جے یو آئی بلوچستان کی تاریخی کامیابی

جے یو آئی بلوچستان کی تاریخی کامیابی !!

 

خالد ولید سیفی 

 

قائد ملت اسلامیہ بلوچستان کے پانچ روزہ دورے پر ہیں ، اس موقع پر جے یو آئی بلوچستان نے 8 دسمبر کو ایوب اسٹیڈیم میں بہت بڑا ورکرز کنونشن کا انعقاد کیا ، جو جذبوں اور ولولوں کا سیل رواں اور عزم وعمل کا عہد و پیمان تھا ۔

 

اس کنونشن کی خاص بات بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سابق تین صوبائی وزراء ، حاجی امان اللہ نوتیزئی ، غلام دستگیر بادینی ، میر ظفراللہ زہری سمیت ، دیگر قبائلی و سیاسی شخصیات کی جے یو آئی میں شمولیت تھی ، جبکہ اس سے بھی خاص بات ایک دن قبل 7 دسمبر کو چیف آف ساراوان سابق وزیراعلی بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی کا جے یو ائی میں شامل ہونا ہے ۔

اور سب سے خاص ترین حافظ حسین احمد

 کی واپسی ہے۔۔۔!!

 

یوں اگر دیکھا جائے تو یہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ایک دو دنوں میں کسی بھی جماعت میں اس قدر قدآور شخصیات کی شمولیتیں ہوئی ہوں ۔ 

 

گمان غالب ہے کہ یہ سلسلہ آگے بڑھے گا !

 

 1970 کو ون یونٹ کے خاتمے کے بعد بلوچستان کو ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد صوبائی درجہ دیا گیا ، جس کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں جے یو ائی بلوچستان نے نیپ کے ساتھ مل کر اپنے پارلیمانی سفر کا اغاز کیا ، اس 53 سالہ طویل سیاسی سفر میں آج وہ اس مقام پر کھڑا ہے کہ بلوچستان کے بیشتر سیاسی و صحافتی حلقے اس بات پر اتفاق کرتے نظر آرہے ہیں کہ بلوچستان میں جے یو آئی نہ صرف سب سے بڑی سیاسی و پارلیمانی قوت بن چکی ہے بلکہ اگلی حکومت بھی جمعیت علماء اسلام کی ہی ہوگی ۔ 

 

یقینا” یہ جے یو آئی بلوچستان کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے ، اس کامیابی کے پیچھے طویل سیاسی جدوجہد کی ایک روشن تاریخ ہے ، اس سیاسی جدوجہد کی تاریخ کا درخشاں باب وہ سمت ہے ، جو قیادت کی دوراندیشی ، دانائی و بینائی کے چشمے سے پھوٹا ہے ، کسی جماعت یا فرد کی کامیابی کےلیے محض جدوجہد کافی نہیں ، بلکہ کامیابی میں اہم ترین عنصر سمت کا تعین ہوتا ہے ، درست سمت کے تعین کیے بغیر ہر طرح کی قربانیوں کے باوجود جدوجہد نتیجہ خیز نہیں ہوتی ہیں ۔

 

گزشتہ تیس سال جو گزرے ، مذہبی سیاست کےلیے بہت ہنگامہ خیز تھے ، سوویت یونین کے خاتمے اور بعدازاں افغانستان میں مسلح جدوجہد ( جہاد) کے ذریعے طالبان کی قیادت میں خالص اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا ، اسی دوران کے پی کے میں ایک مخصوص جغرافیے میں نفاذ شریعت کے نام پر ایک اور مسلح تحریک کی اٹھان ہوئی ، جس کے بعد پرجوش مذہبی حلقے اور نوجوان ورکرز کے ذہن میں یہ تصور راسخ ہوا کہ مسلح جدوجہد کے بغیر ملک میں اسلامی نظام کا قیام ممکن نہیں ہے اور وہ منتظر تھے کہ جلد یا بدیر جے یو آئی کے پلیٹ فارم سے پاکستان میں اسلامی انقلاب کےلیے مسلح جہاد کا اعلان ہوگا ۔

 

 یہی وہ موقع تھا کہ بغیر کسی ہچکچاہٹ سے جماعت کی متعین کردہ سمت پر ہی جماعت کی پالیسیاں مرتب کرکے اسے آگے بڑھایا جائے ، یہ مشکل عمل تھا لیکن جے یو آئی قیادت کی نگاہ بلند نے متعین سمت پر توجہ مرکوز رکھی اور ” سیاست کے ذریعے اسلامی انقلاب نہیں آئے گا ” جیسے مضبوط تصور کے ہوتے ہوئے مذہبی حلقے کو یہ باور کرایا کہ طویل سیاسی و آئینی جدوجہد سے ہی ہم اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ۔

