اسلام آباد قائد جمعیت و سربراہ پی ڈی ایم حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا میڈیا سے گفتگو تحریری صورت میں

ہمارے انتہائی محترم بھائی جناب مصطفیٰ کمال صاحب تشریف لائے ہے میں انہیں دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں اور جس موضوع پہ وہ بات کرنے کے لیے تشریف لائے ہیں وہ ایک اہمیت کا حامل مسئلہ ہے۔ جس طریقے سے بلدیاتی الیکشن کے لیے جو قانون سازیاں کی جارہی ہے صوبہ سندھ یا ہمارے خیبر پختونخواہ میں بھی اس قسم کی افواہیں گشت کررہی ہیں کہ بلدیاتی اداروں کی اختیارات کو اس طرح کم کرنا کہ وہ ایک طرف عوام کے منتخب ہوں گے دوسری طرف آئین ان کو اختیار دے گا اور تیسری طرف صوبائی حکومتیں ان کی اختیارات کو کم سے کم کرکے ان کے اختیارات کو محدود کردے گی جو آئین سے متصادم ہوگا۔ تو مصطفیٰ کمال صاحب اس حوالے سے تشریف لائے ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کی اس موقف میں وزن ہے اور ہمیں ملک کو آئین کے مطابق چلانے کی ضرورت ہے۔ چاروں صوبوں میں جو بھی نظام ہو وہ آئین کے مطابق ہونا چاہیے۔ قانون سازی ہو تو آئین کے مطابق ہونی چاہیے، بلدیاتی ممبران کے اختیارات ہو تو وہ آئین سے متصادم نہیں ہونے چاہیے۔ تو اس حوالے سے انہوں نے جو باتیں کی ہے تو ان شاء اللہ العزیز اس پر مزید بھی صوبہ سندھ میں جمعیت علمائے اسلام اور ان کی جماعت رابطے میں رہے گی، اس پر اتفاق ہوا ہے اور مزید جو باہمی جزیات ہے ان کو باہمی مشورے سے طے کیا جائے گا۔ میں ان کو خوش آمدید کہتا ہوں۔
مصطفی کمال کی گفتگو
جزاك اللهُ‎ خیر میں اپنی جانب سے اور میرے ساتھ جو احباب آئے ہیں ان کی جانب سے مولانا صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ ان کی اس میزبانی کا، ان کی رفقا کی میزبانی کا انہوں نے بڑے تحمل سے ایک تو ہمیں موقع دیا ہماری بات سنی اس کو سمجھے۔ میں برملا یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مولانا صاحب کا اس ملک کے سیاست میں ایک بہت بڑا مقام ہے، رتبہ ہے اور ان کا ایک بہت بڑا رول ہے، اور اللہ تعالی نے ان کو ایک بڑی حیثیت دی ہے اور ان کو ایک کردار دیا ہے اور ہم احترام کرتے ہیں، پاک سرزمین پارٹی احترام کرتی ہے۔ مصطفیٰ کمال مولانا صاحب کی اس سیاسی سوچ بوجھ کا احترام کرتے ہے اور ان کی جو پوری سٹرگل ہے خاص طور پر پچھلے دنوں میں ملک میں جمہوریت کے لیے، قانون کی نفاذ اور ملک کی بہتری کے لیے، اور میں اپنی جانب سے خیبر پختونخواہ میں لوکل گورنمنٹ کے الیکشن میں جے یو آئی کی کامیابی پر ان کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اور میں صرف یہی کہنا چاہوں گا مولانا صاحب نے پوری بات کردی کہ ملک کو کسی کی ذات کے موڈ پر اس کی ایما پر نہیں چلنا چاہیے۔ یہ ملک آئین اور قانون کے مطابق چلنا چاہیے۔ اور آئین اور قانون کے مطابق اٹھارویں ترمیم میں جو وفاق سے صوبوں کو صوبے کے لوگوں کے نام پر، صوبوں کے ڈسٹرک کے نام پر، گاوں شہروں دیہاتوں کے نام پر جو اختیارات اور وسائل دیے گئے ہیں بدقسمتی کے ساتھ سو کالڈ جو ہماری جمہوری قوتیں ہیں جو جمہوری پارٹیاں ہیں جن کے جو وزرا اعلیٰ ہیں وہ ان اختیارات اور وسائل کو وفاق سے لے کر نیچے نہیں دے رہے، ڈسٹرک میں نہیں دے رہے، گلیوں میں نہیں دے رہے، چاہے وہ خیبر پختونخواہ ہو چاہے وہ پنجاب ہو چاہے وہ سندھ ہو یا بلوچستان ہو۔ اور جس کی وجہ سے عام لوگوں میں محرومی پیدا ہورہی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے دشمنوں کو موقع مل رہا ہے کہ وہ محروم ذہنوں کو اپنے لیے استعمال کرے۔ انسان جب ناامید ہوجاتا ہے تو کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں نوجوان خودکشیاں کرنے پر تُل آئے ہیں۔ ایک ایک مہینے میں چار پانچ خودکشیاں ہورہی ہیں۔ ایک ایسا شہر جو پورے ملک کو ستر فیصد ریونیو کماکے دے رہا ہے۔ تو اس کو روکنے کی ضرورت ہے، اس کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ اس وجہ سے ہم یہ گزارشات جے یو آئی کے سامنے جو بڑی پارٹی ہے گوش گزار کیے ہیں۔ کوئی اور ایجنڈہ نہیں ہے کہ ملک میں آئین اور قانون کی بات ہو اور پورے ملک کی بات ہو۔ تو الحَمْدُ ِلله دونوں پارٹیوں کی موقف میں کافی ہم آہنگی ہے اور ان شاء اللہ دونوں پارٹیاں ملکر ملک کے لوگوں کے لیے جو بھی بہتر ہوگا آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر ہم وہ کام کرے گے۔ اور ہم ساتھ مل کر لوگوں کے لیے جدوجہد کریں گے۔ میں ایک بار پھر مولانا صاحب کی مہمان نوازی اور میزبانی کا اور ان کی رفقا کی میزبانی کا شکریہ ادا کرتا ہوں بہت بہت شکریہ۔
👈 صحافی کے سوال پر جواب
دونوں اوپن ہیں
👈 صحافی کے سوال پر جواب
دیکھیے اس کی ساری زندگی اسی پے گزری ہے کہ وہ بڑی آئیڈیل قسم کی باتیں کرتے ہیں لیکن عملی زندگی اس کی آئیڈیل باتوں سے متصادم اور متضاد ہوتی ہے۔ تو اب وہ پھنس گئے ہیں اور باقی پارٹیوں کا تو تم آج تک احتساب کرتے رہے ہو، الیکشن کمیشن جو ہے اس پہ ہمارے خلاف کورٹ گیا ہے، الیکشن کمیشن نے تو ہمیشہ ہماری پارٹیوں کو سالانہ حساب کتاب پیش کرنے پر بار بار خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اور ایک آپ ہیں کہ جس کے بارے میں ہمارے اکبر ایس بابر صاحب گئے ہیں وہ آپ کے پارٹی کے اساسی ممبر ہے۔ اور آپ نے کتنے اکاونٹس چھپائے ہیں وہ حساب دکھائے جائے گا۔ یہ عجیب بات ہے کہ میاں نواز شریف صاحب اپنے بیٹے کی کمپنی کےتنخواہ نہیں لے رہے ہیں تو یہ کیوں چھپایا ہے کہ تنخواہ نہیں لے رہا اور اس پر ان کو نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ تو وہاں پر تو تنکے کی اوپر سزا دی جاتی ہے اور یہاں پر شہتیر ان کے انکھوں میں پڑے ہوئے ہیں اور اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ آج پتہ چلا کہ سارے سیاستدانوں کے کرپشن کو اکھٹا کرکے عمران خان کے کرپشن کے دسویں بیسویں حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتی۔ دوسروں کو بے عزت کرنا ان کی تذلیل کرنا، ان کی تضحیک کرنا ایسا نہ کرو ورنہ ایک دن آئے گا کہ اللہ تمہیں گھر بیٹھے بیٹھے رسوا کرے گا۔ اور یہی کچھ آج ان کے ساتھ ہورہا ہے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یہ شخص الیکشن میں نااہل، الیکشن میں ناجائز طریقے سے آیا ہوا، کارکردگی کے لحاظ سے نااہل، اور میں نے ایک زمانے میں آپ کو پتہ ہوگا ایک جلسے میں کہا تھا کہ باقی تو افراد کے بارے میں سوال ہے کہ انہوں نے چوری کی یا نہیں کی اس کا تو پورا ٹبر چور ہے۔ تو اب پتہ چلا یا نہیں اور ٢٠١١-٢٠١٢ سے میں جو موقف دے رہا ہوں ویسے تو لوگ اسے ایک طوطے کی صدا سمجھتے رہے ہیں، لیکن اس شخص کے بارے میں، اس کی پارٹی کے بارے میں اور اس کے ایجنڈے کے بارے میں اور اس پیچھے جو بین الاقوامی لابی کام کررہی ہے اس پر جو نقطہ نظر میں نے اول دن سے دیا ہے قدم قدم پر آج اس کی تصدیق ہورہی ہے ہر آئے روز ایک ایک آدمی اٹھ کر اسی کا اعادہ کررہا ہے، مجھے اب ان باتوں کی اعادہ کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیوں کہ آج ہر آدمی وہی باتیں کررہا ہے۔ تو ہم کچی گولیوں کا سیاست نہیں کیا کرتے، ہم بڑے نظریاتی قسم کے لوگ ہیں اور ملک کی سیاست میں ہم اپنا ایک کردار رکھتے ہیں۔ تو آج اللہ کی مدد سے جمعیت علمائے اسلام جن کے پاس کوئی مالیاتی وسائل نہیں ہے اور ہم اپنے کارکنوں کے چندوں سے چل رہے ہیں، کوئی بین الاقوامی پیسوں کا کور بھی نہیں لے سکتے، یہاں پر ہم اپنے کارکن کے ایک ایک روپے دو روپے کے چندوں سے کام نکال رہے ہیں، اور جو بھی نیا ایونٹ آتا ہے تو اس کے لیے وقتی چندہ نکال کے کام چلا لیتے ہیں۔ اب ایسی جماعت کو جو اللہ نے آج جو قبولیت نصیب کی ہے اور اس کے طرف لوگوں کی امیدوں کی نظریں اٹھی ہے اور امیدیں وابستہ ہوگئی ہیں۔ ان شاء اللہ ان شاء اللہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے ہماری آج کے بعد بھی یہ کوشش ہوگی کہ ہم عام آدمی کی توقعات پر پورا اتر سکے۔
 
Facebook Comments