جمعیت علمائے اسلام ضلع نوشہرہ کے امیر قاری عمر علی صاحب کے ذیر صدرات نوشہرہ کے مہتمین مدراس، ائمہ مساجد، حفاظ کرام اور خطباء کا صد سالہ تاسیس جمعیت کی تیاریوں کے حوالے سے مشاورتی اجلاس بمقام اجتماع گاہ منعقد ہوا ۔۔۔۔جس میں کثیر تعداد میں علماء نے شرکت کی ۔۔۔اجلاس کے آغاز میں بندے نے اجلاس کا ایجنڈا پیش کیا جس کے مطابق ضلع نوشہرہ کے تینوں تحصیلوں کے سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی گئی جس کا کام اپنے اپنے تحصیلوں میں وکلاء، ڈاکٹر، تاجر، میڈیا، اقلیت، اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو صد سالہ کے حوالےسے دعوت اور آگاہی مہم چلانا ہوگا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قاری عمر علی صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ صد سالہ عالمی اجتماع کی تیاریوں کیلئے اپنے محلوں، مدرسوں، مسجدوں اور گھروں کی سطح پر زبردست آگاہی و دعوتی مہم چلائی جائے تاکہ یہ عالمی اجتماع ہر لحاظ سے کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوسکے۔۔۔کیونکہ ہم نوشہرہ والوں پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمیں اس عظیم اجتماع کی میزبانی کا شرف ملا ہے اور ہم نے اس کے میزبانی کا بھرپور حق ادا کرنا ہے۔۔۔آخر میں قاری صاحب نے تمام مہتمین، علماء، ائمہ مساجد کا شکریہ ادا کیا جس پر تمام علماء، مہتمین، ائمہ مساجد نے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔۔۔اجلاس سے صوبائی سیکرٹری مالیات مولانا رفیع اللہ قاسمی اور شیخ القرآن و شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحلیم (دیر بابا جی صاحب ) نے خصوصی خطاب کیا ۔۔۔اپنے خطاب میں حضرت نے جمعیت علماء کی تاریخ اور اہمیت پر روشنی ڈالی اور آخر میں دعا فرمائی۔۔۔
میں تمام معزز مہتمین، علماء، مدرسین، ائمہ مساجد اور خطباء کا انتہائی شکر گزار ہوں کہ انہوں اپنا قیمتی وقت نکل کر ہمارے اس اجلاس کو کامیاب و کامران بنایا
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب