جمعیۃ علماء اسلام۔۔ راہ حق کی جماعت

جمعیۃ علماء اسلام۔۔ راہ حق کی جماعت

 

 مفتی نظام الدین شامزئی شہید رح

 

 جس دور میں ہم زندگی گزار رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ حضرت مولانا عبدالکریم بیرشریف والے کی بزرگی اور ان کے علم کی مثال نہیں ہے اور ان کے استقامت علی الحق کی مثال بھی نہیں ملے گی، بہت سارے لوگ آپ کو ایسے ملیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کسی ایک صفت کے ساتھ نوازا ہوگا، مثال کے طور پر کسی میں علم کی صفت ہوگی، کسی کو آپ دیکھیں گے کہ تقویٰ کی صفت ہوگی لیکن اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے جو جامع الصفات ہوتے ہیں، یعنی علم بھی موجود ہو، تقویٰ بھی موجود ہو، استقامت علی الحق بھی موجود ہو، یہ تمام صفات کسی ایک شخصیت میں جمع ہونا اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو نوازتے ہیں اور ایسے ہی بندے ہوتے ہیں جو باطل کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں، باطل کے لیے سد راہ بن جاتے ہیں، گمراہی کے لیے سد راہ ہوتے ہیں، جیسا کہ ابھی حافظ صاحب آپ کے سامنے فرما رہے تھے کہ جمعیۃ علماء اسلام کی یہ خصوصیت ہے کہ ملک کے طول و عرض میں، مشرق سے لے کر مغرب تک، شمال سے لے کر جنوب تک آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے وہ خصوصی بندے جن کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ صفات رکھی ہیں وہ جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ الحمدللہ وابستہ ہیں اور اس کی سرپرستی فرما رہے ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جمعیۃ علماء اسلام حق کی راہ پر پہلے بھی گامزن تھی، اب بھی گامزن ہے اور حق کی راہ پر ان شاء اللہ آئندہ بھی گامزن رہے گی۔

 

علامہ شامیؒ کا عجیب استدلال:

 

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ شامیہ کے مقدمہ میں جہاں امام ابوحنیفہ کے فضائل اور مناقب بیان کیے ہیں، وہاں امام اعظمؒ کی حقانیت کے لیے ایک بات یہ ذکر کی ہے کہ روئے زمین پر امام ابوحنیفہؒ کے زمانے سے لے کر اب تک جو اولیاء گزرے ہیں اور علم باطن و علم اسرار کے جتنے ماہرین گزرے ہیں عجیب اور تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ امام اعظم کے مقلد اور حنفی مسلک سے وابستہ ہیں۔ علامہ شامیؒ فرماتے ہیں کہ اگر امام ابو حنیفہؒ کے اجتہاد میں، فقہ میں کوئی غلطی ہوتی تو یہ اولیاء کرام امام ابوحنیفہؒ کے اجتہاد کے مطابق عبادت کرکے ولایت کے مقام تک نہ پہنچتے اور اگر امام صاحب کے طریقہئ اجتہاد میں کوئی غلطی ہوتی تو یہ لوگ جو علم باطن اور اسرار کے ماہرین ہیں، جن پر اللہ تعالیٰ کشف کرتے ہیں، کبھی یہ امام ابوحنیفہ کے مقلد اور مذہب پر قائم نہ رہتے۔

 

اولیا کا تعلق جمعیۃ سے ہے:

 

اسی طرح میں عرض کرتا ہوں کہ جمعیۃ علماء اسلام پر ہر دور میں اللہ تعالیٰ کا خاص کرم رہا ہے کہ بڑے بڑے اولیاء اس کی سرپرستی فرماتے رہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ جمعیۃ کے حق پر ہونے کی دلیل ہے، خدانخواستہ اگر کسی بھی وقت کسی بھی لمحے اور کسی بھی دور میں یہ جمعیۃ علماء اسلام راہ حق سے ہٹی ہوئی ہوتی تو مجھے سو فیصد یقین ہے کہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؒ بیر شریف والے کبھی بھی جمعیۃ کے ساتھ وابستہ نہ ہوتے۔

 

جمعیۃ شیطانی قوتوں پر غلبہ پائے گی:

 

آپ جانتے ہیں ان کی درویشانہ زندگی کو، ان کے مجاہدانہ کارناموں کو، جن لوگوں نے ایک دفعہ بھی ان کی زیارت کی ہے وہ جانتے ہیں کہ حضرتؒ ان لوگوں میں سے تھے کہ پوری کی پوری دنیا ایک طرف رکھ دی جاتی اور یہ پیشکش کی جاتی کہ یہ پوری دنیا آپ کو دے دی جائے گی آپ فلاں باطل اور ناجائز طریقے کی حمایت کریں تو میرا دل گواہی دیتا ہے کہ حضرتؒ پوری دنیا پر لعنت بھیجتے اور کبھی بھی باطل کی حمایت نہ کرتے، ظاہر ہے کہ جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ ان کی وابستگی صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے تھی اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ ہمارے اکابر کا وہ عظیم قافلہ ہے جو ان شاء اللہ چلتے چلتے آخر میں حضرت مہدی کے ساتھ وابستہ ہوگا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگااور جدوجہد کرتے ہوئے شیطانی قوتوں پر ہم ان شاء اللہ غلبہ حاصل کریں گے۔

راہ حق کی جماعت 

 

مفتی نظام الدین شامزئی رح

 

مختصر سی بات عرض کر رہا ہوں، یہ بات میں کئی جگہ عرض کر چکا ہوں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دو انبیاء کی دعائیں ذکر فرمائی ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ انبیاء بھی وہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت کے ساتھ ساتھ دنیا کی بادشاہت بھی عطا فرمائی تھی، ایک حضرت یوسفؒ کہ جن کو نبوت بھی ملی اور بادشاہت کے ساتھ مصر کی حکومت بھی ملی، حضرت یوسف علیہ السلام کو جب یہ ساری نعمتیں ملیں تو قرآن کریم ہمیں بتلاتا ہے کہ انہوں نے آخری خواہش کے طور پر اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلا کر یہ دعا فرمائی۔

فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ

(سورۃ یوسف آیت۱۰۱)

کہ اے زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے، آپ ہی میرے کارساز ہیں۔ دنیا اور آخرت میں، اس کے ساتھ ساتھ اس سے پہلے فرمایا کہ

رَبِّ قَدْ ٰاتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَ عَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ

(سورۃ یوسف آیت۱۰۱)

اے اللہ تبارک و تعالیٰ آپ نے ملک بھی عطا فرمایا، خوابوں کی تعبیر کا علم بھی عطا فرمایا، نبوت بھی عطا فرمائی، اب آخری خواہش یہ ہے کہ

تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ

اے اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے موت دے دیں اسلام کی حالت میں کہ میں آپ کا فرمانبردار رہوں اور مجھے صالحین کے ساتھ ملحق فرما دیں۔

یہی بات میں عرض کرنا چاہتا تھا کہ یہ ”الحاق بالصالحین“ یعنی صالحین کے ساتھ ہونا یہ اللہ تعالیٰ کی اتنی بڑی نعمت ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام جن کو اللہ تعالیٰ نے نبوت بھی عطا فرمائی، بادشاہت بھی عطا فرمائی لیکن آخری خواہش کے طور پر یہی دعا فرما رہے ہیں۔

اسی طرح کی دعا حضرت سلیمان علیہ السلام کی بھی نقل فرمائی اور اس دعا کے الفاظ بھی اس سے ملتے جلتے ہیں، آخری الفاظ یہ ہیں کہ

وَ اَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَ

(سورۃ النمل آیت۹۱)

ہمارے جتنے دوست احباب جمع ہیں، علماء کرام سے وابستگان میں سے ہیں، عہدیدار ہیں، کارکن ہیں، محبین ہیں۔ ان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس نعمت پر شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی وہ نعمت جس کی دعا انبیاء کرام فرماتے تھے وہ نعمت اللہ نے انہیں عطا فرمادی ہے۔

 

خطبات شامزئی رح

 

 

Facebook Comments