قادیانی مسئلے کا آئینی حل اور مولانامفتی محمود ؒ کی خدمات، نعیم آسی مرحوم،بانی مدیرالجمعیۃ

قدرت جب کسی کو سزا دینا چاہتی ہے تو انتظام بھی عجیب وغریب کرتی ہے۔ قادیانیوں کی اسلام اور پاکستان دشمن سرگرمیوں کے باعث مسلمانان ِ پاکستان پہلے ہی بھرے بیٹھے تھے ۔ اُدھر مئی ٧٤ء کے آخری دنوں میں منہ زور قادیانیوں نے ربوہ ریلوے اسٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج (ملتان) کے مسلمان طلبہ کو پیٹ دیا۔ یہ بھس میں چنگاری ڈالنے والی بات تھی۔ ملک بھر میں اس کا شدید رد عمل ہوا۔ چند ہی دنوں میں قادیانیوں کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ شہروں کے شہر اور بستیوں کی بستیاں ناموس مصطفی ۖ کے تحفظ کے لئے میدان عمل میں کود پڑیں۔
١٩٥٣ء کے بعد یہ اس مسئلے پر دوسری زور دار تحریک تھی۔ جب حکومت نے دیکھا کہ یہ سیل بے پناہ کسی طرح نہیں تھمتاتو وہ اس مسئلہ کو قومی اسمبلی میں لے گئی۔
مولانا مفتی محمود نے اس موقعہ پر اسمبلی کے اندر اور باہر جس محنت اور تدبر کے ساتھ یہ معرکہ لڑا، واقعہ یہ ہے کہ وہ انہی کا حق تھا اور بلاشبہ اس پر وہ پوری ملت اسلامیہ کی طرف سے مبارکباد کے مستحق ہیں۔
حزب اختلاف کی قرارداد:
٣٠ جون ٧٤ء کو حزب اختلاف کے ٣٧ ارکان نے ، جن میں سرفہرست حضرت مفتی صاحب کا نام تھا، یہ قرارداد ایوان میں پیش کی:
جناب اسپیکر،
قومی اسمبلی پاکستان
محترمی!
ہم حسب ذیل تحریک پیش کرنے کی اجازت چاہتے ہیں۔
یہ ایک مکمل مسلمہ حقیقت ہے کہ قادیان کے مرزا غلام احمد نے آخری نبی حضرت محمد ۖ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کیا نیز……نبی ہونے کا اس کا جھوٹا اعلان بہت سی قرآنی آیات کو جھٹلانے اور جہاد کو ختم کرنے کی اس کی کوششیں اسلام کے بڑے بڑے احکام کے خلاف غداری تھیں……وہ سامراج کی پیداوار تھا اور اس کا واحد مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کرنا اور اسلام کو جھٹلانا تھا۔
پوری ملت اسلامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار چاہے وہ مرزا غلام احمد مذکور کی نبوت کا یقین رکھتے ہوں یا اسے اپنا مصلح یا مذہبی راہنما کسی بھی صورت میں گردانتے ہوں، دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
ان کے پیروکار ، چاہے انہیں کوئی بھی نام دیا جائے، مسلمانوں کے ساتھ گھل مل کر اور اسلام کا ایک فرقہ ہونے کا بہانہ کرکے اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
عالمی مسلم تنظیموں کی ایک کانفرنس میںجو مکہ المکرمہ کے مقدس شہر میں رابطہ عالم ِ اسلامی کے زیر انتظام ٦اور ١٠ اپریل ١٩٧٤ء کے درمیان منعقد ہوئی اور جس میں دنیا بھر کے تمام حصوں سے ١٤٠ مسلمان تنظیموں اور اداروں کے وفود نے شرکت کی ۔ متفقہ طور پر یہ رائے ظاہر کی گئی کہ قادیانیت اسلام اور عالمِ اسلام کے خلاف ایک تخریبی تحریک ہے جو ایک اسلامی فرقہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہے۔
اب اس اسمبلی کو یہ اعلان کرنے کی کارروائی کرنی چاہئے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار ، انہیں چاہے کوئی بھی نام دیا جائے، مسلمان نہیں اور یہ کہ قومی اسمبلی میں ایک سرکاری بل پیش کیا جائے تاکہ اس اعلان کو مؤثر بنانے کے لئے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر ان کے جائز حقوق و مفادات کے تحفظ کے لئے احکام وضع کرنے کی خاطر آئین میں مناسب اور ضروری ترمیمات کی جائیں۔
اسمبلی کے اندر:
یکم جولائی کو اس مسئلہ کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینے اور کوئی حل تجویز کرنے کی غرض سے قومی اسمبلی کے تمام ارکان پر مشتمل خصوصی کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا۔ ایک ”رہبر کمیٹی ” قائم ہوئی۔ ” حزب اختلاف” نے ”رہبر کمیٹی” کی معرفت تجویز کیا کہ چونکہ اس معاملہ کا ایک فریق قادیانی ہیں، انہیں بھی اسمبلی میں بلانا چاہئے، اور ان کے دلائل سننا چاہئیں تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمارے دلائل سنے بغیر فیصلہ کیا گیا۔
حزب اختلاف کی اس تجویز پر مرزا ناصر احمد اور لاہوری پارٹی کے سربراہ کو اسمبلی میں طلب کیا گیا۔ مرزا ناصر احمد شلوار کرتے میں ملبوس سفید طرے دار پگڑی باندھ کر آئے متشرع سفید داڑھی ۔ جب حضرت نبی کریم ۖ کا اسم گرامی زبان پر لائے تو پورے ادب کے ساتھ درودشریف پڑھتے ، قرآن مجید کی آیت بھی پڑھ لیتے۔سادہ لوح ارکان اسمبلی اس پر بہت ضغطے میں پڑے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ داڑھی والے سفید پگڑی والے جو درود بھی بھیجتے ہیں، آیتیں بھی پڑھتے ہیں، یہ کیسے کافر ہو سکتے ہیں؟ ایسے ماحول میں جبکہ ارکان اسمبلی کے رُخ بالکل مخالف تھے، ان کے ذہنوں کو تبدیل کرنا نہایت کٹھن کام تھا۔ خود مفتی صاحب بیان کرتے تھے کہ:
”یہ مسئلہ بہت بڑا مشکل کام تھا”
خداتعالیٰ نے پورے ایوان پر مشتمل اس خصوصی کمیٹی کے روبرو حزب اختلاف کی ترجمانی کا شرف مفتی صاحب کو عطا کیا جنہوں نے رات رات جاگ کر مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابیں مطالعہ کیں، حوالے نوٹ کئے اور پھر جرحی سوالات کو ترتیب دیا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ جب مرزا ناصر احمد کے طویل بیان کے بعد جرح کا آغاز ہوا تو بقول مفتی صاحب ” ہمارا کام پہلے ہی دن بن گیا۔”
مرزا ناصر پرجرح:
اس روز نمائندگانِ اسلام اور نمائندگان ارتداد کے مابین جو سوال وجواب ہوئے ، ان کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:
سوال: مرزا غلام احمد کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟
جواب: وہ امتی نبی تھے۔ امتی نبی کا معنی یہ ہے کہ امت محمدیہ کا فرد جو آپ ۖ کے کامل اتباع سے نبوت کا مقام حاصل کرلے۔
سوال : اس پر وحی بھی آتی تھی؟
جواب: آتی تھی۔
سوال: خطا کا کوئی احتمال ؟
جواب: بالکل نہیں۔
سوال : مرزا قادیانی نے لکھا ہے جو شخص مجھ پر ایمان نہیں لاتا ”خواہ اس کو میرا نام نہیں پہنچا ہو” کافر ہے پکا کافر ہے۔ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس عبارت سے تو ستر کروڑ مسلمان سب کافر بنتے ہیں؟
جواب: کافر تو ہیں، لیکن چھوٹے کافر ہیں جیسا کہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں ” کفر دون کفر” کی روایت درج کی ہے۔
سوال: آگے مرزا نے لکھا ہے ” پکا کافر”؟
جواب: اس کا مطلب ہے اپنے کفر میں پکے ہیں۔
سوال : آگے لکھا ہے ”دائرہ اسلام سے خارج ہے۔”حالانکہ چھوٹا کفر ملت سے خارج ہونے کا سبب نہیں بنتا۔
جواب: دراصل دائرہ اسلام کے کئی دوائر ہیں اور کئی مختلف کڑیاں ہیں۔ اگر بعض سے نکل گیا تو بعض سے نہیں نکلا۔
سوال: ایک جگہ اس نے لکھا ہے کہ جہنمی بھی ہے۔
