آج رائل کلب پشاور میں گرینڈ یوتھ شمولیتی پروگرام میں پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کے نوجوانوں اور وکلاء کی جمعیت علماء اسلام میں شمولیت کے موقع پرقائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن دامت برکاتہم نے تقریب سے خطاب کیا ۔
تقریب سے آزاد کشمیر کے صدر مولانا محمد سعید یوسف، مولانا عبدالشکور، ،عبدالجلیل جان، مولانا خیر البشر، مولانا امان اللہ حقانی،سینٹر حاجی غلام علی، ڈاکٹر سہیل اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا، اس موقع پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے سید ولایت شاہ ایڈوکیٹ، محمد اعجاز ایڈوکیٹ، میاں ذیشان ایڈوکیٹ، شفیع اللہ ایڈوکیٹ، ملک ذیشان ایڈوکیٹ ، امجد حسین ایڈوکیٹ، ملک فہیم ایڈوکیٹ، سجاد منظور ایڈوکیٹ، زاہد خان ایڈوکیٹ، شہزاد خان ایڈوکیٹ، محبوب خان ایڈوکیٹ، امام الدین ایڈوکیٹ، اویس سردار ایڈوکیٹ، سید عمر علی شاہ ایڈوکیٹ، ولی خان آفریدی اور سینکڑوں نوجوانوں نے جمعیت علماء اسلام میں شمولیت کا اعلان کیا، مولانا فضل الرحمان دامت برکاتہم نے کہا کہ عالمی اجتماع کی کامیابی نے اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کے عزائم خاک میں ملادئیے ہیں جمعیت علماء اسلام نے اسلامی تہذیب کا دفاع کرکے مغربی تہذیب کے تمام ارادے اور منصوبے خاک میں ملادئیے، انھوں نے کہا کہ عالمی اجتماع کا اعلامیہ پوری انسانیت کی رہنمائی کیلئے ہے، امن، انسانی آزادی اور معاشی استحکام کے پیغام ہماری 100سالہ جدوجہد کا نچوڑ ہے ہمارے اکابرین کی جدوجہد بھی انہی مقاصد کیلئے تھی اور ہم اسی مشن کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں، انھوں نے کہا کہ عالمی شخصیات کی شرکت وحدت اور یکجہتی کا پیغام اور جمعیت علماء اسلام پر اعتماد کا مظہر ہے، انہوں نے کہا کہ ہم اپنی تاریخی جدوجہد کے 100سال پورے کر چکے ہیں اور مستقبل کیلئے ہم پوری قوت اور استقامت کے ساتھ صف بندی کرکے میدان میں اتریں گے اور آئندہ آنے والا مستقبل جمعیت علماء اسلام کا ہوگا ان شاءاللہ۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب