انھوں نے کہا کہ صوبہ بھر سے ڈاکٹر ز، تاجر، وکلاء ،اساتذہ، مدرسین، و مہتمیمن اور خواتین کے شعبہ کو منظم کر لیا گیا
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب