گلگت : دنیا کفر اسلام کیخلاف سازشوں میں مصروف ہیں پاکستان کا تقدس مسجد کے تقدس کے برابر ہے بندوق اٹھانے کے قائل نہیں غیر مرعی قوتیں ہمیشہ جمعیت کے راستے میں رکاوٹ بنی رہتی ہے نماز کی پابندی تو واشنگٹن میں بھی نہیں پی پی، پی ایم ایل اور پی ٹی آئی باطل قوتوں کے نمائندے ہیں جمعیت شعائر اسلام کی محافظ جماعت ہے فضل الرحمن ایک نظرئے کا نام ہے علماء متحد ہوئے باطل کا مقابلہ نہیں کرسکتے علماء انبیا ؑ کے وارث نبی ﷺ کے راستے پر چلے بغیر وارث نبی ﷺ نہیں ہوسکتا مدینے کی ریاست آئیڈیل ریاست تھی جمعیت بندوق اٹھانے کی پرامن جدوجہد کے قائل ہیں صد سالہ کانفرنس اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے سنگ میل ثابت ہوگی ان خیالات کا اظہار جمعیت علماء اسلام ضلع گلگت کے زیر اہتمام علماء کنونشن سے سینئر نائب امیر کے پی کے سابق پارلیمانی لیڈر کے پی کے اسمبلی مفتی کفایت اللہ، امیر جمعیت علماء اسلام گلگت بلتستان مولانا سید سرور شاہ، سینئر نائب امیر جی بی مولانا محمد شاہ، نائب امیر جی بی مولانا قاضی عنایت اللہ، امیر جمعیت علماء اسلام گلگت منہاج الدین، سابق وزیر صحت حاجی گلبر خان، سابق پارلیمانی سیکریٹری حاجی رحمت خالق اور دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کیا مہمان خصوصی مفتی کفایت اللہ نے علماء کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ علماء انبیا ؑ کے حقیقی وارث ہیں انبیا ؑ کا کام امت کو سیدھا راستہ دیکھانا تھا انبیا ؑ کے راستے پر چلے بغیر ابنیا ؑ کا واث نہیں ہوسکتا انہوں نے کہاکہ جمعیت علماء اسلام علمائے حق کی نمائندہ جماعت ہے جمعیت کے جدوجہد کا مقصد ملک کو ایک فلاحی و اسلامی ریاست بنانا ہے نماز اور روزے کی پابندی تو واشنگٹن میں بھی نہیں ہے جمعیت علماء اسلام بندوق اٹھانے کے قائل نہیں جمہوری انداز میں جدوجہد کے ذریعے اسلام کا عادلانہ نظام نافذ کرنا ہے مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف تو سیکولر پارٹیاں ہیں یہ باطل قوتوں کے نمائندے ہیں جمعیت علماء اسلام حق کی نمائندہ جماعت ہے جمعیت شعائر اسلام کی محافظ جماعت ہے فضل الرحمن ایک نظرئے کا نام ہے باطل کے مقابلے میں حق کا نام باطل قوتیں فائدہ اٹھارہی ہے علماء متحد ہوکر باطل کیلئے مکابن جائیں پاکستان میں حکومت ان کو ملتی ہے جو اسلام کے مخالف ہو غیر مرعی قوتیں ہمیشہ جمعیت علماء اسلام کے راستے میں رکاوٹیں بنی آرہی ہیں اس موقع پر مولانا سرور شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن نے ہمیشہ علماء کو دیوار سے لگایا ہے یہ وہ مسلم لیگ ن ہے جس کا وزیر اعلیٰ عالم دین ہونے کے باوجود زکواۃ کی چیئرمین بھی کسی عالم دین کو نہیں بنایا مسلم لیگ ن نے علماء کو ہمیشہ دیوار سے لگایا ہے جمعیت علماء اسلام کی برکت سے علاقے میں امن ہے ماضی میں قیام امن کیلئے جمعیت کے ممبران اسمبلی کا کلیدی کردار رہا صوبائی حکومت کی کردرگی صفر ہے اس موقع پر شعراء اور نعت خواہ نے حمد باری تعالیٰ، نعت رسول مقول اور جمعیت کے حوالے سے نظمیں پڑھ کر حاضرین کو محظوظ کرلیا جمعیت علماء کے کنونشن میں دیامر، استور، غذر اور ضلع گلگت سے علمائے کرام اور دیگر عمائدین نے بڑی تعداد میں شرکت کی کنونشن کے مہمان خصوصی مفتی کفایت اللہ صدر مجلس مولانا قاضی عنایت اللہ تھے، قاری عبدالطیف کی تلاوت کلام پاک سے تقریب کا آغاز کردیا سٹیج سیکریٹری کے فرائض مولانا مشتاق احمد اور منہاج الدین نے باری باری ادا کئے۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب





