یوم وفات، مجاہد ختم نبوت،بابائے جمعیت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ تعالی علیہ،آپ کی امت مسلمہ اور پاکستان کیلئے پیش کی گئی گراں قدر خدمات کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ

تحریر

حافظ مومن خان عثمان

حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی جون 1896ء کو بفہ ضلع مانسہر ہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام حکیم سید گل صاحب ہے۔1914ء میں مڈہ کا امتحان پاس کیا اسی دوران ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد سے حاصل کرتے رہے اعلیٰ تعلیم کیلئے 1915ء میں دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب کے فیضان صحت سے فیضیاب ہوئے۔ 1337ھ (1918ء)میں علامہ انور شاہ کشمیری سے دورہ حدیث پڑھ کر سند فراغت حاصل کی۔فراغت کے بعد مولانا حبیب الرحمن عثمانی مہتمم دارلعلوم دیوبند کے حکم پر دوسال معین مدرس کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبند میں پڑھاتے رہے

*جمعیت علمائے ہند میں شمولیت اور جہدمسلسل*:1919میں جب جمعیت علمائے ہند وجود میں آئی تو حضرت ہزاروی نے نہ صرف جمعیت علمائے ہند میں شمولیت اختیار کی بلکہ ا س کی طلبا ء کی ایک شاخ(سٹوڈنٹ ونگ)جمعیت الطلبا کے نام سے قائم کی۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کو جمعیت الطلباکاصدر اور حضرت ہزاروی کو جنرل سیکرٹری چناگیا مولانا شبیر احمد عثمانی کے اشارے پر مولانا ہزاروی نے مختلف صوبوں کا دورہ کیا اور جمعیت علمائے ہند کیلئے کام کیا مولانا ہزاروی نے انگریزوں کے خلاف سخت تقاریر کیں جس پر ”لندن ٹائمز“نے کافی تشویش کا اظہار کیا۔تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات کے دوران حضرت ہزارویؒ دارالعلوم دیوبند میں پڑھارہے تھے آپ نے وہاں دوسال پڑھایا آپ نے ان تحریکوں کی حمیت کی اور ان کے لئے دوسرے علماء کیساتھ مل کر کام کیاآپ کو انہی خدمات کے صلہ میں جمعیت علمائے سرحد(جمعیت العلمائے ہند کی صوبائی شاخ)کی ایگزیکٹو کمیٹی کاممبر بنایاگیا۔اپریل 1934میں جمعیت علمائے ہند نے مفتی کفایت اللہ دہلوی کی زیر صدارت پشاور میں شریعت کانفرنس منعقد کی یہ کانفرنس شریعت بل کے حق میں ترتیب دی گئی تھی جمعیت کے تمام مقامی کاکنوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔مولانا ہزاروی نے بحیثیت ممبر ایگزیکٹوکمیٹی جمعیت علمائے سرحداس کانفرنس میں شرکت کی پھر آپ اسی کانفرنس میں ورکنگ کمیٹی کے رکن بھی منتخب ہوئے۔شریعت بل کوجمعیت علمائے ہند نے تیارکیاتھا1934میں صوبہ صرحد کی مجلس قانون ساز نے اسے پاس کیا اور اس طرح یہ بل شریعت ایکٹ بن گیا اس کامیابی سہرا جمعیت علمائے سرحدکے سر تھا اور اس وقت جمعیت میں مولانا ہزاروی پیش پیش تھے جن کی انتھک جدجہد کے نتیجے میں یہ سب ممکن ہوسکا۔22ستمبر1945کو بفہ بازار میں کانگریس کا ایک جلسہ برہ خان کی صدارت میں منعقد ہوا۔مولانا غلام غوث ہزاروی نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ انگریز یہ چاہتے ہیں کہ آنے والے الیکشن میں مسلمان مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دیں۔مولانا نے جناح اورمسلم لیگ دونوں کوتنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لوگوں سے وعدہ لیا کہ وہ کانگریس کو ووٹ دیں گے تمام لوگوں نے ہاتھ اٹھاکر وعدہ کیا کہ وہ کانگریس کو ووٹ دیں گے۔1930کوکانگریس کا اجلاس بفہ (ضلع مانسہرہ)میں منعقد ہوا جس میں مولانا غلام غوث ہزاروی نے بھی شرکت کی اجلاس کوحکیم عبدالسلام ہری پور،غلام ربانی لودھی،مولانا خان میرہلالی پشاوری اور ملک فقیراخان آف ملک پور نے ترتیب دیا تھا بفہ اور اس کے گردونواح میں ملک فقیراخان اور مولانا غلام غوث ہزاروی کی وجہ شہرت سے جلسہ بڑاکامیاب ہوا۔مئی1931کو مولانا غلام غوث ہزاروی کو پشاور کانگریس کی مقامی رضاکاروں کی کور کاحولدار منتخب کیاگیا۔ستمبر 1931کی سی آئی ڈی رپورٹ کے مطابق مولانا غلام غوث ہزاروی کی تجویز پر ہزارہ کے لئے ”افغان جرگہ“کی ایک شاخ بنائی گئی جس کا ”امیرشریعت“مولانا غلام غوث ہزاروی کوچناگیا جرگہ تمام جرائم کے فیصلے شریعت کے مطابق کرتا تھا۔سول نافرمانی کی تحریک میں جب انگریز حکومت نے حاجی فقیراخان کو گرفتار کیا تو28ستمبر1931کو مولانا ہزاروی نے بفہ میں ایک بہت بڑی ریلی منعقد کی اور اپنی تقریر میں لوگو ں سے کہا کہ تمام لوگ ایبٹ آبادجیل کے سامنے احتجاجاًبیٹھ جائیں اور اس وقت تک نہ اٹھیں جب تک فقیراخان کے تمام مطالبوں کو مان نہ لیا جائے اس پرپچاس پچپن آدمی جھنڈے اُٹھائے ہوئے میاں عبدالقیوم بفوی کی قیادت میں ایبٹ آباد کی طرف چل پڑے لیکن ایبٹ آباد کی حدود میں داخل ہونے پر ان کا راستہ روک لیاگیا۔8ستمبر1934کومسجد قاسم علی خان پشاور میں مولانا ہزاروی نے جمعیت علمائے ہند کی پالیسی کے حق میں مفصل دلائل 7دسمبر1934کو جامع مسجد بفہ میں مولاناہزاروی نے خطاب کرتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ وہ متحد ہوکر شریعت بل کو دستورساز کونسل کے اجلاس میں پاس کرانے کی کوشش کریں۔3جولائی 1935کو مردان میں مولانا ہزاروی نے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ وہ متحد ہوکر شریعت بل کو اگلی دستور ساز کونسل کے اجلاس میں پاس کرانے کی کوشش کریں۔22فروری1940کی رات کو پشاور میں جمعیت علمائے ہند کا اجلاس ہواجس میں جمعیت کے چھ سو رضاکاروں نے شرکت کی ان میں دوسوپندرہ افراد مجلس احرارکے تھے مولانا ہزاروی نے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ جمعیت علمائے ہند نے اعلان کیاہے کہ انگریزوں کی فوج اور پولیس میں ملازمت مسلمانوں کیلئے حرام ہے ہم اس اعلان کے ساتھ متفق ہیں اور اس پر ثابت قدم رہیں گے  

 مجلس احرار:

1929ء میں مجلس احرار قائم ہوئی تو اس میں شمولیت اختیارکی1930کوکانگریس کا اجلاس بفہ (ضلع مانسہرہ)میں منعقد ہوا جس میں مولانا غلام غوث ہزاروی نے بھی شرکت کی اجلاس کوحکیم عبدالسلام ہری پور،غلام ربانی لودھی،مولانا خان میرہلالی پشاوری اور ملک فقیراخان آف ملک پور نے ترتیب دیا تھا بفہ اور اس کے گردونواح میں ملک فقیراخان اور مولانا غلام غوث ہزاروی کی وجہ شہرت سے جلسہ بڑاکامیاب ہوا۔مئی1931کو مولانا غلام غوث ہزاروی کو پشاور کانگریس کی مقامی رضاکاروں کی کور کاحولدار منتخب کیاگیا۔ستمبر 1931کی سی آئی ڈی رپورٹ کے مطابق مولانا غلام غوث ہزاروی کی تجویز پر ہزارہ کے لئے ”افغان جرگہ“کی ایک شاخ بنائی گئی جس کا ”امیرشریعت“مولانا غلام غوث ہزاروی کوچناگیا جرگہ تمام جرائم کے فیصلے شریعت کے مطابق کرتا تھا۔ 1941ء میں مجلس حرار کے ڈکٹیٹر مقررہوئے اور گرفتاری پیش کی1935ء کی تحریک ختم نبوت میں تمام قیادت کی گرفتاری کے بعد آپ نے قیادت سنبھالی اور خفیہ طریقے سے کامیاب تحریک چلائی اسی دوران آپ کی گرفتاری کے لئے انعام مقررہوا،اس کے بعد آپ کو گولی مارنے کاحکم جاری ہو۔ 

جمعیت علمائے اسلام کا قیام:

اکتوبر 1956کو ملتان میں علماء کا ایک کنونشن منعقد ہواجس میں پانچ سو علمائے کرام نے شرکت کی اس اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام کی تشکیل نو ہوئی مولانا احمد علی لاہوری کو امیرمنتخب کیاگیا مولانا غلام غوث ہزاروی کو ناظم اعلی اور مولانا مفتی محمود کو نائب امیر مقرر کیا گیا۔مولاناہزاروی نے مستحکم بنیادوں پراپنی پارٹی کو منظم کیا اور بیرون دہلی دروازہ ایک پرانی عمارت کے چھوٹے سے کمرے میں جمعیت کا مرکزی دفتر قائم کیا گیادوماہ کی محنت کے بعد جمعیت کی سینکڑوں شاخیں بن گئیں اور بڑے بڑے شہروں میں دفاتر کھول کر کام شروع کردیاگیا۔جمعیت نے ترجمان اسلام نامی رسالہ۔26جون 1957کو جاری کیا یہ رسالہ 1958کے وسط میں کچھ وقت کے لئے سہ روزہ بھی نکالاگیا تاہم اس کی زیادہ تر اشاعت ہفت روزہ ہی رہی۔جب ایوب خان نے مارشل لاء نافذکرکے تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی تو اکابرینِ جمعیت نے نظام العلماء کے نام سے اپنی جدجہد کا آغازکیا۔نظام العلماء کی سرگرمیاں بالاآخر حکومت وقت کے لئے چیلنج بننے لگیں اور اس نے پہلا وار کردیا۔ 23اگست1960 کو حکومت مغربی پاکستان نے سیفٹی ایکٹ کے تحت ایک نوٹس کے ذریعہ مولاناغلام غوث ہزاروی کو 6 ماہ کے لئے میونسپل کمیٹی لاہور کی حدود میں نظر بندی کا حکم جاری کیا اور ہر قسم کی تقریر تحریر و اجتماعات میں شرکت سے منع کردیا۔ چنانچہ فوراً ہی نظام العلماء کی مجلس شوری ٰ کا ہنگامی اجلاس24 اپریل 1961 کو لاہور میں بلایاگیا۔ اور مختلف تجاویز کے ذریعہ حکومت سے کہدیا گیا۔ کہ وہ اسلام کے احکام میں مداخلت کی روش اختیار نہ کرے۔ مولانا غلام غوث ہزاروی کے خلاف ساہیوال میں ایک مقدمہ درج کیاگیا۔ اور انہیں پھر ایک نوٹس کے ذریعہ 6 ماہ کے لئے حدود لاہور میں پابند کردیاگیا اور اس کے بعد علماء کی گرفتاریوں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔رحیم یا ر خان میں مولانا غلام ربانی گرفتار کیے گئے۔ مولانا گل بادشاہ امیرجے یوآئی سرحد۔ مولانا محمد لقمان علی پوری۔ مولانا دوست محمد قریشی۔ مولانانور الحسن شاہ بخار ی وغیرہ متعدد علماء کو پابندیوں کے نوٹس ملے اور مقدمات قائم ہوئے ۔

1970کے لیکشن میں حضرت ہزاروی کی کاوشیں:

1970کے انتخابات میں مولانا غلام غوث ہزاروی نے پورے ملک میں الیکشن مہم چلائی پورے ملک کے دورے کئے جمعیت کا پیغام پہنچایا اور جمعیت پر لگائے گئے الزامات کا منہ توڑ جواب دیا مولانا اپنی پارٹی کے ایک مقرر کی حیثیت سے بہت سے عوامی جلسوں سے خطاب کیاانہی خدمات کے سلسلے میں مولانا کو”بابائے جمعیت“کا خطاب دیاگیا۔حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی نے 1970کے انتخابات میں پورے ملک کے دورے کئے مختلف جلسوں سے خطاب اورپریس کانفرنس کے علاوہ دیگر خدمات انجام دیں۔۔17نومبر 1969کوفیصل آبادمیں خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے اغراض ومقاصدپرمفصل روشنی ڈالی۔2جنوری1970کولاہور میں خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی اور مودودی صاحب کی خوب خبر لی۔15جنوری1970کومردان میں خطاب کیا۔19جنوری 1970کوضلع گوجرانوالہ کے چار روزہ دورے پر تشریف لے گئے مولانا نے قلعہ دیدار سنگھ،حافظ آباد،گھگھڑ،واہنڈواورگوجرانوالہ شہرمیں تقریباًآٹھ جلسوں سے خطاب کیا۔

25فروری1970کواکوڑہ خٹک میں خطاب کیا۔ 13تا32مارچ 1970کوحضرت ہزارویؒاور مولانا محمد اکرام نے مشرقی پاکستان کادورہ کیا۔اس دورے میں آپ نے ڈھاکہ۔ٹاؤن ہال،فریدپور،بہنگا،مداری پور،میمن سنگھ،مومن شاہی،اورنامذئیل میں خطاب کرتے ہوئے جمعیت کا پیغام عوام تک پہنچایا۔2اپریل1970کوبالاکوٹ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایاپاکستان کی ساری دولت پر22گھرانے قابض ہیں ہم اس قسم کے ظالمانہ نظام کے مخالف ہیں مولانا ؒنے مودودی صاحب کی بھی خوب خبر لی اور ان کی صحابہ دشمنی کو بے نقاب کیا۔8اپریل1970کو مولانا ہزارویؒ اور مولانا مفتی محمودؒ نے ایبٹ آباد میں دفتر کا افتتاح کیا مفتی صاحبؒ نے پرچم کشائی کی اورہزارویؒ صاحب نے دفترکے قیام کی غرض وغایت پرروشنی ڈالی۔11اپریل1970کو حضرت ہزاروی ؒمولانا مفتی محمودؒ،مولانا عبیداللہ انورؒ، اور مولانا محمد اکرمؒ نے اٹک کادورہ کرتے ہوئے عظیم الشان جلسہ عام سے خطاب کیا۔23مئی1970کو حضرت ہزارویؒ پر حویلیاں میں قاتلانہ حملہ کیاگیا جس میں آپ بال بال بچ گئے۔13جولائی1970کوترنگزئی چارسدہ میں خطاب کیا۔یکم اگست1970کومانسہرہ کے علاقہ بھوکڑمنگ،جبوڑی،

پنجول،سچہ کادورہ کیا3اگست1970کوآپ نے ٹل کوہاٹ میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔6اگست1970کوپشاور میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔8اگست1970کوسرگدھا میں آئینِ شریعت کانفرنس سے خطاب کیا 15اگست1970ضلع سیالکوٹ کادورہ کیا ناروال اور شکرگڑھ میں جلسوں سے خطاب کیا۔ یکم ستمبر1970کو گجرات میں۔11ستمبر1970کوعالم آباد(ضلع راولپنڈی)میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا۔22اکتوبر1970کوبنوں میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے آئین شریعت کانفرنس26.27.28،جون 1970کو بادشاہی مسجد لاہور مین منعقد کی گئی اس کانفرنس قرارداد کے علاوہ ایک گھنٹہ تک مدلل خطاب کیا۔5.6،اگست1970کوجمعیت علمائے اسلام کے تحت کوہاٹ میں آئین شریعت کانفرنس منعقد کی گئی جس میں سوالاکھ افراد نے شرکت کی۔کانفرنس سے مولاناہزارویؒ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا جولوگ ہم پر سوشلسٹ ہونے کا الزام لگاتے ہیں وہ یہوداور امریکی سامراج کے ایجنٹ ہیں۔11.12،اکتوبر1970کو جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے میرعلی کے مقام پرتمام قبائل کی ایک نمائندہ کانفرنس منعقد کی گئی اس کی صدارت وہاں کے امیرمولانا حبیب الرحمن نے کی۔اکابرین جمعیت کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔حضرت ہزارویؒ نے اس کانفرنس سے پرجوش خطاب کیااور اپنے خطاب میں فرمایا:میری چالیس سال سے یہ خواہش تھی کہ مین آپ کی سرزمین پر آؤں جہاں انگریز کے قدم نہیں پڑ سکے جب انگریز یہاں تھے تواس وقت پابندیوں کی وجہ سے یہاں نہ آسکا۔اور اس کے بعد کبھی موقع نہ ملا۔آج قدرت نے مجھے اس سرزمین پر آنے کا موقع دیاہے میں اس پر فخر اور خوشی محسوس کر رہاہوں،بعدازاں ممتازقبائلی رہنماسردار گلریز خان (جس کو لوگ جنگل کا بادشاہ بھی کہتے تھے)نے اپنے وزیروں اور مشیروں سمیت جمعیت میں شمولیت کا اعلان کیا۔حضرت ہزاروی نے جمعیت کاچاندی کا تمغہ اپنے ہاتھوں سے اس کے سینے پر آویزاں کیا اس موقع پر وزیرستان کے پہاڑاور فضا”نعرہ تکبیر اللہ اکبر“اور”جمعیت زند ہ باد“کی صداؤں سے گونج اٹھی۔کانفرنس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔1970کے انتخابات میں مودودی صاحب پورے ملک پر قبضہ جمانے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ظالموں!مودودی آرہاہے کے نعرے لگائے جارہے تھے اس موقع پر مردِقلندرنے درویشانہ نعرہ لگایا۔چوک گھنٹہ گھر گوجرانوالہ میں مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ نے اعلان کیا کہ جماعت اسلامی چار سے زیادہ نشستیں نہ لے سکے گی ایسا نہ ہوا تو میں سیاست سے دست بردار ہوجاؤں گا۔قدرت نے مولانا ہزارویؒ کی بات سچی کردی حدیث شریف میں ہے کہ بہت سے پراگندہ حال اللہ پر قسم کھا لیں تو اللہ ان کی قسم پوری کردیتے ہیں ۔ 1970کے انتخابات میں مولانا ہزاروی نے این اے 42مانسہرہ 2سے الیکشن لڑا۔حضرت ہزارویؒنے مفتی ادریس ایڈوکیٹ اور محمد حنیف خان کوبھاری اکثریت سے ہراکرالیکشن جیتا۔23مئی1970ءکو حویلیاں کے بس اڈہ پر مولانا غلام غوث ہزاروی پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا جس سے مولانا بفضلِ خدا بال بال بچ گئے۔ اس واقعہ نے ملک کی سیاست میں بہت زیادہ بے چینی بڑھادی۔ جمعیت کے حلقوں میں اضطراب پھیل گیا۔ 5جون 1970ءکے ترجمان میں اس واقعہ کی تفصیلات شائع ہوئیں۔ 1970کے انتخابات میں جمعیت علماء اسلام نے صوبہ سرحدسے قومی اسمبلی کی چھ سیٹیں حاصل کیں اور بلوچستان سے ایک سیٹ حاصل کی۔7دسمبر1970کوصوبائی اسمبلی کے انتخابات بھی مکمل ہوگئے مولانا غلام غوث ہزاروی نے ہزارہ کی ایک سیٹ سے نمایاں کامیابی حاصل کی مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کومکمل اکثریت حاصل ہوئی پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی کوبلوچستان اورسرحدمیں نیپ اورجمعیت کواکثریت ملی سرحد میں جمعیت کو5اوربلوچستان میں 3سیٹیں ملیں

 وفات اورتدفین:

3فروری 1981ء کو یہ عظیم مجاہد داعی ئ اجل کو لبیک کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے 4فروری کو نمازجنازہ پڑھی گئی اور بفہ کے قبرستان میں آسودہ خواب ہوئے

Facebook Comments