مفتی صاحب بیان کرتے تھے ”ممبروں نے جب یہ سنا تو سب کے کان کھڑے ہو گئے کہ اچھا ہم جہنمی ہیں۔ اس سے ممبروں کو دھکا لگا۔ وہ سمجھ گئے کہ ہم تو انہیں مسلمان سمجھتے ہیں اور یہ ہمیں کافر قرار دیتے ہیں۔
ادھر نیا سوال آیا:
” کیا مرزا قادیانی سے پہلے کوئی نیا نبی آیا ہے جو امتی نبی ہو؟ کیا صدیق اکبر یا حضرت عمر فاروق امتی نبی تھے؟
جواب تھا ” نہیں”۔
سوال: ”قیامت تک کوئی اور امتی نبی آئے گا؟”
جواب: ”نہیں”
اس پر مفتی صاحب نے کہا:
” پھر تو اس کے مرنے کے بعد آپ کا اور ہمارا عقیدہ ایک ہوگیا ۔ جو ہمارا تصور ہے خاتم النبین کے بارے میں وہی آپ کا بھی ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ ہم حضورۖ کے بعد نبوت ختم سمجھتے ہیں تم مرزا قادیانی کے بعد ایسا سمجھتے ہو۔ تو گویا تمہارا خاتم النبین مرزا غلام احمد ہے اور ہمارے خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
مرزا ناصر احمد: وہ فنا فی الرسول تھے۔ ( معاذ اللہ ) نبی کریمۖ کی اس سے زیادہ توہین اور کیا ہو سکتی تھی۔ منکروں کو ” ذریة البغایہ” کہنے کی بات بھی ہوئی۔ مفتی صاحب نے کہا کہ مرزا قادیانی نے اپنی کتابوں کے بارے میں لکھا ہے:
کتب فینظر الیھا کل مسلم بعین الماحبة والمودة وینتفع من معارفھا ویقبلنی ویصدق دعوتی الاذریة البغایا الذی ختم اللہ علیٰ قلوبھم فھہم لا یقبلون۔
(ان کتابوں کو ہر مسلم اور مودت کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور ان کے معارف سے نفع اٹھاتا ہے مجھے قبول کرتا اور میرے دعوے کی تصدیق کرتا ہے،مگر بدکار عورتوں کی اولاد ، وہ لوگ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے وہ مجھے قبول نہیں کرتے)
مرزا ناصر: بغایا کے معنی سرکشوں کے ہیں۔
مفتی صاحب: بغایا کا لفظ قرآن میں آیا ہے وَ ما کانت امک بغیا ( اور تیری ماں بدکارہ نہ تھی)
مرزا ناصر : قرآن میں ” بغیا” ہے ”بغایا” نہیں
مفتی صاحب : صرف مفرد اور جمع کا فرق ہے۔ نیز جامع ترمذی میں اس مفہوم میںلفظ ”بغایا” بھی مذکور ہے البغایا اللہ تی ینکحن القسھن بغیر ۔۔۔۔ میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اس لفظ ( بغیہ ) کا استعمال اس معنی ( بدکارہ) کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں ہر گز نہیں دکھا سکتے۔”
یہ جرح تیرہ روز جاری رہی ۔ گیارہ دن ربوہ گروپ پر جو مرزا قادیانی کو نبی تسلیم کرتا ہے اور دو دن لاہوری پارٹی پر جو مرزا قادیانی کو مجدد مانتی ہے۔ ہر روز آٹھ گھنٹے جرح ہوئی۔ اس طویل جرح وتنقید نے قادیانیت کے بھیانک چہرہ کو بے نقاب کر دیا۔ حزب اختلاف نے ” ملت اسلامیہ کا ” موقف” کے عنوان سے ٢٠٠ صفحات پر مشتمل ایک مطبوعہ دستاویز ارکان اسمبلی میںتقسیم کی۔
حق تعالیٰ نے اپنے فضل ورحمت کے ساتھ ایسی کایا پلٹی کہ ممبران قادیانیت کا کما حقہ احتساب کرنے پر تل گئے اور انہوں نے مسٹر بھٹو کو صاف کہہ دیا کہ:
” آپ ہمارے سیاسی لیڈر ہیں اور یہ دین ومذہب کا معاملہ ہے”۔
سب کمیٹی :
٢٢ اگست کو حزب اختلاف کے چھ راہنمائوں مولانا مفتی محمود ، پروفیسر غفور، مولانا شاہ احمد نورانی، چوہدری ظہور الٰہی ، مسٹر غلام فاروق اور سردار مولا بخش سومرو اور حزب اقتدار کے مسٹر عبدالحفیظ پیرزادہ پر مشتمل ایک ”سب کمیٹی” کی تشکیل ہوئی۔ سب کمیٹی کے ذمہ یہ کام لگا کہ وہ مذاکرات اور افہام وتفہیم کے ذریعے قادیانی مسئلے کا متفقہ حل تلاش کریں گے۔
٢٢ اگست۔٥ ستمبر کی شام تک اس کے بہت سے اجلاس ہوئے، مگر متفقہ حل کی صورت گری ممکن نہ ہو سکی ، سب سے زیادہ جھگڑا دفعہ ١٠٦ میں ترمیم کے مسئلہ پر ہوا۔ اس دفعہ کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتون کو نمائندگی دی گئی ہے۔ بلوچستان میں ایک ، سرحد میں ایک ، سندھ میں دو اور پنجاب میں تین سیٹیں اور چھ اقلیتوں کے نام یہ ہیں:
عیسائی، ہندو، سکھ، پارسی، بدھ اور شیڈول کاسٹ یعنی اچھوت۔
حزب اختلاف کے نمائندگان چاہتے تھے ان چھ کی قطارمیں قادیانیوں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ کوئی شبہ باقی نہ رہے۔ اس کے لئے حکومت تیار نہ تھی اور ویسے بھی قادیانیوں کا نام اچھوتوں کے ساتھ پیوست پڑتا تھا۔
پیرزادہ نے کہا ” اس کو رہنے دیں”۔
مفتی صاحب نے کہا جب اور اقلیتی فرقوں کے نام فہرست میں شامل ہیں تو ان کے نام بھی لکھ دیں۔
پیرزادہ نے جواب دیا : اور اقلیتی فرقوں کا ڈیمانڈ تھا اور مرزائیوں کا ڈیمانڈ نہیں ہے۔
مفتی صاحب نے کہا کہ یہ تو تمہاری تنگ نظری ہے اور ہماری فراخدلی کا ثبوت ہے کہ ہم ان کے ڈیمانڈ کے بغیر انہیں ان کا حق دے رہے ہیں۔
٧ ستمبر کو اسمبلی نے فیصلہ سنانا تھا ۔ ادھر ” سب کمیٹی” ٥ ستمبر کی شام تک کوئی فیصلہ ہی نہ کر سکی ۔ چنانچہ ٦ ستمبر کی صبح کو مسٹر بھٹو نے مولانا مفتی محمود سمیت سب کمیٹی کے چھ ارکان کو پرائم منسٹر ہائوس بلایا جہاں دو گھنٹے کی مسلسل گفتگو کے باوجود بنیادی نقطۂ نظر پر اتفاق رائے کی صورت پیدا نہ ہوئی۔حکومت کی انتہائی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ اپوزیشن دفعہ١٠٦ میں ترمیم کا مسئلہ رہنے دے۔ اپوزیشن سمجھتی تھی کہ اس کے بغیر حل ادھورا رہے گا۔ بڑی بحث وتمحیص کے بعد مسٹر بھٹو نے یہ جواب دیا:
” میں سوچوں گا اگر ضرورت محسوس ہوئی تو میں دوبارہ بلالوں گا”
عصر کو اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔ پیرزادہ نے مفتی صاحب سمیت دیگر ارکان کو اسپیکر کے کمرے میں بلا لیا ۔ تار دراصل پیچھے سے ہلایا جا رہا تھا۔
اپوزیشن نے اپنا مؤ قف پھر واضح کیا کہ دفعہ ١٠٦ میں چھ اقلیتی فرقوں کے ساتھ مرزائیوں کی تصریح کی جائے اور بریکٹ میں ” قادیانی گروپ اور لاہوری گروپ” لکھا جائے۔
مسٹر پیرزادہ نے کہا ، وہ اپنے آپ کو مرزائی نہیں کہتے احمدی کہتے ہیں۔”
مفتی صاحب نے کہا” ہم ان کو احمدی تسلیم نہیںکرتے احمدی تو ہم ہیں۔” ہم نے کہا ”چلو مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار لکھ دو”۔
پیرزادہ نے نکتہ اٹھایا ، ” دستور میں کسی شخص کا نام نہیں ہوتا۔” حالانکہ دستور میں حضرت محمد ۖ اور قائداعظم کے نام موجود ہیں ۔ اور پھر سوچ کر بولے” مفتی صاحب! مرزا کے نام سے دستور کو کیوں پلید کرتے ہو۔”
مسٹر پیرزادہ کا خیال تھا شاید اس حیلے سے مفتی صاحب ٹل جائیں۔ مفتی صاحب نے فوراً جواب دیا:
”شیطان ، ابلیس اور خنزیر کے نام بھی تو قرآن کریم میں موجود ہیں۔ اس سے قرآن کریم کی صداقت وتقدیس پر تو کوئی اثر نہیںپڑتا۔”
پیرزادہ لاجواب ہو کر کہنے لگے” جو اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔”
مفتی صاحب نے کہا ” بریکٹ بند ثانوی درجہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ صرف وضاحت کیلئے ہوتا ہے ۔ یوں لکھ دو ”قادیانی گروپ، لاہوری گروپ، جو اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔”
اس پر فیصلہ ہوگیا۔