 

گزشتہ تیس سال سیاسی اعتبار سے بھی کافی ہنگامہ خیز رہے ، ضیاء آمریت کے خاتمے کے بعد دس سال بھی کنٹرولڈ جمہوریت کے نام نہ ہوئے کہ مشرف کی بدترین آمریت نے پنجے گاڑے ، آئین کے ٹکڑے ہوئے ، سیاسی جماعتوں کو کاؤنٹرکیا گیا ، غیرسیاسی عناصر کے جھتے بناکر انہیں سیاستدانوں کے لبادے پہنائے گئے ، جمہوریت پر یقین رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کو توڑا گیا ، کمزور کیا گیا اور دیوار سے لگاکر حکومت چلانے کی سعی کی گئی ، ملکی ماحول و مزاج کو یکسر غیرسیاسی بنانے کی کوششیں کی گئیں ۔

سیاست کےلیے یہ ایک نازک موقع تھا ، لیکن جے یو ائی نے اپنی سمت میں سفر جاری رکھا ، آئین اور قانون کی بات کو اولیت دی ، نہ کہیں زبان لڑکھڑائی اور نہ کہیں باؤں میں لغزش ہوئی ۔

 

2018 کے انتخابات اپنے دامن میں ایک اور طوفان لے کر آئے ، ایسا طوفان جس کے سامنے کھڑے رہنے کی ہمت شاید ہی کسی کو ہوتی ، ایک ڈاکٹرائن کی تشکیل ہوئی ، ون پارٹی تصور کے فروغ کےلیے تمام سیاسی پارٹیوں کو سیاست سے دیس نکالنے کی پالیسی بنائی گئی ، مذہبی اقدار سے لے کر سماجی روایات کے خاتمے تک اس ڈاکٹرائن کا حصہ بنے ۔

یہ بہت کڑا وقت تھا ، جے یو آئی کی قیادت نے دیگر سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے کی کوشش کی ، ان کی طرف سے چونکہ ، چنانچہ۔۔۔ ہوا تو وہ اکیلے میدان میں نکلی ، دو درجن کے قریب ملین مارچز میں قوم کو اس ڈاکٹرائن کی مکمل کہانی سمجھائی ، ان کے عزائم بتائے اور عوام کے سمندر کو لے کر اکتوبر 2019 کو اسلام اباد کا رخ کیا ، یہ آزادی مارچ ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا جس نے 2018 کی تشکیل شدہ ڈاکٹرائن کی عمارت کی بنیادیں ہلادیں ۔

 

جے یو آئی کو توڑنے اور قیادت کو جان سے مارنے کی بھی کوششیں کی گئیں ، لیکن آج وہ پہلے سے زیادہ مضبوط و توانا ہوکر میدان عمل میں ہے ۔

 

آزادی مارچ کے بعد ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی ہمت بندھی ، مولانا کی قیادت میں پی ڈی ایم کی تشکیل ہوئی ، جس کے بعد اس فاشسٹ منصوبے کا مکمل خاتمہ ہوا جو چار سال تک ملک کی بنیادیں ہلاتا رہا ۔

 

آج جب قدآور اور جہاندیدہ سیاسی شخصیات جے یو آئی میں شامل ہورہی ہیں تو یہ یوں نہیں ہے ، بلکہ گزشتہ تاریخی تسلسل کا نتیجہ ہے ، جس میں طویل جدوجہد ہے ، مشکل ترین حالات میں ثابت قدمی کی لازوال داستان ہے ، اور ایک ٹھوس ، بے لچک ، اگر مگر سے پاک بیانیہ ہے ۔ 

زیرک سیاستدان جے یو آئی کی جدوجہد باالخصوص گزشتہ چار سالہ سیاسی مزاحمت کا بغور مطالعہ کررہے تھے ، ان کے ہر پہلو پر نظر رکھے ہوئے تھے ، جس کے بعد انہیں یہ اعتماد ہوا کہ طویل سیاسی تاریخ کی حامل جے یو آئی ہی وہ واحد پلیٹ فارم ہے جس کی قیادت بغیر کسی لگی لپٹی کےغیرسیاسی قوتوں کے سامنے کھڑے ہوکر اذان سحری بلند کرنے کی ہمت رکھتی ہیں ، تب جاکر ان سیاسی شخصیات نے جے یو ائی کا انتخاب کیا اور اس سے اپنی وابستگی کا اعلان کررہے ہیں ۔

Facebook Comments