قائد جمعیتہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا سماء ٹی وی کے پروگرام انتخاب جگنو محسن کے ساتھ میں خصوصی گفتگو
18 جنوری 2024
ڈیرہ اسماعیل خان خیبر پختون خواہ کا پانچواں بڑا شہر ہے، پشاور سے 300 کلومیٹر جنوب میں واقع اس شہر کی جدید بنیاد سہراب خان کے بیٹے اسماعیل خان نے 15ویں صدی میں رکھی اور یہ شہر انہی کے نام سے منسوب ہے، ویسے تو یہ بہت قدیمی شہر مانا جاتا ہے اور اس کی سب سے مشہور رحمان ڈھیری ہڑپہ کی تہذیب سے تعلق رکھتی ہے، لوک روایت میں اس شہر کے بارے میں کہا جاتا تھا ڈیرہ پُھلاں دا سیرا، اس شہر میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان سرائیکی ہے، یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت ہے، یہاں کے کھجور، مالٹے اور تربوز نہ صرف ملک بھر میں ترسیل کیے جاتے ہیں بلکہ بیرون ملک بھی ایکسپورٹ ہوتے ہیں۔ اس شہر کی سیاست میں ہمیشہ سے جمیعت علماء اسلام کا غلبہ رہا ہے، ہر دور میں حکومت بنانے کے لیے بڑی بڑی پارٹیوں کو جمعیت علماء اسلام کی حمایت کی ضرورت رہی، اس شہر میں جمیعت علماء اسلام کی حمایت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مولانا مفتی محمود نے 1970 کے انتخابات میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ہرا کر اس حلقے سے نشست جیتی تھی، مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد اس جماعت کی بھاگ دوڑ مولانا فضل الرحمن نے سنبھالی، 1988 میں یہ جماعت دو حصوں میں بٹ گئی ایک جمعیت علماء اسلام سمیع الحق اور دوسری جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن۔
مولانا فضل الرحمن کا آبائی گاؤں عبدالخیل بھی یہیں موجود ہے، ویسے تو مولانا کے نام کا اس حلقے میں ڈنکا بجتا ہے لیکن 2018 کے الیکشن میں علی امین گنڈاپور نے یہ سیٹ مولانا کو شکست دے کر جیتی تھی، اس چھوٹے سے گاؤں میں ایک بارونق بازار بھی موجود ہے اور سی پیک پراجیکٹ کے تحت بنی ایم 14 موٹروے جو ڈیرہ اسماعیل خان کو اسلام آباد سے ملاتی ہے اس کا انٹرچینج عبدالخیل کے پاس سے گزرتا ہے، یہ مولانا صاحب کا آبائی گھر ہے، مولانا کے آبائی گھر میں مہمانوں کے لیے خصوصی فرنشڈ مہمان خانہ موجود ہے، اس مہمان خانے میں سیاسی محفلیں جمتی ہیں اور اس بیٹھک میں بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں، مولانا فضل الرحمن کے گاؤں عبدالخیل میں ان کا آبائی قبرستان بھی موجود ہے جہاں مولانا مفتی محمود اور ان کی اہلیہ کی آخری آرام گاہ ہے، قدیم قبرستان اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہاں موجود قبروں کے اوپر مٹی کی جگہ پتھر رکھے جاتے ہیں اور خاص طور پر مرد اور خواتین کی قبروں کی تفریق کے لیے قبر کے پائنتی جانب ایک بڑا پتھر موجود ہے، اس پتھر کے رکھنے کا انداز صنف کا پتہ دیتا ہے، قبرستان سے کچھ فاصلے پر ہی مولانا فضل الرحمن کا تعمیر شدہ مدرسہ ہے اور مسجد بھی موجود ہے۔ انتخاب کے اس سفر کا آغاز ہم نے مولانا صاحب سے کرنے کا فیصلہ کیا، آئیں مولانا سے ملاقات کرتے ہیں اور ان کے سیاسی سفر کے بارے میں جانتے ہیں۔
اینکر: مولانا السلام علیکم، کم از کم اس انٹرویو کی حد تک تو آپ کو عورت کی حکمرانی قبول ہوگی نا؟
مولانا صاحب: (قہقہہ لگاتے ہوئے) وہ تو پوری دنیا میں ہے۔
اینکر: شکر ہے کہ آپ نے اس کو تسلیم کیا اور یہ باقی مردوں کو بھی تسلیم کر ہی لینا چاہیے اب، تو آپ ماشاءاللہ 70 سال پہلے خدا آپ کو لمبی زندگی دے، اپنے آبائی گاؤں عبد الخیل میں پیدا ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان میں، ابتدائی تعلیم آپ نے شاید ملتان میں حاصل کی، کافی دیر آپ ملتان میں بھی رہے اور اس کے بعد پھر آپ مدارس میں گئے جہاں پر آپ نے علوم میں مہارت حاصل کی علامہ بھی بنے ماشاءاللہ دارالعلوم حقانیہ میں بھی آپ پڑھیں؟
مولانا صاحب: جی وہاں پڑھا ہوں۔
اینکر : آپ کی تعلیم میں علم النحو بھی شامل تھا اور یہ لوجک جسے ہم انگریزی میں کہتے ہیں یعنی کہ منطق کی تعلیم اور اس کے بارے میں تھوڑا سا بتائیے کیونکہ جو آپ کی خاصیت میں سمجھتی ہوں وہ یہ ہے کہ جو آپ اپنی بات کرتے ہیں وہ ایک بڑی منطق سے آپ سمجھا پاتے ہیں اور اس ملک میں جہاں پر کوئی ریشنلٹی نہیں ہوتی لوگوں کے اپنی ذاتی مفاد پہ فیصلے ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ اداروں کے بھی فیصلے ان کے مفادات پہ ہی ہو جایا کرتے ہیں، یہاں منطق چلتی ہے مولانا؟
مولانا صاحب: علم النحو میں بحث ہوتی ہے جملوں کی ترکیب کے ساتھ، منطق اس کے بعد ہے یعنی یہ آپ کو عربی پڑھنا اور اس کو سمجھنا سکھاتا ہے اس کے تحت ہم نے ابتدا میں گاؤں میں پڑھا پھر اس کے بعد دیہاتوں میں جا کر پرانے زمانے کے جو پڑھانے والے استاذ تھے ان سے پڑھتے رہے اور پھر بقیہ تمام علوم ہم نے تقریباً آٹھ سال اکوڑہ خٹک میں گزارے۔
اینکر : جی جی مولانا آپ کی اردو اتنی بہترین ہے، ہمیشہ سن کے خوشی ہوتی ہے اور انسان مستفید ہوتا ہے آپ کی زبان سن کے اور اس طرح کی اردو اور کوئی بولتا نہیں ماسوائے پختون خواہ کے لوگوں کے، تو پختون خواہ کے لوگ اتنی خوبصورت اردو کیسے بولتے ہیں؟
مولانا صاحب: کچھ تو ہمارے جو لوگ ہیں پختونخواہ کے ہوں چاہے وہ بلوچ ہوں چاہے وہ سندھی ہوں پنجابی بھی تو یہ اپنی جو زبان ہے ان کی مادری زبان یا ان کے قومی زبان وہ آپس میں بولتے ہیں لیکن رابطے کی زبان بہرحال چونکہ اردو ہے ہمارے پاکستان میں اور چونکہ میں زیادہ تر ملتان میں رہا ہوں تو پھر میرے گھر کا ماحول سیاسی، ان کی گفتگو میں سیاست ان کے الفاظ ان کے جملے اور پھر میں جب 27 سال کا تھا جب میرے والد صاحب رحمہ اللہ کا انتقال ہوا تو اب میں 70 سال سے اوپر جا چکا ہوں، تو اس پورے دوران میں بہت سی چیزیں ہمیں حاصل ہوتی ہیں کوئی منطق وغیرہ سے نہیں تجربات سے ، جو گزرتی ہے آپ کے اوپر ہم ایک غلط لفظ بول لیتے ہیں وہ ہمارے لیے وبال بن جاتا ہے میڈیا میں، ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ لفظ یہاں فٹ نہیں ہو رہا مجھے کوئی اور لفظ یہاں پر فٹ کرنا ہے۔
اینکر: ملتان میں اتنی دیر گزاری تو پھر سرائیکی پہ بھی عبور حاصل کر لیا ہے؟
مولانا صاحب: جی مجھے سرائیکی بھی ٹھیک آتی ہے، میں سرائیکی زیادہ بولتا نہیں ہوں لیکن یہ ہے کہ سرائیکی ماحول ہے، ڈیرہ اسماعیل خان میں خود سرائیکی ماحول ہے میں ڈیرہ غازی خان میں رہا ہوں وہاں سرائیکی ہے پھر ملتان میں رہا ہوں اور وہاں بھی سرائیکی ہے مگر ملتانی اور سرائیکی اور سرائیکی اور ریاستی تھوڑا بہت فرق ہوتا ہے۔
اینکر: کافی حسین زبان ہے تمہارا کیا حال ہے سائیں
مولانا صاحب: میں الحمدللہ بالکل ٹھیک ہاں
اینکر: انڈس ویلی سیولائزیشن کی زبان شاید سرائیکی ہی نکلے جب وہ تختیاں پڑھی جائیں ایونچولی، ادھے ان کی سرائے کی وہ پرانی زبان ہے ایسا ہی ہے جی وہ پرانی زبان ہے۔
مولانا صاحب: اس میں کوئی شک نہیں سرائيکی یقینا پرانی زبان ہے لیکن سرائیکی جب پیرل انڈس کلچر ہے ساڈا جی ہند کو سرائے کیے جی ہاں یہ دونوں اپنا اپنا میدان
اینکر: یہ دریا دی زبان ہے ؟
مولانا صاحب: ہزارہ ایبٹ آباد تے سارے اٹک تک یہ سارے ہندکو ہے، تے اساں میانوالی داخل ہوتے، تے بھکر، ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازی خان، ملتان یہ سرائيکی ماحول ہے جی بہاولپور رحیم یار خان ریاستی زبان ہوندی
اینکر: تاریخ دان دریائے سندھ دی تہذیب تختیاں پڑیاں جاونگیاں ادوں سرائے کی زبان تھی۔
مولانا صاحب: میرے خیال میں میری سرائيکی آپ کی سرائیکی سے اچھی ہے۔
اینکر: کوشش تو کر سکتے ہیں، کہنا ہے یہ تاریخ دانوں کا آرکیالوجسٹ کا
مولانا صاحب: اس میں کوئی شک نہیں یہ ہمارے اس خطے کے قدیم زبانیں ہیں۔
اینکر: ایک دفعہ میرے شوہر نجم سیٹھی اور میں ہندوستان گئے وہاں پر ہمیں ایک نہایت خوبرو خاتون ملی جو دلی میں رہتی تھی اور اونچی لمبی اور گوری چٹی تھی اور ان کو میں دیکھ رہی تھی اور میں نے سوچا کہ یہ تو ہمارے علاقے سے ان کا تعلق ہوگا ان کی پشتوں کا تو میں نے ان سے پوچھا، تو کہنے لگے کہ میرے بڑے ڈیرہ اسماعیل خان سے ہجرت کر کے تقسیم کے دوران یہاں ہند وستا ن میں ا کے مقیم ہوئے تو میں نے کہا کہ اور اس کے بارے میں اور تمہیں کچھ یاد ہے پتہ ہے تو کہنے لگی کہ مجھے میری دادی نے پالا اور میں سب سے چھوٹے بیٹے کی اولاد تھی تو میری دادی اور دادا بہت بوڑھے ہو چکے تھے تب تک اور دو باتیں وہ اپس میں کرتے تھے تو اپ کو اگر معلوم ہو کہ وہ کیا کہتے تھے میرے دماغ میں وہ گھومتی ہیں وہ الفاظ گھومتے ہیں لیکن مجھے ان کا مطلب نہیں معلوم تو میں نے کہا کیا کہتے تھے تو کہتی ہیں کہ دادا دادی کو کہتے تھے بار بار کیتھی سی تو میں نے کہا کیتھی سی نہیں وہ پوچھتے ہوں گے کہ تھی سی یعنی کہ کیا ہوگا پھر کہنے لگی کہ پھر دادا دادی کو ہر دو تین دن کے بعد کہتے تھے داون سو کہ نہ داون سو، میں نے کہا وہ کہتے تھے دھاوڑ سوں کہ نہ دھاوڑ سوں میں نہال ہوں کہ نہ نہاؤں، ایسے ہی ہے ؟
مولانا صاحب: جی بالکل صحیح ہے جی بالکل صحیح ہے۔
اینکر: تو بتائیے کہ پھر سرائیکی اور پشتوں میں سے کیونکہ اپ کا ایک مروت پشتون خاندان کے ساتھ تعلق ہے اور مادری زبان اپ کی پشتو ہے تو ان دونوں میں سے زبانوں میں سے گھر پہ تو اپ پشتو ہی بولتے ہیں۔
مولانا صاحب: جی پشتو ہی بولتے ہیں گھر میں اور چونکہ ہماری پیدائش مروت میں ہوئی ہے میرے ننھیال جو ہے وہ سب مروت ہے تو اگرچہ ہم ناصر قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن چونکہ ہماری اپنی پیدائش مروت قوم میں ہوئی ہے اور ہمارے سارے رشتے جو ہیں وہ مروت قوم کے ساتھ ہیں تو تقریبا وہی کلچر وہی زبان وہی عادتیں ہمیں ساری زندگی کی، گھر کی، بچوں کی سب اسی ماحول میں ہم زندگی گزار رہے ہیں تو اپنے جو ہمارے قوم ہے وہ زیادہ تر بلوچستان میں پھر اگے افغانستان میں تو ان کا ہمارا کوئی زیادہ رابطہ نہیں ہے انا جانا رہتا ہے اجاتے ہیں وہ ہمارے مہمان، ہم چلے جاتے ہیں ان کے مہمان، لیکن کوئی زیادہ ہمارا مربوط وہ نظام نہیں ہے الا یہ کہ کچھ لوگ منتقل ہو گئے ہمارے ڈیرا اسماعیل خان میں اباد ہے تو جو ڈیرہ اسماعیل میں اباد ہیں ان کے ساتھ وہ روزانہ کا ملنا جلنا ہوتا ہے جب بھی ہم جاتے ہیں ان کے لوگ اجاتے ہیں ہم ان کو ملنے چلے جاتے ہیں، غم شادی میں شریک ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر ہمارا تعلق جو ہے یہی ہے اپنے مروت قبیلے کے ساتھ ہی ہے۔
اینکر: جی آپ کے مرحوم والد مرحوم و معروف مولانا مفتی محمود صاحب مجھے یاد ہے بچپن میں جب ہم اپنے بڑوں کے ساتھ ان کے مہمانوں کو ملا کرتے تھے تو میری خالہ تھیں بیگم کشور عابد حسین ان کے ہاں مولانا کو میں نے دیکھا، میں نے خان عبدالولی خان کو بھی وہاں ہماری ملاقات ہوئی بی بی نصیب ولی سے بھی وہاں ملاقات ہوئی، شیرباز بزاری صاحب سے بھی وہاں پر ملاقات ہوئی یہ 1977 کی میں بات کر رہی ہوں جب بہت سے ستارے پی این اے بنے، مولانا اپ کے والد مفتی محمود صاحب نہایت سادہ میں نے ان کو پایا لیکن بالکل سارے اجتماع کا حصہ تھے اور بڑا متحرک حصہ تھے جب ان کا انتقال ہوا تو اپ 27 سال کے تھے اور اپ نے جے یو ائی جمعیت علماء اسلام کی لیڈرشپ سنبھالی اس وقت، تو اس وقت اپ نے کیا محسوس کیا کہ کیا ورثہ اپ کو ملا ؟
مولانا صاحب: یہ تو بڑا حساس سوال آپ نے کر دیا جو میں خود بھی سوچتا ہوں کہ ابھی تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اتنا جلدی مجھے والد صاحب چھوڑ جائیں گے لیکن بہرحال جو اللہ کے فیصلے ہوتے ہیں تو اب 27 سال میں میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ میں ان کے منصب پہ جا کے بیٹھوں گا لیکن جماعت نے مجھے کھینچا اور ہر طرف سے جو میرے والد کے رفقاء تھے بزرگ اکابر تو انہوں نے مجھے اس بات پر امادہ کیا کہ اگر جماعت کو اس وقت سنبھالنا ہے تو پھر اپ نے نکلنا ہے کیونکہ کارکن کا جو اعتماد مفتی صاحب پر تھا اور ایک تعلق ان سے بن گیا تھا وہ تعلق تب ہی برقرار رہ سکتا ہے جب اپ خود جو ہے ان کے پاس جائیں گے، میرا تعارف بھی نہیں تھا اس زمانے میں، صرف ان علماء کو میں جانتا تھا یا ان جماعتی بزرگوں کو کہ جو والد صاحب کے پاس ایا کرتے تھے اور گھر میں ان کو دیکھتا تھا وہ ہمارے مہمان ہوتے تھے تو اس سے زیادہ میرا تعارف نہیں تھا جی پھر اس کے بعد ظاہر ہے مجھے گھر سے نکلنا پڑا پھر ان لوگوں تک پہنچنا پڑا ان سے ملاقاتیں ہوئی تعارف ہوا اور اس طریقے سے پھر وہ جو ایک نوجوان حلقہ جماعت کے اندر تھا اس نے بہت جذباتی انداز میں ہمیں سپورٹ کیا، کارکن نے ہمیں سپورٹ کیا پورے ملکی سطح پر اور اج بیالیس تریالیس سال اسی وادی خاردار میں گزارے۔
اینکر: جی ہاں ہم سب بھی وادی خاردار میں بھٹک رہے ہیں مولانا آپ اکیلے نہیں ہیں ہم بھی شامل ہیں اسی سفر کا حصہ ہیں ہم لوگ سارے، لیکن جس چیز کا مجھے تعجب ہوتا ہے وہ یہ کہ اپ لوگوں کی ماشاءاللہ ایک مذہبی جماعت ہے لیکن مولانا مفتی محمود نے بھی اپ نے بھی جب بھی الحاق کیا تو اپ نے سیکولر جماعتوں کے ساتھ لیفٹ کی جماعتوں کے ساتھ سینٹرس جماعتوں کے ساتھ الحاق کیا نہ کہ اپ جماعت اسلامی کے ساتھ الحاق کریں یا باقی مذہبی جماعتوں کے ساتھ تو یہ مولانا مفتی محمود نے بھی اس زمانے میں جب بھٹو صاحب کا دور تھا تو چیف منسٹر خیبر پختون خواہ اس وقت فرنٹیر کہتے تھے وہ بنے اور ان کے جو الائنس پارٹنر تھے اس وقت وہ نیشنل عوامی پارٹی تھے اور اور قوم پرست جماعتیں بھی تھیں اور ان کا اس طرح ہی اتنا ہی حصہ تھا اس جدوجہد میں جتنا باقیوں کا تھا تو یہ غیر فطری الحاق نہیں ہے ؟
مولانا صاحب: جمعیت علمائے ہند کی جو تشکیل ہوئی ہے 1919 میں تو برصغیر کی تمام مکاتب فکر کے علماء اس میں شریک تھے ایک مکتب فکر نہیں تھا اس میں جی، ہاں بعد میں پھر حالات بدلتے گئے لوگ اپنے اپنے پلیٹ فارم پہ چلے گئے لیکن یہ تھا کہ یہ پورے ملک کے لیے پورے وطن کے لیے جماعت بنائی گئی تھی اور اس میں مسلکی تعصبات اور دائرے نہیں ہوا کرتے تھے، دیکھیے اب ظاہر ہے کہ حالات بدلتے ہیں اور ان حالات میں بھی جب ہماری سیاست کو ہمارے اکابر نے زندہ رکھا اس کو تسلسل دیا تو اس میں یہ چیز تھی کہ سیاسی طور پر میرے قریب کون ہے مثال کے طور پر میں اپ کو ایک بات بتاؤں سرمایہ داریت یہ مغربی نظریہ ہے کیپیٹلزم مغربی نظریہ ہے مگر مغرب ایک تصور پیش کیا ہے اور وہ جس کو ہم کپٹلزم کہتے ہیں اس کا یہ جزیات ہیں اس کے اپنی جگہ لیکن ایک جس کو ہم سرمایہ داریت کہتے ہیں ایک معاشی نظام کے طور پر یہ مغرب کا نظریہ ہے اور اسلام اس نظریے کی خلاف ہے اب اسلام جب اس نظریے کے خلاف ہے اور فرانس میں ایک انقلاب برپا ہوا کیمونزم کے نام سے وہ بھی رد عمل تھا مغربی سرمایہ داریت کے خلاف، فطری طور پر ہونا یہ چاہیے تھا کہ مغربی سرمایہ داریت جو ہم پر دو سال سو سال تک حکومت کرتی رہی ہے ہمارے پورے سرمائے کو لوٹ لیا اس نے اٹھا کر مغرب میں لے گئے، ہمیں کنگال کر دیا، ہمارا رد عمل جو ہے وہ ہمیں کیمونزم اور روس کے قریب ہونا چاہیے تھا لیکن خدا کی انکار کے نام پر ہم مغرب کے ساتھ ہو گئے اور ہم نے روس کو کفر کہہ دیا اور انہوں نے کہا جی اپ بھی خدا کو مانتے ہیں اپ بھی خدا کو مانتے ہیں یہ چیزیں جو ہیں ہمارے مذہبی دنیا نے قبول کی لیکن جمیعت علماء اسلام کے مزاج سے موافق نہیں تھی لہذا جمیعت علماء نے اپنے مزاج کے مطابق اگر ہم غریب کی بات کرتے تھے اگر ہم نے سرمایہ داریت کی مخالفت کی جاگیرداری کی مقابلہ کیا تو اس کے مقابلے میں ہم نے ان سیاسی جماعتوں کو کہ جو مزدور کسان کی بات کرتے تھے ان سے ہم نے معاہدے بھی کیے صوبہ خیبر پختونخواہ جو اس وقت صوبہ سرحد کہلاتا تھا وہاں عوامی نیشنل پارٹی تھی اس زمانے میں، نیشنل عوامی پارٹی نیپ، تو اس وقت ان کے ساتھ ہمارے اتحاد ہوا، ہم نے مل کر حکومت کی، خان عبدالولی اور ولی خان اور والد صاحب بھائیوں کی طرح ارباب سکندر خان خلیل گورنر تھے مفتی صاحب جو ہے وزیراعلی تھے بلوچستان میں عطاءاللہ مینگل صاحب جو ہیں وہ وزیر اعلی تھے،ے میر غوث بزنجو وہ گورنر تھے تو ایک اتفاق رائے ان کے ساتھ ہمارا سیاسی طور پر جب ہوتا تھا تو ہم اس لیول پر جا کر سوچ کر فیصلے کرتے تھے سیاسی اور سیاست میں ظاہر ہے جی کہ مسلکی جزیات کا عمل درامد نہیں ہوتا اپ نے قوم کو بنانا ہوتا ہے ملک کو بنانا ہوتا ہے اور اس میں دو چیزیں اسلام کی نظر میں اہم ہیں ایک انسانی حقوق جس کو ہم امن کے نام سے تعبیر کر سکتے ہیں اور ایک معاشی نظام تو یہ دو چیزیں جب وہ ملک کو مل جاتی ہیں تو اس کا اس پر ہم ایک اچھا اتفاق رائے حاصل کر سکتے ہیں تو ایک ہے بنیادی تصورات ایک ہے اس کے جزیات، جزیات میں تو اختلافات ہو سکتے ہیں مثلا انسانی حق ہے انسانی حق پر تو کوئی اختلاف نہیں لیکن مغرب میں انسانی حقوق کی جب بات کی جاتی ہے اس کی تشریح اور ہے جب ہم انسانی حقوق کی تشریح کریں گے تو اس میں فرق ہوگا۔
اینکر: لیکن جو لیفٹ پارٹیز ہیں جب وہ انسانی حقوق کی تشریح کرتے ہیں تو ان کا کچھ اور ہوتا ہے مسئلہ اپ لوگوں کا کچھ اور نظر ہے اور شاید یہی حسن اتفاق تھا کہ جب 1988 میں بے نظیر بھٹو شہید کی پہلی حکومت بنی تو اس میں اپ کے جو نو ارکان تھے ان کی بنا پہ وہ حکومت قائم ہوئی.
مولانا صاحب: بے نظیر بھٹو کو ہم نے الیکشن سے پہلے یہ مشورہ دیا تھا کہ اپ ایم ار ڈی کو نہ توڑیں ایم ار ڈی نے بڑی قربانیاں دی ہیں اور جنرل ضیاء الحق کے خلاف ایک بھرپور تحریک میں ہم نے مل کر حصہ لیا قربانیاں دی ہیں، جیلیں گزاری ہیں اگرچہ پیپلز پارٹی کا جو کلچر تھا اور علماء کا جو کلچر تھا اس میں موافقت زیادہ نہیں تھی اور تھوڑا سا ایک پریشر کے انڈر پریشر ہو کر ہم ان کے ساتھ چل رہے تھے تو ہم نے ایک بینا بین راستہ اختیار کیا تو چونکہ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش یہ تھی کہ ہم میاں نواز شریف کا ساتھ دے دیں اور تازہ تازہ ہم ضیاء الحق کے دور سے نکلے تھے تو وہ کارکنوں کا اپس میں ملاپ جو ہے وہ اس وقت نفسیاتی طور پر بھی ذرا مشکل لگ رہا تھا تو اقتدار کا خواہش والے لوگ ہوتے ہیں وہ تو جلدی سے پلٹ جاتے ہیں ہمارے جیسے نظریاتی لوگوں کے لیے اس طرح تیزی سے پلٹنا بڑا مشکل تھا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ہم مل کر پارلیمنٹ میں رہے تعلقات بنتے رہے وہ جو اجنبیت تھی وہ ختم ہوتی رہی ایک دوسرے کے خیالات کو ہم سمجھتے رہے۔
اینکر: عدم اعتماد میں اپ نے اپوزیشن کا ساتھ دیا تھا ؟
مولانا صاحب: لیکن اس وقت بھی بہ اعتبار ہر چند کے ہم شامل تھے اور بڑے ڈٹ کر شامل تھے لیکن لگتا ہمیں ایسا ہے کہ اس ماحول میں کوئی ذرا ہمیں اجنبی اجنبی سے لگ رہے تھے۔
اینکر: جی کیونکہ وہ پھر عدم اعتماد ان کے خلاف کامیاب نہیں ہو سکی جائے لیکن پھر اپ کا ان کے ساتھ ایک تعلق بنا ایک اپ نے ان کو اسمبلی میں میرا خیال ہے.
مولانا صاحب: اس میں میں اپ کو ذرا تھوڑی سی تفصیل بتا دوں بہت ہو گیا ہے ایک زمانہ نکل گیا ہے مسئلہ یہ تھا بنیادی کہ مجھ پر پریشر ڈالا گیا کہ میں ہر قیمت پر میاں نواز شریف کا ساتھ دوں اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پورا پریشر مجھ پر ڈالا گیا ہمارے ملک سے باہر کے کچھ دوست بھی یہاں ائے اور انہوں نے بھی مجھے بڑا ہر لحاظ سے کوشش کی کہ میں ادھر، لیکن ہم نے ان کی بات نہیں مانی پھر جو ہم نے ان کی بات نہیں مانی تو انہوں نے بس ان کو ہمیں اپنا دشمن سمجھ لیا اور پھر 1990 کا جو الیکشن ہوا تو انہوں نے ہمیں اسمبلی سے ہی باہر رکھا جی، تو پھر اس کے بعد میرے خلاف ایک مہم جوئی کی اسٹیبلشمنٹ نے اور انتہائی گھٹیا قسم کے جھوٹے الزامات وہ میرے اوپر لگا کر میڈیا کو دیتے تھے اور میڈیا بھی میرے خلاف ایک کمپین شروع ہو گئی بد اخلاقی کی حد تک، اخبارات، چینلز جو اج تک چلتی ہے لیکن ہمیں اپنا اپ معلوم تھا تو ایک جھوٹی قسم کی ایسی پروپیگنڈے جس کا نہ سر ہے نہ پاؤں ہے ایسی ایسی چیزیں میرے ساتھ وابستہ کی گئی کہ جس کا روٸے زمین پر وجود بھی نہیں تھا جی، تو وہ ہم نے برداشت کیے ہم چلے اس حالات میں اور ہم نے کوئی پرواہ نہیں کی ان کو ہم نے اپنے اوپر اثر انداز نہیں ہونے دیا اور جس کے نتیجے میں اج ہم ایک بہتر سیاست کر رہے ہیں بالاخر تمام قوتوں کو یہ ادراک کرنا پڑا یہ کیا مطلب کہ ایک ایک حکومت کرے گا اور دوسرا اسٹیبلشمنٹ کے لیے استعمال ہوگا پھر اس کو حکومت ملے گی پھر وہ پہلے والا جو ہے وہ اسٹبلشمنٹ کے لیے استعمال ہوگا اور اس کے خلاف تو ان کو پھر باقاعدہ ایک میثاق جمہوریت کرنا پڑا۔
اینکر: کیا یہ درست ہے کہ اپ کا جو ایک موقف ہے وہ تو یہ ہے کہ ہمارے ساتھ اسٹیبلشمنٹ اچھا سلوک نہیں کر رہی اور ہمیں ڈسکرج کیا جاتا ہے دوسری طرف اپ حقیقت مندانہ ایک سوچ کے بھی حامل ہیں اور اس طریقے سے اپ ان کے ساتھ ڈیل بھی کرتے رہتے ہیں یہ اپ کی سروائیول کی کا راز ہے ؟
مولانا صاحب: میں یہاں تو پہنچ تو جاؤں نا، دیکھیے بٹوارا ہو گیا پاکستان ہمارا گھر بن گیا اب ظاہر ہے کہ ہمارے جتنے اکابر تھے جمعیت علماء ہند کے اس نے تقسیم سے اختلاف رائے کیا تھا ان سب کے واضح ہدایات ائی ہیں یہاں کے اکابر کے پاس کہ اب پاکستان اپ کا گھر ہے اور اپ نے اپنے ملک کی خدمت کرنی ہے چھوڑو ان چیزوں کو جو گزر گئی۔
اینکر: اسطرح تو کمیونسٹ نے بھی یہی فیصلہ کیا کہ جو کمیونسٹ ادھر ائے ان کو کہا گیا کہ اپ اپنی جدوجہد جاری رکھیں، یونینز کے ساتھ کام کرو اپ کا بھی سیاسی عمل وہی تھا وہ مر مٹ گئے اور اپ ماشاءاللہ
مولانا صاحب: میں بتاتا ہوں یہ ساری چیزیں میں نے ذکر کر لیتا ہوں جی دیکھیے انیس سو اکاون باون تک تو ہمارے تینوں مسلح افواج کے سربراہان بھی انگریز رہے، ہمارے گورنرز بھی انگریز رہیں، ہمارے چیف منسٹرز بھی انگریز رہے تو اکاون باون کے بعد یہ اخر ریٹائرڈ ہو گئے اور چلے گئے لیکن جس جمہوری جمہوریت کے تصور کے ساتھ پاکستان بنا تھا اور بانی پاکستان کا جو تصور تھا اس حوالے سے۔
اینکر: وہ تو خود جنرل بنے تھے مولانا وہ پرائم منسٹر نہ بنے جواہر لال نہرو پرائم منسٹر بنے محمد علی جناح صاحب تو گورنر جنرل بنے پہلے دن پھر انہوں نے ڈاکٹر خان صاحب کی منسٹری ایوب کوڑوں کی منسٹری ان دونوں کا انہوں نے تختہ کیا تو پھر جمہوریت کہاں گئی ؟
مولانا صاحب: یہ ساری چیزیں عرض کر رہا ہوں دیکھیں ملک میں ملک جمہوری اصولوں پہ چلا نہیں، ابتدا سے بنیاد نہیں پڑھ سکی اور اب نظریہ تو قرارداد مقاصد ہے راستہ جمہوریت ہے۔
اینکر: لیکن نظام جو ہے وہ ابھی بھی سامراجی ہے۔
مولانا صاحب: اب نہیں تو اس نظریے پر نظریہ رہا ہمارا اور نہ ہی وہ رویے رہے ہمارے، اس کے بعد فوج نے ملک پر قبضہ کر لیا ایوب خان نے جب وہ بریگیڈیر تھا اور ابھی وہ جنرل نہیں بنا تھا اس وقت سے قائداعظم کے احکامات کو نظر انداز کرنے کی روش انہوں نے اس وقت اختیار کیا اور وہ بانی پاکستان کے نظر میں بڑے معتوب تھے اس زمانے میں، لیکن بہرحال ایک سلسلہ چلا اور پھر جس طرح سکندر مرزا پھر جزوی مارشل لاء پھر مکمل مارشل لاء یعنی سن 47 میں پاکستان بنتا ہے اور 1958 میں پھر مارشل لاء، گیارہ سال تک مارشل لاء رہتا ہے اور گیارہ سال کہاں رہا جی انہوں نے پھر یحییٰ خان کے حوالے کیا نا جمہوریت تو پھر بھی نہیں ائی، تو یہ ساری چیزیں حضرت ایسی ہوئی ہے کہ جس کو اگر ہم اج اس کا تجزیہ کریں تو یہ کیا تھا اس کا معنی یہ ہے کہ ملک مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے قبضے میں ہوگا اور اس کے ساتھ حکومت کے کام میں شریک ہوں گے ایک تو جاگیردار طبقہ اور ایک بیوروکریٹ طبقہ، جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ایک صنعت کار طبقہ بھی اس میں شامل ہو گیا حکومتی گردش میں، تو یہ سلسلے ہمارے ملک میں چلتے رہے ہیں عوام کا تو پریشر جب ایا 1970 میں الیکشن ہو گئے لوگ کہتے ہیں کہ بڑے ایماندارانہ الیکشن تھے لیکن کیا ایماندارانہ تھی کہ اپ نے اکثریت کو تسلیم نہیں کیا، میں جب جمہوریت کی بات کرتا ہوں اور پھر یہ بھی کہتا ہوں کہ میں اس اکثریت تو نہیں مانتا میں شیخ مجیب کو وزیراعظم نہیں تسلیم کرتا میں بنگالی کو تسلیم نہیں کرتا 56 فیصد وہ ہے تو میں کہاں جمہوری رہا میرا تو جمہوریت کا دعوی نفی ہو گیا جی، پھر اس کے بعد یہاں پر بچے مجھے پاکستان میں جو حکومتیں بنی اس بچے کچے پاکستان میں بھی حضرت عدم استحکام تھا، بلوچستان کی حکومت اڑا دی گئی، ہمارے والد صاحب نے استعفی دے دیا، اک بھونچال ایا ملک کی سیاست میں تو یہ کب جمہوری رویے تھے جو ہمارے اس بچے کچے پاکستان میں ابھی ہم نے چلنا بھی نہیں سیکھا تھا، جمہوریت نے ابھی چلنا بھی نہیں سیکھا تھا اور ہم نے جمہوریت پر وار کر دیے۔
تو یہ سارے وہ سوالات ہیں جس کو اگلی نسلوں نے پڑھنا ہے اگلی نسل جن سوالات کو سمجھنا ہے ۔
اینکر: مولانا یہ بھی سمجھنا ہے یہ بھی سمجھنا ہے کہ اس دوران ہم اب دو ہزار کی دہائی میں آچکے ہیں جب جہاں تک ہمارا انٹرویو ابھی تک ایا ہے اس دوران 50 سال پاکستان کے گزرنے کے بعد بھی اپ دیکھیے کہ پیپلز پارٹی جو ہے وہ بھی کافی حد تک اسٹیبلشمنٹ نے ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی، پرانی پارٹیز جو تھی ازاد پاکستان، پارٹی عوامی نیشنل پارٹی جو پہلے نیشنل عوامی پارٹی تھی پھر اے این پی بنی پھر بلوچ قوم پرست وغیرہ لیکن ان کے ساتھ سب کے ساتھ ایک باقاعدہ ان لوگوں کا یعنی کے مقابلہ ہوتا رہا اور ان کو ان کے حقوق سے ان کے ووٹ سے وغیرہ محروم کیے گئے ون (افٹر دی ادر) ایک کے بعد دوسرا، ماشاءاللہ اپ جمیعت علماء اسلام ادھر سے لے کے اب تک اپ کی یہ جو ایک سروائول ہے اپ لوگوں کا توانا رہنا اور اج بھی مضبوط رہنا اس کی کیا وجہ ہے جبکہ اتنے لوگ مر مٹے ؟
مولانا صاحب: میں یہاں تک پہنچتے پہنچتے اپ کا سوال ا جاتا ہے بیچ میں دیکھیں میں
اینکر: اپ کی روانی ایسی ہیں میں مولانا کی سننے کو دل کرتا ہے یہ سنتی چلی جاؤں لیکن پھر انٹرویو پائے تکمیل تک نہیں پہنچے گا
مولانا صاحب: میں گزارش کرو اپ سے جی، اس نظریاتی پس منظر کے ساتھ ہم نے اسٹیبلشمنٹ سے ناراضگی بھی مول لی، تلخیاں بھی مول لی، ہم جھکے بھی نہیں ہیں انہوں نے جو کچھ کیا ہم نے کبھی کمپرومائز نہیں کیا لیکن ہم نے بہرحال خود بھی ہم سوچتے ہیں نا ہم نے خود بھی سوچا کہ بجائے اس کے کہ ہم شدت کی سیاست کر کے ملکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کی زندگی گزاریں ہم کیوں اصلاح احوال کی طرف نہ جائیں کیوں ایک ہے انقلاب اور ایک ہے جمہوری رویہ جمہوریت، جمہوریت میں تدریجی اصلاحات کا تصور ہوتا ہے ایک دم سے انقلاب کا تصور نہیں ہوتا تو جب اپ ایک سٹیج سے دوسرے سٹیج پہ جاتے ہیں تو اپ کو اس کے درمیان میں ایک ٹائم بھی گزارنا ہوتا ہے تاکہ ہم اس وقت تک اپنے آپ کی پہچان بھی کرا سکیں اور ان کو بھی سمجھ میں ائے کہ یہ کیا لوگ ہیں اور کس طرح جینا چاہتے ہیں ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ ہر چند کے ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی لیکن ہم نے اپنی حب الوطنی پہ کوئی کمپرومائز کیا نہ ہم نے اپنے نظریات پہ کمپرومائز کیا اور آج ملک کی سیاست میں جمعیت علماء جو ہے وہ ایک عوامی قوت ہے وہ ایک مسلکی قوت نہیں ہے ہم نے مسلک سے باہر نکل کر کام کیا ہے۔
اینکر: یہ تو اپ کی کامیابی ہے مولانا، پیپلز پارٹی معاف کیجیے گا جو کہ ایک پوری قومی پارٹی تھی یہ مغربی پاکستان میں وہ انٹیریئر سندھ پہ محدود ہو کے رہ گئی اپ لوگوں نے اپنا قدم بڑھایا ہے اپ نے اپنا فٹ پرنٹ بڑھایا ہے۔
مولانا صاحب: جی فرق ہے میں بتاتا ہوں جی ایک ہے ووٹ کی قوت اور ایک ہے ورکر کی قوت، اج بھی سٹریٹ پاور ہمارے پاس ہے لیکن ہمارے پاس سٹیٹ پاور نہیں ا رہا ابھی تک تو اس کے لیے کمپرومائز کرنے پڑتے ہیں جو ہم ابھی اس پراسس میں ابھی اس وقت انے کو تیار نہیں ہے جی ابھی اپ الیکشن ا رہے ہیں نا تو جب ہم لڑتے ہیں اور ہمیں کراوڈ اکٹھا کرنا ہوتا ہے ہم نے ٹینشن لینے ہوتی ہے تو ساری پارٹی کہتے ہیں جے یو ائی اگے ہو جائے اور جمیعت کا کارکن جو ہے وہ نکلتا ہے ہم نے دو دن کے نوٹس پر شاہراہ دستور کو بھر دیا تھا اور ہم نے ان گزشتہ تین سالوں میں جب عمران رجیم کی گورنمنٹ تھی تو اس وقت ہم نے کوئی 14 ملین مارچ پوری ملک پہ کیے۔
اینکر: مولانا اپ کے اتنے رضاکار ہیں اتنے اپ کے سٹوڈنٹس ہیں یہ اتنا بڑا نظام کون چلاتا ہے؟
مولانا: اتنا بڑا نظام اللہ ہی چلاتا ہے۔
اینکر: ان کی فنڈنگ کہاں سے اتی ہے ؟
مولانا صاحب: وہ خود فنڈرائزنگ کرتے ہیں اپنے طور پہ
اینکر: رضاکاروں کی جو تنظیم ہے وہ بھی بہت بڑی تنظیم ہے اپ کی تو ان کی فنڈنگ کہاں سے اتی ہے ؟
مولانا صاحب: ان کی کوئی فنڈنگ نہیں ہے وہ جماعت کے کارکن ہوتے ہیں ان کا کوئی اپنی حیثیت نہیں ہوتی صرف اور صرف جماعت کا کارکن ہوتا ہے صرف یہ ہوتا ہے کہ ان کو ہم ایک نظم میں لے اتے ہیں اس کا نام ہے انصار الاسلام جی تو اس کا اپنا ایک سالار ہوتا ہے اس کے نیچے رضاکار ہوتے ہیں اب وہ رضاکار صرف یہ ٹریننگ کرتے ہیں کہ میں نے جلسے کو کیسے کنٹرول کرنا ہے میں نے رش کو کیسے کنٹرول کرنا ہے میں نے کوئی فساد والے لوگ ا جائیں تو ان کو کیسے ہم نے قابو کرنا ہے تو یہ ایک تربیت سازی سی ہوتی ہے ۔
اینکر: ہزار ہا یہاں پر 2019 میں اپ رضاکار لے کر آٸے تھے۔
مولانا صاحب: 30 لاکھ سے زیادہ رکن سازی ہے میری
اینکر: تو اپ یہاں لائے تھے رضاکار 30 لاکھ سے زیادہ ہیں ؟
مولانا صاحب: نہیں نہیں 20 لاکھ ہمارے کل ورکر ہے رکن سازی ہے۔
اینکر: جو یہاں پر مہندی رنگ کے کپڑے جنہوں نے پہنے ہوئے تھے رضاکار، جنہوں نے 2019 میں شاہراہ دستور 18 دن بند رکھی تو ان کا خرچ اور کھانا پینا
مولانا صاحب: یہ وقتی چندوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔
اینکر: اور وہ انڈیویجولز آپ کو دیتے ہیں ؟
مولانا صاحب: پس وہ ان کا اپنا نظام ہے لوگ اس کے حوالے کرتے ہیں۔
اینکر: مولانا پھر کیوں لوگ کہتے ہیں کہ سعودی عریبیہ سے بھی اپ کے تعلقات تھے وہ اپ کو فنانس بھی کرتے رہے، ایم بی ایس کا سعودی عریبیہ تو اج کل نہیں لگتا کہ وہ آپ پہ راضی ہوگا لیکن اس کے بارے میں کیا کوئی حقیقت ہے ؟
مولانا صاحب: بس ایسی چیزیں ہمیشہ نظر انداز کرتے ہیں کیونکہ جس وقت کوئی تعلق جوڑ نہیں ہے ایک بات ذہن میں رکھیں یہ جو ہم ایک ازاد پولیٹکس کرتے ہیں کہ جب ہم سوچتے ہیں تو اپنے طور پر سوچتے ہیں جو میں اپنے اسٹیبلشمنٹ کی بات نہیں مانتا میں اس کو کہتا ہوں نہیں اپ کی رائے غلط ہے ان کی بڑی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس لائن پہ آجائے یہ کام کرے، ہم نہیں کرتے وہ کام، اسی طریقے سے میں باہر بھی دنیا کے بارے میں بھی یہی سوچتا ہوں کہ کوئی ملک اس کے ساتھ میرے تعلق کے حدود یہ ہونی چاہیے کہ وہ کل میری سیاست پہ اثرانداز نہ ہو میں فیصلے ازادی سے کروں ورنہ کل مجھے کہے گا میرے سے اتنے فنڈ لیے ہے، میرے سے اتنی مدد لی ہے، یہ لیا ہے مجھ سے، وہ لیا ہے تو اپ ہماری بات بھی مانیں۔
اینکر: تو اپ کی حمایتیں ہی آپ کی فنڈ ریزنگ میں شامل ہوتے ہیں ؟
مولانا صاحب: جی جی کارکن کرتے ہیں جہاں پر کوئی جلسہ ہوتا ہے اپس میں چندہ کر لیتے ہیں پھر اس سے پروگرام بن جاتے ہیں ۔
اینکر: ویلکم بیک ، دو ہزار کی دہائی میں اتے ہیں جنرل مشرف کا دور ہے اپ ایک ایم ایم اے بناتے ہیں متحدہ مجلس عمل اپ کا الحاق جماعت اسلامی کے ساتھ ہوتا ہے کیا غیر فطری نہیں تھا یہ الحاق کیونکہ اپ کا الحاق تو ٹریڈیشنلی جماعت اسلامی کے ساتھ ہوا نہیں تھا ؟
مولانا صاحب: محترمہ اپ نے ابھی تھوڑی دیر پہلے کہا کہ کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ اپ کا اتحاد غیر فطری تو نہیں تھا تو اپ ان کے ساتھ بھی غیر فطری
اینکر: نہیں آپ نے سمجھا دیا نا مجھے اپ نے سمجھا دیا کہ اپ کا لیفٹ پارٹیز کے ساتھ کیوں الحاق ہوتا رہا اور رائٹس بیس پولیٹکس کے ساتھ کرتے ہیں جماعت اسلامی تو بالکل برعکس تھی۔
مولانا صاحب: نہیں نہیں اور وہ اصل میں جو حالات ہوتے ہیں اس کے تناظر میں دیکھنا پڑتا ہے، دیکھیے افغانستان کی صورتحال پھر نائن الیون اس ساری صورتحال نے امریکہ کی قیادت میں پوری مغربی دنیا کو اٹھا کے وہ سب مذہب کے دشمن ہو گئے۔
اینکر: لیکن جو امریکہ کے ہم نوا تھے قطع کلامی معاف یہاں پر جنرل مشرف اور ان کی جو تمام ایک ٹیم تھی تو ان کا بھی تو یہی تھا مقصد اس وقت کہ ایم ایم اے خیبر پختون خواہ فرنٹیئر میں رہے پاور پہ قابض رہے اس وقت اے این پی کو فارغ کیا گیا، لیفٹ جماعتوں کو باقیوں کو قوم پرستوں کو فارغ کیا گیا تاکہ یہ جنگ جو ہے امریکہ کے ساتھ یہ فسلٹی کے ساتھ لڑی جا سکے مولانا یہ بھی تو لوگ کہہ سکتے ہیں نا ؟
مولانا صاحب: میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں اپ کچھ ذرا اس وقت کے جو حالات تھے 2000 کے بعد دو ہزار ایک پھر اس کے بعد جو پورا عشرہ گزرا اس میں خلط مباحث ہو جاتا ہے گڈ مڈ کرتے ہیں معاملات کو، سیاست دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ایک ہماری انٹرنل پولیٹکس ایک ہماری ایکسٹرنل پولیٹکس اس پہ تاثر یہ دیا گیا ملک کے عوام کو اور سیاسی ماحول کو کہ جیسے ہم کوئی مشرف کے ساتھ اتحاد کیے ہوئے ہیں ملا ملٹری الائنس، پتہ نہیں کیا کیا، تو یہ اوازیں ہم پر کستے جانے لگے وہ اس لیے کہ ہم ایک اور ترجیح پہ جنگ لڑ رہے تھے اور یہ ایک اور ترجیح پہ جنگ لڑ رہے تھے یہ طاقتور لوگ ہوتے ہیں یہ اپ سے کہتے ہیں کہ مشرف کے خلاف لڑنا ہے سو میرا ساتھ دو اور اگر نہیں دو گے تو ہم تمہیں ایسی تیسی کر دیں گے ہم نے کہا نہیں ترجیحات مختلف ہو سکتی ہے ہماری ترجیحات، اب میں جیل میں رہا ہوں نا، مشرف کے زمانے میں، تو یہ اس زمانے سے ایک لیڈر جیل میں نہیں تھا اگر تھے تو اسی کرپشن اور جس طرح ہوتا ہے سیاست میں کچھ پیپلز پارٹی کے لوگ بھی اور مسلم لیگ کے لوگ بھی تو ان پر چونکہ انہوں نے ہاتھ ڈال دیا تھا وہ جیلوں بھی چلے گئے تھے کچھ باہر میں رہ گئے تھے تو اس لیے ان کی جنگ جو ہے وہ انٹرنل پالیٹکس کے حوالے سے اس وقت مشرف کے ساتھ تھی.
اینکر: ایم ایم اے کو 2008 میں آپ کنٹینیو رکھتے جاری و ساری رکھتے اپ نے 2008 میں ایم ایم اے ختم کر دیا جیسے ہی مشرف کا دور ختم ہوا ؟
مولانا صاحب: ہم نے نہیں کیا ہم نے ختم نہیں کیا جنہوں نے ختم کیا میں اس کو زیر بحث بھی نہیں لانا چاہتا کیونکہ ابھی یہ چیزیں ہم جانتے ہیں کہ کس نے ختم کیا کیوں ختم کیا کیا وجہ تھی ساری چیزیں اور اس میں کس کا عمل دخل ہوتا ہے وہ ساری چیزیں ایک وقت جس طرح آج ہم باتیں کر رہے ہیں تو ایک وقت آئے گا۔
اینکر: مولانا از ناو اے پریزٹیبل موڈیریٹ لیڈر لوکنگ فور اے ہائیر بگر رول، از ڈیٹ کریکٹ ؟
مولانا صاحب: صحیح ہے میں پرائم منسٹر کا الیکشن لڑ چکا تھا اگر پیپلز پارٹی اپنا کینڈیڈیٹ نہ کھڑا کرتی اور اپوزیشن کا ووٹ تقسیم نہ ہوتا تو ہم کامیابی کے پوزیشن میں تھے جی، مجھے جنرل مشرف نے خود بلایا اور کہا کہ جی اپ الیکشن نہ لڑیں میں نے کہا کیوں نہیں لڑوں گا کہتے ہم نہیں چاہتے، بین الاقوامی دنیا نہیں چاہتی ہے، امریکہ نہیں چاہتا، مغربی دنیا نہیں چاہتی ہمارا پرائم منسٹر ہوگا بہت سی دنیا میں اس پر پابندیاں لگ جائیں گی ان کا داخلہ ممنوع ہو جائے گا تو میں نے کہا پھر اپ کس مرض کی دوا ہیں کچھ اپ کنٹرول کریں گے کچھ ہم کنٹرول کریں گے تو اگر پیپلز پارٹی اس وقت اپنا کینڈیڈیٹ نہ کھڑا کر دی تو اس وقت ہم شاٸد جیت بھی جاتے اور پھر بھی مجموعی طور پر وہ ایک ووٹ سے جیتے ہیں، تو یہ سارا اسٹیبلشمنٹ کا اس وقت کا کھیل تھا جب ہم ان کے ساتھ نہیں جڑ سکے تھے تو اپوزیشن کے اگر دوسری جماعتیں تو ہمارا ساتھ دے رہی تھیں نواب زادہ صاحب نے ساتھ دینے کا اعلان کیا مسلم لیگ نے ساتھ اعلان کیا اور پارٹیوں نے صرف پیپلز پارٹی تھی جو اس نے اپنا کینڈیڈیٹ کھڑا کر دیا شاہ محمود قریش صاحب جو ہیں اس زمانے میں ان کے رفیق تھے تو وہ ووٹ ہمارا تقسیم ہو گیا۔
اینکر: بینظیر بھٹو کی شہادت ہوتی ہے 2007 میں ان کی شہادت ہوتی ہے اور 2008 میں پھر الیکشن ہوتا ہے تو مولانا اس وقت تک اپ کی بی بی شہید کے ساتھ قربت بھی ہو چکی تھی بڑا بھائی اپ کو کہتی تھی اپنا، اپ کے ساتھ اپ نے ان کے ساتھ کو اپریٹ بھی کیا تھا انہوں نے اپ کو کشمیر کمیٹی کا چئیرمین بھی بنایا، فارن افیئرز کے اپ اس وقت چیئرمین تھے بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں تو ان کی شہادت پہ اپ نے کیسا محسوس کیا ؟
مولانا صاحب: حضرت ہمیں بڑا دھچکا لگا اس سے اور ملکی سیاست میں حضرت اس طرح بڑا نقصان نہیں ہونا چاہیے جی تو پھر ملک کی پوری سیاست چینج ہو جاتی ہے اختلاف اپنی جگہ پر ان کی اپنی پولیٹکس تھی ہمارے اپنی پولیٹکس تھی لیکن ہم سیاست میں اس روش کے قائل نہیں ہیں کہ کسی کو جان سے بھی مار دیا جائے تو لیاقت علی خان سے لے کر پھر بھٹو پھر اس کے بعد بے نظیر بھٹو کیا میسج جائے گا جی اس میں، اپ مجھے بتائیں کہ اگر ایک لیاقت باغ ہو اور لیاقت علی خان بھی یہی شہید ہوتے ہوں اور بے نظیر بھی وہی شہید تو پنجاب کو کیا میسج جائے گا سندھ میں، یہ تو میرے خیال میں اس وقت زرداری صاحب اچھا کیا کہ جذباتی ماحول میں جب وہاں کے کارکن نعرے لگا رہے تھے پاکستان نہ کھپے تو انہوں نے پریس کانفرنس کیا اور کہا کہ نہیں پاکستان کھپے، تو اس میں ایک اچھی چینج اگئی ان کے اس جملے سے اور ملک میں ایک جو ایک فضا بنتی جا رہی تھی وہ وہیں پہ رک گئی اچھی بات تھی، تو میرے بھٹو کا حضرت اس ملک کی سیاست کو چینج کیا جائے اور وہ سیاستدان تھی اس کے سیاسی گھر میں اس کا نشونما ہوئی تھی وہاں سے ان کی تربیت تھی، سٹرگل بھی تھی تو وہ ساری چیزیں ہمارے مد نظر تھی اور جب وہ پاکستان واپس ائیں تو اس زمانے میں خیبر پشتونخواہ میں ہماری حکومت تھی اس وقت، تو انہوں نے دورہ بھی کیا ہمارے صوبے کا اور ہماری گورنمنٹ بہت زیادہ مضبوطی کیساتھ اس کو حصار مہیا کیا اور سیکیورٹی دی اور وہاں سے اپ انڈیا میں ائی اور یہاں جب ائے تھے یہاں پر واقع ہو گیا۔
اینکر: کیا ان کو معلوم تھا کہ ان کی جان خطرے میں ہے ؟
مولانا صاحب: مجھ سے انہوں نے دو مرتبہ فون پہ بات کی ہے ملاقات نہیں ہو سکی تھی لیکن دو مرتبہ انہوں نے مجھ سے فون پہ بات کی ہے اور دونوں مرتبہ جو ملکی مسائل پہ ہم ڈسکس کرتے تھے تو اس میں اتفاق رائے پایا جاتا تھا جو ایشوز تھے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ یہ ہوا کہ وہ یہ بھی کہتی تھی کہ مولانا صاحب مجھے بہت خطرہ ہے۔
اینکر: کہتی تھی اپ کو کہ مجھے بہت خطرہ ہے ؟
مولانا صاحب: جی جی
اینکر: اپ نے کیسا محسوس کیا جب اپ سے انہوں نے یہ کہا ؟
مولانا صاحب: رحم ایا کیوں کہ بے بسی کی بات تھی نا جی کیوں انسان یہ محسوس کرے، میں کیوں یہ محسوس کروں کہ میں پاکستان میں پولیٹکس کر رہا ہوں میں غیر محفوظ ہوں جیسے میں ابھی اپ سے گفتگو کر رہا تھا کہ اب ہم حلقوں میں کمپین نہیں چلا سکتے، یہ دن بھی ہمیں دیکھنے تھے پاکستان میں۔
اینکر: مولانا صاحب اپ کے ساتھ انہوں نے بات کی فون پہ، میں بھی اپ کو اج ایک بات بتاتی ہوں وہ نیویارک میں تھی اور پاکستان انے سے پہلے انہوں نے نجم کو فون کیا وہاں سے اور اس زمانے میں انہوں نے موبائل پہ نہیں کیا بلکہ لینڈ لائن پہ فون کیا حالانکہ 2007 تھا، اوائل 2007 اور انہوں نے کہا کہ اپنا مجھے اپنی رائے دیجئے میں واپس اؤں کہ نہ اؤں تو نجم نے کہا اپ ضرور ائیے اپ آ کے اپ کی لیڈرشپ کی ضرورت ہے اپ نے میثاق جمہوریت میاں صاحب سے کیا ہے اپ دونوں الیکشن لڑیں ٹو پارٹی سسٹم قائم ہوگا ان شاءاللہ اس ملک میں، اپ ضرور واپس تشریف لائیں اور اپنا کردار ادا کریں یو مسٹ کم بیک ہی سیڈ انگریزی میں اسی وقت وہ فون اصف زرداری صاحب نے بی بی کے ہاتھوں سے لے لیا اور نجم کو کہا یار کیا کہہ رہے ہو اس کو منع کرو اس کو مار دیں گے پھر بی بی نے فون واپس لے لیا اور نجم سے کہا ڈونٹ لسن ٹو ہیم اس کی بات مت سنو۔
مولانا صاحب: خیر یہ بات آپ نے کہی ہے میں اس پر اپنی بات کہنا چاہتا ہوں اس پر تبصرہ کیے بغیر، کہ چونکہ ہم یہی تھے ہمیں یہاں کے حالات معلوم تھے میں کچھ دنوں کے لیے دبئی گیا تھا اور بی بی وہاں دبئی بھی تھی تو انہوں نے ایک دوپہر کے کھانے میں مجھے بلایا کہ آج آپ میرے ساتھ کھانا کھائیں کچھ باتیں کریں ہم اپس میں، پھر 2003 کے بعد تین یا چار اس طرح کوئی تھا تو مجھ سے بھی یہی سوال کیا انہوں نے لیکن میں نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ میرے خیال میں میں دیانت دارانہ طور اپ سے بات کروں گا تو میرے خیال میں ابھی اپ کے انے کا راٸے میرا نہیں ہے، پھر مجھے انہی کے ایک ماحول کے ایک ساتھی نے بتایا کہ کہیں کسی مجلس میں انہوں نے ذکر کیا کہ میرا ذکر کیا کہ انہوں نے نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ ابھی اپ نہ ائیں میرے خیال میں ان کی رائے صحیح تھی.
اینکر: پھر جو ہوا سو ہوا اور پاکستان کا بہت بڑا نقصان ہوا اور بھٹو فیملی کا تو سارا ایک چمن برباد ہو گیا سارا گلستان ان کا وہ برباد ہو گیا بھٹو صاحب، ان کی صاحبزادی ان کے دونوں بیٹے اور میں تو بیگم بھٹو کو بھی شہید جمہوریت سمجھتی ہوں اور ایک صنم رہتی ہیں اس خاندان میں سے ذوالفقار علی بھٹو کی اولاد میں سے لیکن 2008 میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اور زرداری صاحب صدر بنے تو اپ نے ان کی بہت سپورٹ کی یہ ہم نے دیکھا اور پھر ایک وقت ایسا ایا جب زرداری صاحب کے بارے میں سنا کہ ان کا کوئی کولیپس ہو گیا ہے پریزڈنسی میں اپ کو یاد ہوگا کہ اپ کی اور ہماری پھر اس وقت بھی ملاقات ہوئی تھی اپ ہمارے گھر تشریف لائے تھے لاہور، اپ نے اس وقت بھی ہمارے ساتھ نجم کے ساتھ میرے ساتھ ذکر کیا کہ زرداری صاحب کو کیا ہوا تھا انہوں نے اپ کو بلایا پریزیڈنسی میں اپ وہاں ایوان صدر میں گئے اپ نے وہاں کیا پایا ؟
مولانا صاحب: جب مجھے وہاں بلایا گیا تو مجھے تو کچھ علم نہیں تھا لیکن ان کے ساتھ جو میں نے گفتگو کی اور کوئی ایک گھنٹے سے زیادہ گفتگو رہی تو مجھے اندازہ لگ گیا کہ کہیں پر ان کے ذہن میں کوئی دباؤ ہے کچھ وقت اس کے باوجود بھی میں ان کے پاس رہا ہوں مجھے اندازہ لگ گیا کہ اب کوئی سنجیدہ ایک موضوع ڈسکس نہیں ہو سکتا تو جس طرح میری بے تکلفی ان کے ساتھ ہے وہ ہم وہاں بیٹھے رہے اگلی دن مجھے جب ہم وہاں سے آئے تو مجھے اطلاع ہی کہ آپ کے ماموں کا انتقال ہو گیا گاؤں میں تو پھر ادھر چلا گیا تو وہاں سے پھر میں نے یوسف رضا گیلانی صاحب کو فون کیا کہ آپ ادھر ادھر متوجہ ہو جائیں ضروری ہے آپ کا، پھر میرے خیال میں وہ علاج کے لیے چلے گئے تھے دبئی۔
اینکر: جی ایر ایمبولنس پہ دبئی چلے گئے تھے اپ نے ہمیں اس وقت یہ بتایا تھا نجم کو اور مجھے کہ زرداری صاحب نے اپ کا ہاتھ تھاما اور کہا کہ اپ میرے پاس رہیں کچھ دیر
مولانا صاحب: بس وہ ان کی طبیعت پہ جو ایک بوجھ تھا نا جی تو وہ چونکہ میرے ساتھ ان کا ایک ہے تعلق اور دوستانہ برادرانہ ان کی پارٹی کے لوگ بھی بعض دفعہ جب مجھے کہتے تھے اپ ہی بات کریں تو شاید وہ مان جائیں ہماری تو نہیں مانتے تو وہ ایک تعلق ان کے ساتھ میرا ہے اتے ہیں تبھی بے تکلفی سی اتے ہے میں بھی جاتا ہوں تو بے تکلف ان کے پاس۔
اینکر: مولانا اس وقت کیا دباؤ تھا کیوں ان کا منٹل کولیپس ہوا اس وقت کیا وجہ تھی ؟
مولانا صاحب: مجھے اس کا علت تو معلوم نہیں اس سے پہلے تو کوئی ایسا مجھے مشاہدہ نہیں ہوا تھا پہلی مرتبہ تھی اور کافی وقت تک مجھے اندازہ نہیں لگ رہا تھا جی لیکن بالاخر مجھے کچھ اندازہ لگ گیا۔
اینکر: ان کے اوپر اس وقت کوئی دباؤ تھا اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ؟
مولانا صاحب: جو بھی تھا مجھے نہیں معلوم لیکن وجوہات کیا تھی، علت کیا تھی، بے ارامی تھی، کیا وجہ تھی اس کے کچھ پتہ نہیں مجھے لیکن میرے خیال میں بھی ارامی تھی کافی دنوں شاید وہ ارام ہی نہیں کر سکے تھے پھر مجھے ایک دوسرے اپ کے صحافی بھائی ہیں انہوں نے بھی کہا کہ میں بھی تین دن پہلے ان کے پاس گیا تھا تو مجھے بھی محسوس ہوا کہ وہ کوئی ایک ذہنی دباؤ میں ہے تو پھر جب وہاں ان کو دبئی لے جائے گیا تو میرے خیال میں ایک لمبی نیند ان کو دلاٸی گئی تھی پہلی شاٸد بارہ گھنٹے کی تھی پھر جب کچھ فرق نہ ایا تو دوبارہ، تو اللہ نے شفا دے دیا اب تو ماشاءاللہ ٹھیک ہے اور اللہ ان کو صحت سے رکھے۔
اینکر: امین، اللہ اپ سب کو صحت دے لیکن مولانا پھر یہ بات پھر یہاں سے اب بنتی ہے بے نظیر کی شہادت ہوئی ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت ہوئی اب وہ اس کو جوڈیشل مرڈر کہہ رہا ہے اور سپریم کورٹ اس کو دوبارہ سے سن رہا ہے وہ ساری چیز کو دیکھ رہا ہے بہت سے اور لوگ اپ کے اوپر خود اس وقت اپ کی جان کو خطرہ ہے میں نے مجھے معلوم ہے کہ اپ کے اوپر کتنے قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں اپ کے خاندان پہ کتنے قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں مولانا انگریزی میں یہ سوال پوچھو گی اپ سے، از اٹ ورت اٹ، کیا یہ سیاست اور یہ سارا نظام جس کے لیے اپ اپنی جان اور اپنے پیاروں کی جان داؤ پہ لگاتے ہیں کیا از اٹ ورت اٹ مولانا؟
مولانا صاحب: بات تو یقینا ایسی ہے کہ ہر طرف جیسے ایک بے بسی بھی ہو مایوسی بھی ہو لیکن ہم نے مایوس ہونا ہے نہ اس طرح بے بس ہونا ہے یہ اج کل کے جو دن ہمارے اوپر گزر رہے ہیں اس میں جو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ ہے اور یا ہم ہیں تو کوئی زیادہ ٹینشن ہمارے بیچ میں ہے نہیں اور ایک لمبے عرصے کے بعد پہلی مرتبہ میں محسوس کر رہا ہوں کہ ملکی نظام میں ایک یکسوئی پائی جا رہی ہے سیاسی جماعتوں کے اندر بھی اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی اور ہمہ جہت ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ملک کو اس بحران سے کیسے نکالے اور سب سے بڑی چیز یہی ہے بدامنی اور معیشت۔
اینکر: جب آصف زرداری صاحب نے 2013 میں ایک پیس فل ٹرانسفر اف پاور کیا دو متواتر پیس فل ٹرانسفر اف پاور ہوئے اور 2013 میں نواز شریف صاحب کو حکومت ملی اور وہ حکومت ٹھیک ہی چل رہی تھی جوڈیشری بھی انڈیپینڈنٹ ہو رہی تھی میڈیا بھی ازاد ہو رہا تھا دو دفعہ تواتر سے حکومت پاور بھی ٹرانسفر ہو گیا اور اپ سمجھے کہ ہم لوگ سب باہر بیٹھ کے یہ سوچتے تھے کہ شاید پاکستان میں اب جمہوریت مستحکم ہوتی چلی جا رہی ہے تو پھر یہ سارا ہائبرڈ قصہ جو شروع ہوا جو عمران خان کو لانچ کیا گیا نظام کو درہم برہم کر دیا گیا اور ایک الیکٹڈ حکومت کو پٹڑی سے پہلے ہی ایک وزیراعظم کو اتار دیا گیا جس میں وہ اب بری ہو گئے انہی الزامات میں، یہ سب کیا تھا مولانا ؟
مولانا صاحب : 2017 میں جب ابھی میاں نواز شریف صاحب پرائم منسٹر تھے اور پانامہ کا بھونچال اگیا تھا تو میں نے اس وقت ایک تقریر کی تھی اور میں نے ان سے یہ کہا تھا کہ ہمیں کچھ چیزیں ذہن میں دوبارہ واپس لانے ہوں گی اور اس حوالے سے میں نے ایک خطرے کا اظہار کیا تھا کہ میں مطمئن نہیں ہوں حالات سے، اور امریکہ نے نائن الیون کے بعد جو دنیا میں تغیرات ائے تبدیلی ائی انقلابات ائے تو اس وقت انہوں نے ایک بات کی تھی کہ اب اگلی صدی ہماری ہے اور دنیا کی جغرافیائی تقسیم ہمارے مفادات کے تابع ہوگی یعنی انہوں نے ایک نئی جغرافیائی تقسیم کی اشارے دے دیے تھے تو اس حوالے سے مجھے یہ بات کھٹکی کہ جغرافیائی تقسیم کا نشانہ کون لوگ ہوں گے اس میں ترقی پذیر دنیا کے بڑے ممالک، اب ترقی پذیر دنیا کا بڑا ملک پاکستان ہے اور پاکستان رقبے کے لحاظ سے بھی اور ابادی کے لحاظ سے بھی دنیا کے بڑے ملکوں کے فہرست میں اتا ہے تو اس اعتبار سے مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے یہ اب ہمارے خلاف کوئی سازش ہو رہی ہے تو پھر اس کے بعد یہ ہوا کہ میں فارن افیئرز کمیٹی کا چیئرمین تھا مجھے دعوت ملی چائنہ کی طرف سے اور میں کمیٹی کو لے گیا ادھر، وہاں جب گیا تو جو ہمیں بریفنگ دی گئی وہ چائنہ کے ایک انے والے مستقبل میں نئے اقتصادی ویژن کے حوالے سے دی گئی تو اس میں کچھ فری اکانومی زونز انہوں نے بنائے تھے وہاں پر ہم نے مشورہ دیا کہ اورنچی کو بھی اپ فری اکانومی زون بنائیں اور ٹریڈ وایا پاکستان اس میں سیون ریزنز کے نام سے ہمارا ابھی بھی بلیک اینڈ وائٹ موجود ہے ہمارے ریکارڈ پر ہے وہ، اس وقت ہم نے ان کو دیا وہ بات اگے بڑھے گی اور پھر اس کے بعد اپ نے دیکھا کہ جب آصف علی زرداری صاحب ملک کے صدر بنے تو میرے خیال میں اپنے دور صدارت میں انہوں نے چائنا کے 12 دورے کیے ہوں گے اور ہم دونوں ممالک جو ہیں وہ اس اقتصادی شاہراہ کے حوالے سے ایک ایم او یو تک ہم پہنچ گئے جی، پھر نواز شریف کے زمانے میں دوبارہ ایم او یو بھی ہوا اور کام بھی شروع ہوا چنانچہ ہم نے محسوس کیا کہ پہلے تو ملک کے اندر اقتصادی ، پہلے سیاسی عدم استحکام ائے گا تو سیاسی استحکام عدم استحکام کے بعد پھر معاشی عدم استحکام ائے گا تو معاشی عدم استحکام کے بعد پھر ریاستیں جو ہیں وہ خطرے میں پڑ جاتی ہیں کیونکہ ان کا دفاعی نظام بھی جو ہے وہ ہٹ ہونا شروع ہو جاتا ہے جی، تو یہ بالترتیب دنیا میں جو ہماری تجربات ہیں کہاں کہاں پر دنیا ٹوٹتی ہے کیسے ٹوٹتی ہے اس کے جو اسباب و عوامل ہوتے ہیں ان میں یہ ساری چیزیں شامل ہوتی ہیں تو یہ خطرہ میں نے 2017 میں محسوس کر بھی دیا تھا اور میں نے ایک تقریر میں یہ بات کہی تھی چنانچہ جب نواز شریف صاحب کی حکومت بنی اور ایم او یو ہوا اور چائنہ کے صدر کے انے کی تاریخ مقرر ہو گئی تو یہاں 126 دن کا دھرنا دے دیا گیا، اب یہ وہ لانچنگ تھی کہ ایک نئی قوت جو ہے تاکہ ملک اقتصاد کا یہ راستہ جو سی پیک کے نام سے اگے مستقبل میں انے والا ہے اور اس کی منظوری بھی نواز شریف صاحب کے زمانے میں دے دی گئی اور تمام معاملات بھی پورا پیکج طے ہو گیا تھا جی، تو اس میں سڑک تو نہیں تھی اس میں سڑک بھی تھی اس میں ریلوے بھی تھا اس میں انڈسٹری زون سے بہت کچھ تھا اس کے اندر بجلی کے پیداوار میں اضافہ گیس مہیا کرنا تو یہ ساری چیزیں اس پیکج میں شامل تھیں اور انہی دنوں میں ایسا دھرنا دے دیا گیا کہ بھئی چور اور چور اور چور اور چور اور کس چیز کی چوری بھئی، تو اس وقت یہاں کی جو ہماری اسٹیبلشمنٹ تھی اس نے اس دھرنے کو سپورٹ کیا اور وزیراعظم کو بے بس کر دیا بالاخر پھر اسی پانامہ کی زد میں ا کر تو ان کو نااہل قرار دے دیا گیا اور حالانکہ وہ پانامہ کی زد میں بھی نہیں ا رہا تھا وہ تو دوسرے سے وہ ایک کوئی اقامہ تھا یا پتہ نہیں کیا تھا اس حوالے سے، تو اس طریقے سے جیسے طے شدہ فارمولے کے تحت سب کچھ ہو رہا تھا اور یہ بات سب میں نے میاں نواز شریف صاحب کو کہی تھی پھر ان سے کہا تھا کہ دیکھیے اپ صوبے میں 2013 میں جو حکومت بنا ان کو نہ بننے دیں ہم ان کو روک سکتے ہیں یہ ایک فتنہ ہے اور یہ انے والے وقت میں خطرات سے بھرا ہوا مجھے لگتا ہے انہوں نے کہا جی لارجسٹ گروپ ہے تو ان کو جمہوری طور پر
اینکر: جمہوریت کے قائل تھے میاں صاحب
مولانا صاحب: تو انہوں نے دے دیا انہوں نے کہا جی ہمیں پتہ ہے یہ اندر سے کیا ہے ذرا ہوا نکل جائے گی میں نے کہا نہیں ہے اور میاں صاحب ہوا بھری جائے گی تو چنانچہ 126 کے دھرنے سے ہوا بھری گئی اور دوبارہ مرکز میں لائے گئے اور جب مرکز میں لائے گئے تو انہوں نے سی پیک کو جام کر دیا پورا میگا پروجیکٹ جتنے سب منجمد کر دیے اور مجھے خود چینی سفیر نے ایک ملاقات میں کہا کہ اپ کے پرائم منسٹر نے ہمارے ہاں ا کر کہا کہ پاکستان میگا پروجیکٹس کا متحمل نہیں ہو سکتا ہم مائکرو لیول کی تجارت کرنا چاہتے ہیں اب اپ مجھے بتائیں کہ کیا مائکرو لیول کی تجارت کسی باہر ملک کے ساتھ ہوتی ہے ہم تو اپ لوگ اپس میں کرتے ہیں میں نے پلاٹ بیچنا ہے اپ نے خریدنا ہے میں نے گھر بیچنا ہے اپ نے خریدنا ہے میں نے کوئی جانور بیچنا ہے اپن خریدنا ہے اور یہ لوگوں کے اپس کی تجارت ہوتی ہے۔
اینکر: اس زمانے میں ایک باجوہ ڈاکٹرائن بھی سامنے ائی اور جنرل باجوہ نے بھی کہا کہ وی ہیو ٹو ری پیوٹ ٹو دا ویسٹ، اپ کی بات کی تقویت کر رہی ہوں انہوں نے کہا کہ ہمیں واپس رجحان اپنا مغرب کی طرف کرنا ہوگا اپ کو یاد ہوگا ؟
مولانا صاحب:تو مجھے بہت کچھ معلوم ہے جی ساری بات
اینکر: تو مولانا قصہ مختصر یہ بتائیے اب یہ سمجھ اگئی ہے کیا یہ سمجھ ا گئی ہے اسی ادارے کو جنہوں نے یہ ری پیوٹ ٹو دا ویسٹ کہا تھا ؟
مولانا صاحب: بالکل ا گئی ہے دیکھیے جب ملک میں سیاسی عدم استحکام ایا پھر معاشی عدم استحکام ایا اس کے بعد جب دفاع کو نشانہ بنایا گیا اور ان کو اندازہ لگ گیا ہماری دفاعی قوت کو کہ اب ہمارا دفاعی نظام بھی شاید کولیپس کر جائے پھر انہوں نے ادراک کیا اور کہا کہ اس کو ہٹاؤ پھر تو خطرہ ہے ہمارے لیے، اب وہ لوگ جنہوں نے ان کو لایا جنہوں نے یہ نظریہ دیا کہ ہمیں مغرب کی طرف واپس جانا چاہیے جس طرح ہمارے فاٹا کے انظمام کے وقت مجھے خود باجوہ صاحب نے کہا کہ جی امریکہ کا بڑا دباؤ ہے ہمارے اوپر اور ڈرون حملے ہو سکتے ہیں اسلام اباد تک یہ سلسلہ ا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ تو پھر امریکہ کا یہاں پر خود ایک افسر ایا جو فاٹا کے حوالے سے یہاں پر مقیم تھا انہوں نے مجھے پھر اپنے گھر میں بھی بلایا صاف کہا کہ یہ اپ کو کرنا پڑے گا، کرنا پڑے گا جی کیا مطلب یہ جو کیا سارا کچھ ہو گیا دباؤ تھا ہمارے اوپر جی، تو یہ ساری چیزیں حضرت اس لیول پر ہوتی رہی اور ہم وقت کے ساتھ سودے بازی کرتے ہیں کہ چلو وقت گزر جائے ٹھیک ہے، ڈنگ ٹپاؤ ڈنگ ٹپاو سیاست تھی ہمارے ملک میں جی۔
اینکر:اب بدل گیا سب کچھ، اب ہم راہ راست پہ آگئے ہیں ؟ ابھی جو بیرون ملک ہمارے اپ کے خلاف یہ سازش جو اپ سمجھ رہے ہیں جو ہماری ہو رہی تھی سی پیک بند کرنے کے لیے چائنہ کے ساتھ ہمارے تعلقات بڑھاؤ کو بند کرنے کے لیے کیا وہ بھی باز آگئے ؟ ابھی ہٹ گئے ہیں ؟
مولانا صاحب: نہیں ابھی اس میں دباؤ برقرار ہیں ہم سی پیک میں ابھی تک اس طرح پیش رفت نہیں کر سکے جسطرح ہونا چاہیے صرف یہ ہے کہ ہمارا ذرا پریشر تھا اپنے حکومت سے درخواست کی کہ بھئی یہ سی پیک کو اگے بڑھاؤ تو کچھ منظوری ابھی ہوئی میاں شہباز شریف صاحب گئے بھی، ہمارے علاقوں میں افتتاح وغیرہ بھی کر لیے انہوں نے، تو سارا کچھ انہوں نے کیا لیکن ابھی تک عملی طور پر ہم اس کو اتنا بڑا پیش رفت نہیں کہہ سکتے کہ جیسے ہم نے کوئی بھی کوئی مغرب کو چیلنج کر دیا یا ان کے دباؤ سے ہم بالکل نکل گئے ہیں اور وہ دباؤ ابھی تک ہے لیکن اس میں ابھی تک یہ بھی ہمیں سوچنا ہے کہ چائنہ کہاں کھڑا ہے ہمارا ان کے ساتھ اعتماد کا لیول کیا ہے میں صاف صاف اپ سے کہنا چاہتا ہوں اور ان کے جہاں تک مجھے حالات معلوم ہیں سعودی عرب ہو امارات ہو چائنا ہو جو پاکستان کے دوست ہیں جو پاکستان کے مدد کرنا چاہتے ہیں وہ اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ اگر یہ کمبخت دوبارہ اتا ہے تو پھر ہم کیوں پیسے ضائع کریں ملک کے اندر، اب امین اور صادق کے حوالے سے اگر ان کی حکومت اتی ہے تو مطلب دینے کو تیار نہیں ہے اگر ان چوروں کی حکومت اتی ہے تو پھر وہ سب کچھ دینے تیار ہے ۔
اینکر: آپ الیکشن کرانے جا رہے ہیں اور آپ ایک جمہوریت پسند کارکن ہیں اپ کہتے ہیں اب سیاست اپ کی بڑی پرانی ہے اپ کے ابا و اجداد کی بھی ہے تو اگر ایک شفافیت سے پاک جو ایک ایک الیکشن ہوتا ہے جو کہ ایک بڑا متنازع الیکشن ہوتا ہے تو پھر اس الیکشن کی کیا ویلیڈٹی ہوگی ایک سوال، دوسرا سوال یہ ہے کہ جو عمران خان کی پاپولیرٹی ہے پنجاب میں ہے خیبر پختون خواہ میں ہے جہاں بھی ہے اور جتنی بھی ہے اس پہ ہم بحث نہیں کرتے لیکن بہرحال ہے تو سہی اس کی کیا پھر وجہ ہے ؟
مولانا صاحب: ایک دو ججز ہیں اور وہ جناب پورے معاملات کا کایا پلٹ دیتے ہیں یہ جو ان کو ریلیف ابھی تک ان گوشوں کے اندر ان کی ریلیف کے خانے موجود ہیں اس طرح مختلف جگہوں پر ان کے ریلیف کے خانے موجود ہیں کہ یہ ملک کی تباہی ہوگی جو باہر کے ایجنڈے پر لایا جاتا ہو اور ہمارے ملک پر مسلط کیا جاتا ہو باہر کا ایجنڈا حضرت میں اپ کو یہ ناکام ہو سکتا ہے لیکن وہ اس سے دستبردار نہیں ہوتے پھر اس کو اس تجربہ کریں گے پھر اس کو اگے لگانے کی کوشش کریں گے تو یہ ساری دنیا جو ہے اس وقت پاکستان پر اس کی جغرافیائی اہمیت ہے، پہلے کسی زمانے میں جب اقبال شعر کہتا تھا کہ افغانستان جو ہے وہ ایشیا کا دروازہ ہے اور افغان کی خوشحالی میں ایشیا کے خوشحالی اور اس کی بربادی میں، وہ ایک زمانہ تھا وہ جگہ اب پاکستان نے لے لی ہے تو پاکستان پر پریشر کیوں بڑھائے جا رہے ہیں جی، انڈیا کی طرف سے بھی ہمارے اوپر پریشر، افغانستان کی طرف سے بھی ہمارے اوپر پریشر ہیں تو یہ دونوں طرف کے پریشر میں پاکستان کو دبایا کیوں جا رہا ہے ہمیں بڑے ایک زیرک پاکستان اور سنجیدہ پاکستان کے طور پر اور اس ذمہ دار پاکستان کے طور پر ان معاملات کو دیکھنا ہوگا اور ہمیں انے والے دن کے مشکلات سے نکلنے کے راستے تلاش کرنے ہوں گے جذبات میں ائے بغیر ۔
اینکر: تو پھر جذبات میں ائے بغیر ایک زیرک فیصلہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اپ نے ووٹ اف نو کانفیڈنس کیا ٹھیک کیا اپ کا حق تھا اپ نے اس حکومت کو چلتا کیا اپ کا حق تھا کیا یہ بھی زیرک فیصلہ نہیں اس وقت ہو سکتا تھا کہ اسمبلیاں توڑ کے فورا الیکشن میں جایا جائے اپ لوگوں کی خاص طور پہ پی ایم ایل این کی اس وقت بڑی ایک مضبوط پوزیشن تھی کیا یہ غلطی نہیں ہوئی مولانا ؟
مولانا صاحب: میرا تو یہی نظریہ تھا جو اپ کہہ رہے ہیں لیکن میں تنہا ہو گیا۔
اینکر: کیوں نہیں انہوں نے یہ سمجھا کہ اپنی ساکھ ہی خود متاثر کریں گے ؟
مولانا صاحب: یہ تو پھر اپ وہ سب زندہ ہیں ان سے بھی پوچھ سکتے ہیں میں کیا کہہ سکتا ہوں جی ان کے بارے میں
اینکر: اپ ان کے الحاقی تھے اپ ان کے ساتھ تھے کیا وجہ تھی ؟
مولانا صاحب: میں نے اپنی رائے ان کے لیے چھوڑ دی کیونکہ اب اتحاد توڑنا اس کو بھی تو تباہ کن تھا نا جی، تو اتحاد توڑنا اور بھی تباہ کن تھا جی، بہت سے مشکلات اور ا جاتی ہے اس کی جگہ پہ
اینکر: مولانا کئی مرتبہ قاتلانہ حملے ہوئے ہیں 2011 میں ہوئے 2014 میں ہوئے ایک بار نہیں بار بار ہوئے اپ کے ساتھیوں پہ ہوئے اپ کے کئی ساتھی شہید ہوئے ہیں کئی پولیس اہلکار شہید ہوئے ہیں اپ لوگوں کے ساتھ شہید ہوئے پھر بدامنی ہے اپ کے علاقے میں مجھے اسعد بتا رہے تھے اج، اپ کے صاحبزادے کہ اپ نہیں جا سکے اپنے حلقوں میں، نہیں جا سکتے الیکشن کیمپین کرنے کے لیے تو جب ایک خودکش حملہ ہوتا ہے اپ پے اور اپ اللہ کی قدرت سے بچ جاتے ہیں تو کیا سوچتے ہیں کیا گزرتی ہے ؟
مولانا صاحب: میں نے اس وقت نوٹس نہیں لیا تو اب کیا اج میں ان کا نوٹس لوں میں نے اپنے کام سے کام رکھا ہے جی، میں نے اپنی سیاست تبدیل نہیں کی ہر کچھ ہوا کچھ لوگ پیدا ہو جاتے ہیں انتہا پسند قسم کے جن کو نہ شریعت کا پتہ نہ ان کے احکامات کا پتہ پورے پاکستان کے علماء ایک طرف وہ چند لوگ جو ہیں وہ کچھ گروہ ہوئے ایک طرف اور سب پہ فتوی لگاتے ہیں کفر کا۔
اینکر: میں آپ کی ہیومن ایموشنز کی بات کرنا چاہتی ہوں کہ اس وقت کیا گزرتی ہے جب اپ کے اوپر ایک حملہ ہو اور اگر اپ اس سے جس طرح اللہ نے اپ کے اوپر کرم کیا اور اپ بچ گئے اپ کی فیملی ہماری بھابی تو ایک ہی ہے نا ابھی تک ہے نا ایسے ہی ہے نا، ماشاءاللہ اور اپ کی تین بیٹیاں ہیں تین بیٹے ہیں اپ کے ان پہ کیا گزری انہوں نے اپ کو کیا کہا ؟
مولانا صاحب: اب یہ تو ایک عام انسانی مسئلہ ہے اور ہر انسان احساسات میں مشترک ہوتا ہے انسان کا خوف، انسان کی خوشی تمام اسباب ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں کہ خوشی کے اسباب کیا ہیں غم کے اسباب کیا ہیں خوف کے اسباب کیا ہیں امن کے اسباب کیا ہیں وہ جس طرح کے حالات ہوتے ہیں تو وہ پریشانی انسان پر اتی تو ہیں لیکن اپ نے سنبھلنا ہوتا ہے جی، اگر اپ اس وقت سنبھل گئے تو اپ اگے نکل سکتے ہیں جی اور اگر اپ وہاں نہیں سنبھلے اور خوف کے مارے اپ رک گئے تو پھر اپ رک گئے جی، الحمدللہ ہم سنبھلے ہیں ۔
اینکر: آپ کو کبھی میری بھابھی نے یا اپ کی بیٹیوں نے کبھی آپ کو کہا کہ ابو یہ چھوڑ دے ؟
مولانا صاحب: نہیں بالکل بھی نہیں، کبھی نہیں کہا بلکہ اپنے رویوں سے انہوں نے مجھے حوصلے دیے ہیں کہ شکر ہے کہ میرے گھر میں کوئی مجھے ایسی پریشانی نہیں ہے کہ میرا کوئی بچہ پریشان ہو یا میرا کوئی بیٹی پریشان ہو یا گھر میں میری بہنیں ہیں خاندان ہیں بھائی ہیں تو اس پورے ماحول میں مجھے اس قسم کی کوئی ایسا میسج نہیں ملا کہ یہاں میرے گھر میں مجھے پریشانی وغیرہ سختی کرتا ہوں یا اگے پڑھتا ہوں میں نے اپنے معمول کا سفر برقرار رکھا ہے ۔
اینکر: جب آپ کو پی ڈی ایم میں حکومت ملی تو ناقدین کا کہنا ہے کہ حالانکہ جے یو ائی میں جمہوریت ہے کئی دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ مولانا حیدری اپ سب اختلاف کرتے ہیں اپنے اختلاف کا اظہار بھی کرتے ہیں اپ سنتے بھی ہیں اپ ان کا جائزہ قبول بھی کر لیتے ہیں کبھی، لیکن جب اقتدار ملا تو پھر زیادہ تر اپ نے اپنی کنبہ پروری ہی کی اسعد بن گئے کمیونیکیشنز منسٹر، اپ کے بھائی بھی تھے ساتھ تو یہ بتائیے کہ اس وقت اپ کو کیا محسوس ہوا کہ نہیں شاید بانٹنا چاہیے اقتدار ؟
مولانا صاحب : نہیں میرے خیال میں میں اپ کو بتاؤں پارلیمنٹ میں جو ہمارے پارلیمانی گروپ ہے انہوں نے ان کو پارلیمان لیڈر کہا تھا اور تین ساڑھے تین سال جو بھی وقت گزرا تو سب وہاں جو دوست تھے انہوں نے ان کو پارلیمان لیڈر قرار دیا اور ایسے بزرگ بھی ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ ابتدا میں وہ شاید کچھ تحفظات رکھتے تھے لیکن اس کے بعد پھر انہوں نے بھی کہا کہ نہیں یہ فیصلہ ٹھیک ہوا، اب جو ادمی پارٹی میں پارلیمان لیڈر ہو تو اس کے بعد یہ تو نہیں ہے کہ صرف میرا بیٹا گیا ہے پارلیمان لیڈر بھی گیا ہے میں نے چار اور وزراء بھی تھے ان کے ساتھ، تو اگر صوبے میں حکومتیں بنی ہے تو میرا تو کوئی بھائی اس حکومت میں نہیں ہے میرا تو کوئی بیٹا اس حکومت میں نہیں تھا پارٹی کے دوسرے لوگ گئے اور وہ بھی اس طرح کے میں نے واضح طور پر کہا تھا جی کہ ایک ہے فکری ایک موافقت وہ تو انسان کے اختیار میں نہیں ہے لیکن کوئی ایسی جماعتی وابستگی کہ بالکل نظر ائے ایسے لوگوں کو حکومت میں جانا بھی نہیں چاہیے کیونکہ وہ بھی حکومت ہے اور نگران حکومت ہے تو اس لحاظ سے ہم بہت احتیاط کرتے ہیں ان چیزوں میں، باقی یہ ہے کہ کچھ خاندان ایسے ہوتے ہیں جس پر پارٹی کا بالعموم ہر جانب ہر طرف اعتماد ہوتا ہے اور جہاں بھٹو صاحب کا نام ہوگا تو وہاں پورے ملک کی پارٹی جو ہے اس خاندان کی طرف دیکھتی ہے جی، اگر کہیں پر نہرو خاندان ہے تو پھر اس کی طرف لوگ دیکھتے ہیں۔
اینکر: بھٹو خاندان کے چشم و چراغ بلاول بھٹو زرداری فرماتے ہیں کہ اب ہمارے سینیئرز کو ریٹائر ہو جانا چاہیے یہ انہوں نے کہا ہے کہیں پر تو اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ؟
مولانا صاحب: نہیں وہ بچوں والی بات ہوتی ہے تو بچوں کی تربیت کریں گے نوٹس تو نہیں لیں گے نا اس طریقے سے۔
اینکر: اچھا لیکن ان کا میرا خیال ہے اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو ان کے حامی ہیں اپنے والد کی طرف ہو سکتا ہے اپ کی طرف بھی ہو سکتا ہے مریم کے والد کی طرف بھی ہو سکتا ہے حمزہ کی والد کی طرف بھی ہو سکتا ہے۔
مولانا صاحب: اگر ان کی والدہ حیات ہوتی تو پھر کیا کرتا
اینکر: ان کی اگر والدہ حیات ہوتی تو ٹو پارٹی سسٹم قائم رہتا پاکستان کی جمہوریت میں یہ نئے عناصر اس قسم کے نہ اتے جہاں جہاں پر اتنی انسٹیبلٹی ہوئی اب بے نظیر بھٹو کی شہادت نے پاکستان کا بہت نقصان کیا۔
مولانا صاحب: دیکھیے بے نظیر بھٹو کو ادھر سائیڈ پہ کیا گیا، نواز شریف کو ادھر سے نکالا گیا یہ وہ ساری چیزیں ہوتی ہیں کہ یہ سب ملک کے اندر یہ تانے بانے نہیں بنتے یہ سارے تانے بانے باہر سے بنتے ہیں اور ہمارے ادارے ان کے زیر اثر ا جاتے ہیں بلکہ ان کے خادم بن کر ان کے امپلیمنٹیشن کرتے ہیں تو پھر اگر ہمارے ملک کے اپنے اندر ایسے لوگ ہوں کہ جو بڑے اپنے آپ کو ہم خود مختار ہیں اور ملک وفاداری اور حب الوطنی اور قانون اور فلاں کی بالادستی یہ سارے حوالے استعمال کر کے اس قسم کے فیصلے کریں کہ جس سے ملک تباہ ہوتا ہو اس کا ہم کیا کریں گے یعنی بنگلہ دیش بھی تو اسی نعروں میں بنا ناں، ہم ملک کے لیے لڑیں گے اور کارخانوں میں لڑیں گے اور گلیوں میں لڑیں گے اور سحراوں میں لڑیں گے یہ آج کی تقریر تھی اور اگلے دن پاکستان گیا۔
اینکر: صحیح فرمایا مجھے مولانا مفتی محمود کی ایک بات یاد ائی کہ جب وہ اسلام اباد ایا کرتے تھے تو وہ پنڈی صدر کی ایک مسجد میں مقیم ہوا کرتے تھے تو وہاں سے لے کے یہاں تک یا ماشاءاللہ اللہ نے اپ کو بہت نوازا ہے سنا ہے کہ اپ بہت اب مالدار ہیں آپ کی اولاد بھی ماشاءاللہ امیر ہیں کبیر ہیں یہ سفر کیسے طے ہوا یہ سب کچھ کہاں سے ایا ؟
مولانا صاحب: میرے والد صاحب جب پارلیمنٹ میں تھے تو یہاں ایم این اے ہاسٹل میں رہتے تھے جب پارلیمنٹ ختم ہو گئی تو پھر مسجد میں چلے گئے تو میں جب تک پارلیمنٹ میں رہا ہوں میں لاجز میں بھی رہا ہوں میں سرکاری کالونی میں بھی رہا ہوں جب یہ سب کچھ ختم ہو گیا تو میں ایک دوست کے گھر میں ٹھہرنے لگ گیا، کچھ تھا ہی نہیں
اینکر: لیکن اپ کی ماشاءاللہ بہت سے گھر ہیں اپ کی جائیداد اپ کی زمینیں وغیرہ
مولانا صاحب: نہیں کوئی زمینیں نہیں ہے وہی زمین ہے جو والد صاحب نے خریدی تھی ۔
اینکر: اچھا آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے ؟
مولانا صاحب: ذریعہ معاش اللہ کی طرف سے غیبی مدد ہے۔
اینکر: میں بھی غیبی مدد کی دعا کر لوں پھر
مولانا صاحب: واللہ یرزق من یشاء بغیر حساب، اگر وہ بے حساب دیتا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہم حساب کرے۔
اینکر: ملک کے بارے میں بھی اب اپ پر امید ہیں اپ سمجھتے ہیں کہ ہمارا راستے کا تو تعین ہو چکا ہے۔
مولانا صاحب: اگر ہمارے اندر یہ یکجہتی رہی اور ہم سنجیدہ رہے ملک کے حوالے سے تو یہ پرچون کی سیاست جو ہے نا یہ اچھی نہیں ہوتی، ہمیں ائیڈیل سیاست کرنی چاہیے۔
اینکر: آئیڈیل سیاست میں شفاف الیکشنز تو بالکل ناگزیر ہے نا مولانا ؟
مولانا صاحب: بالکل ناگزیر ہے ہم تو لڑے ہی اسی لیے ہیں ہمارا کیا جھگڑا تھا۔
اینکر: نظر آرہے ہیں شفاف الیکشن ہوتے ہوئے ؟
مولانا صاحب: ان شاءاللہ ان شاءاللہ، میں ایک بات کہتا ہوں جی اپ اگر کسی کی طرف اشارہ بالفرض کر رہے ہو نا بالفرض تو میں وہاں پر بھی ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ وہ بھی متحمل نہیں ہوں گے کہ ایک الیکشن پر بھی اعتماد نہ ہوا اب دوسرے پر بھی اعتماد نہ ہو کہ ملک اس کا متحمل نہیں ہے تو اس لیے ملک کو اگر ہم نے سامنا رکھنا ہے تو ہمیں یقینا ایسا الیکشن کہ جس کو قوم قبول کر سکے۔
اینکر: اسی پہ اختتام کرتے ہیں اپنے انٹرویو کا اپ کی بڑی مہربانی مولانا
مولانا صاحب: بہت شکریہ آپ کا جی بہت شکریہ
ضبط تحریر: محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
تصحیح: سہیل_سہراب
Facebook Comments