تاریخی فیصلہ :
٧ ستمبر١٩٧٤ء ہماری تاریخ کا وہ یادگار دن ہے جب ٥٣ء اور ٧٤ء کے شہیدان ختم نبوت کا خون رنگ لایا اور ہماری قومی اسمبلی نے اپنی تاریخ میں پہلی بار ملی امنگوں کی ترجمانی کی اور عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔ اس روز دستور کی دفعہ ٢٦٠ میں اس تاریخی شق کا اضافہ ہو ا:
” جو شخص خاتم النبین محمد ۖ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان نہ رکھتا ہو اور محمد ۖ کے بعد کسی بھی معنی ومطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویدار ہو یا اس قسم کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو وہ آئین یا قانون کے ضمن میں مسلمان نہیں ہے۔”
دستور١٠٦ کی شکل یوں بنی:
” بلوچستان ، پنجاب ، سرحد اور سندھ کے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں ایسے افراد کے لئے مخصوص فاضل نشستیں ہوں گی جو عیسائی ، ہندو ، سکھ بدھ اور پارسی فرقوں اور قادیانی گروہ یا لاہوری افراد ( جو اپنے آپ کو ” احمدی” کہتے ہیں) یا شیڈول کاسٹس سے تعلق رکھتے ہیں بلوچستان ۔ ایک، سرحد۔ ایک، پنجاب۔ ٣اور سندھ۔ ٢۔”
ان دستوری ترامیم کے علاوہ یہ تین سفارشات آئیں:
١[…تعزیرات پاکستان کی دفعہ ٢٩٥ الف میں حسب ذیل تشریح درج کی جائے۔
” کوئی مسلمان جو آئین کی دفعہ ٢٦٠ شق ٣ کی تصریحات کے مطابق محمد ۖ کے خاتم النبین ہونے کے خلاف اقرار، عمل یا تبلیغ کرے وہ دفعہ ہذا کے تحت مستوجب سزا ہوگا۔
٢[… متعلقہ قوانین مثلاً نیشنل رجسٹریشن ایکٹ١٩٧٣ئ اور انتخابی فہرستوں کے قواعد ١٩٧٤ئ میں قانون سازی اور ضابطے کے ذریعہ ترامیم کی جائیں۔
٣[…تیسری سفارش عمومی نوعیت کی تھی جس میں دستور میں پہلے دی گئی ضمانت کو دہراتے ہوئے کہا گیا تھا کہ :
”پاکستان کے تمام شہریوں ، خواہ وہ کسی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں ، کے جان ومال ، آزادی، عزت اور بنیادی حقوق کا پوری طرح تحفظ اور دفاع کیا جائے گا۔”
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی ان آئینی ترامیم کے حق میں ایک سو تیس ووٹ آئے ، جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ بھی نہ ڈالا گیا۔
مبارکباد:
اس تاریخی فیصلے کے اعلان کے بعد اسمبلی کے ایوان میں تمام ، اہم راہنمائوں نے اپنے تاثرات بیان کئے۔ مفتی صاحب نے کہا:
” اس فیصلے پر پوری قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔ اس پر نا صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں اطمینان کا اظہار کیا جائے گا۔ مرا خیال ہے مرزائیوں کو بھی اس فیصلے کو خوش دلی سے قبول کر لینا چاہئے۔ کیونکہ اب انہیں غیر مسلم اقلیت کے جائز حقوق ملیں گے۔
جہاں تک کریڈٹ کا سوال ہے، یہ مسئلہ قومی بنیادوں پر تمام تر سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر طے کیا۔ اس مسئلے کے حل میں ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا۔ اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ مجلس عمل نے پروقار جدوجہد جاری رکھی حالانکہ فائرنگ ہوئی، لوگ شہید ہوئے لاٹھی چارج ، گرفتاریوں اور تشدد کے تمام واقعات کے باوجود خود ردعمل کا شکار ہ ہو کر تشدد کا راستہ اختیار نہ کیا۔
سیاسی طورپر تو میںیہی کہہ سکتا ہوں کہ الجھے ہوئے مسائل کا حل بندوق کی گولی میں نہیں ، مذاکرات کی میز پر ہے۔”

Facebook Comments