سلام آباد: قائدِ جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کا جمعیت راولپنڈی اسلام آباد کے زمہ داران سے خطاب

 
میرے محترم دوستو! جمعیت علماٸے اسلام، اسلام کے عادلانہ نظام اور اِس مقصد کے لیے اعلاں کلمتہ اللّٰہ کے عظیم الشان نصب العین کو لے کر آج جس مقام پہ کھڑی ہے یہ قبولیت اللّٰہ رب العزت کی طرف سے غیبی مدد کی دلیل ہے اور مزید اِس قوت کو آگے بڑھانے کے لیے بھی اللّٰہ کے طرف رجوع کرنے کے ہم محتاج ہیں۔
میرے محترم دوستو! اللّٰہ رب العزت نے جناب رسول اللّٰہﷺ پر اپنی وحی مکمل کی، دین مکمل کیا اور انبیا کرام کا طویل سلسلہ جناب رسول اللّٰہﷺ پر آکر مکمل ہوا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے دین کو مکمل کرنے کا اعلان فرما دیا ”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی“ میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی۔ ہمارے علماٸے کرام دو صورتوں میں اِس کا نتیجہ اخذ کرتے ہیں ایک اکمال دین اور دوسرا اتمام نعمت، اکمال دین قران کریم کی تعلیمات اور احکامات کی صورت میں، جناب رسول اللّٰہﷺ کی تعلیمات اور آپ کے بتاٸے ہوٸے طرز زندگی اور اعمال زندگی اِس کو اکمال دین سے تعبیر کیا ہے لیکن اتمام نعمت کو علماٸے کرام نے تعبیر کیا ہے اِسی دین کی اختلاط سے، اس کی قوت و شوکت سے، تو ظاہر ہے کہ پھر درجہ بدرجہ ہمیں کچھ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ سب سے اولین چیز وہ عبادت و دیانت ہے ” وما امرو الا لیعبدو اللہ مخلصین لھو دین حنفا ویقیمون الصلواة ویون الزکواة وذلک دین القیما“ ” وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون“ اب یہ عبادت و دیانت اِس کا تعلق انسان کی شخصی زندگی سے ہے اور جب آپ عبادت کے جذبے سے اللّٰہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو آپ کو اِس کے لیے خلوت کی بھی ضرورت ہوتی ہے، ایک پرامن ماحول کی بھی ضرورت ہوتی ہے، شور شرابے سے محفوظ خلوت گاہ بھی آپ کو چاہیے کہ شور شرابے اور پراگندگی اور اضطراب اُس میں اللّٰہ کی طرف متوجہ ہوجانے اللّٰہ کی عبادت کا حق ادا کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن یہ سکون یہ اطمینان یہ پُرامن ماحول جب ہم عبادت و دیانت کے لیے اِس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تو اگر ہم زندگی کو اِسی تک محدود کر لیتے ہیں تو پھر یہ رہبانیت کا سبب بنتا ہے اور رہبانیت اسلام کا مزاج نہیں۔
اب جو سکون آپ عبادت کے لیے چاہتے ہیں وہ سکون آپ کی ذات تک کیوں محدود رہے، وہ ایک بند کمرے اور حجرے تک کیوں محدود رہے، وہ صرف محراب تک کیوں محدود رہے، اِس کو پوری سوساٸٹی تک پورے معاشرے تک اور تمام انسان جامع تک اِس کو پہنچانا اور پوری انسانی سوساٸٹی کے لیے ایک پرامن ماحول مہیا کرنا یہ آپ کی عبادت کی برکات ہوگی، اگر آپ یہ چیزیں پبلک کو پہنچاسکے۔ اور ظاہر ہے جب آپ یہ چیزیں پبلک تک پہنچانا چاہتے ہیں اور اِس خوشگوار اور پُرسکون ماحول کو پوری سوساٸٹی میں پھیلانا چاہتے ہیں تو پھر وہاں فتنے بھی ہوں گے، فتنہ پردازیاں بھی ہوں گی، وہاں پر شیطان کا بھی بہت بڑا کام ہوگا، وہاں پر بدامنی بھی ہوگی، وہاں پر جراٸم سے بھی مقابلہ کرنا ہوگا اور انسانی سوساٸٹی کو مظطرب رکھنے والے لوگ، پریشان رکھنے والے لوگ، اُن کے سکون کو چھیننے والے لوگ، اُن سے بھی آپ کو مقابلہ کرنا ہوگا اور پوری دنیا کو اَمن کا ماحول دینا، اِس کے لیے جدوجہد کرنا، اِس کو آپ کا سیاسی عمل کہتے ہیں۔ ہمیں اِس سیاسی عمل کے طرف آگے بڑھنا ہوگا، اِس کے اندر آپ جب امن قاٸم کرنے کی کوشش کریں گے، تو اَمن سے انسانی حقوق وابستہ ہوتے ہیں، اور انسانی حقوق تین چیزوں کے اندر گھومتے ہیں انسان کی جان، انسان کا مال، انسان کی عزت و آبرو، اور پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی قوانین بنتے ہیں اور قانون سازیاں ہوتی ہے وہ انسان کے اِن تین چیزوں کے تحفظ کے لیے ہوتی ہے اِس سے باہر کچھ نہیں، ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ دوسری دنیا وہ اپنی اجتماعی زندگی کا آغاز قانون سے کرتے ہیں اور اسلام اجتماعی زندگی اور باہمی تعلقات کا آغاز وہ اخلاقیات سے کرتا ہے، یہی امتیاز ہے۔
تو اِس لیے عبادت و دیانت انسان کے اندر ہونی چاہیے اور اِس کے برکات پوری انسانیت تک پہنچنی چاہیے ” ولقد کرمنا بنی ادم و حملناھم فی البر و البحر ورزقنھم من الطیبت وفضلنا ھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلا“ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو شرف عطا کیا، شرف انسانیت جسے کہتے ہیں اور پھر بر و بحر پر اِس کو حاوی کردیا ہے، پھر نظام اِس کے سپرد کردیا ہے اور کاٸنات کی سب سے اچھی نعمتیں وہ انسان کو عطا کی ہے۔ تو یہ ساری چیزیں قران کی تعلیمات ہے جس کے تحت ہمارے آکابر نے سیاسی نظام کو بھی اپنے ہاتھوں میں لیا، اقتدار تک رساٸی اور اقتدار حاصل کرکے عدل و انصاف انسانیت کو قران و سنت کی روشنی میں عطا کرنا یہ جمعیت علماٸے اسلام کے پورے منشور کا خلاصہ ہے۔
ابھی جو میرے سامنے اِس مجلس کا ایجنڈہ بیان کیا گیا تو اِس حوالے سے آپ کو پانچ فروری کا کہا گیا، پانچ فروری پر ہمارا عام طور پر روایات ہے ہم یوم کشمیر مناتے ہیں، کشمیریوں کے ساتھ یوم یکجہتی، لیکن اِس وقت آپ اور ہم جس ماحول میں بیٹھے ہوٸے ہیں ہمارے کشمیر کے مسٸلے کی پوری نوعیت تبدیل کردی گٸی ہے اور اِس کے نتیجے میں میرے کچھ خدشات بھی ہے، خدا کرے میرے خدشات غلط ہو۔ آپ کو یاد ہوگا جب فاٹا انضمام کا سوال اٹھا تھا، اتنے زور و شور سے اٹھایا گیا کہ اسٹبلشمنٹ نے بھی مجھ سے براہ راست رابطہ کیا، حکومت تو تھی ہی وہ اپنی جگہ پہ، اور یہاں پر موجود ایک امریکی نماٸندے نے براہ راست مجھ سے رابطہ کیا یہ جتلانے کے لیے کہ ہم فیصلہ کرچکے ہیں آپ رکاوٹ مت بنے۔ میں نے اُس وقت جو سوالات اٹھاٸے تھے اِس وقت اُس کی تفصیل کی گنجاٸش نہیں ہے، لیکن میں نے ایک بات کی تھی کہ ڈیورنڈ لاٸن پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک نٸی کشیدگی کا سبب بن جاٸے گا، ١٨٩٢ کے معاہدہ گندمق کے تحت برطانوی حکومت اور افغان حکومت کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا سو سال کے لیے یہ ایک عارضی سرحد تھی، جب پاکستان بنا اب تو ہم سرحد پر آگٸے تو انگریز اور افغانوں کے درمیان جو معاہدات ہوٸے تھے وہ کالعدم ہوگٸے اور یہ علاقہ آزاد علاقہ کہلایا۔ بانی پاکستان خیبر ایجنسی میں تشریف لے آٸے، قباٸلی جرگے کے ساتھ بیٹھے قباٸل نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا اور بانی پاکستان نے جواب میں اُن کو وہی پیکج دے دیا پولیٹیکل ایجنٹ کا بھی اور ایف سی آر کے نفاذ کا بھی، اور یہ سلسلہ چلتا آرہا تھا، لیکن جب ہم نے اِس کے سٹیٹس کو ختم کیا تو اِس کی مشابہت کشمیر کے سٹیٹس کے ساتھ تھی، ہمارے آٸین کے آرٹیکل ٢٤٧ کے تحت فاٹا کو سپیشل سٹیٹس حاصل تھا اور ہندوستان کے آٸین کے آرٹیکل ٣٧٠ کے تحت کشمیر کو سپیشل سٹیٹس حاصل تھا۔ یہاں پر آٸین پاکستان اِس خطے میں غیر موثر تھا وہاں دستور ہند کشمیر میں غیر موثر تھا، یہاں پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کرسکتی تھی، وہاں پارلیمنٹ کشمیر میں قانون سازی نہیں کرسکتی تھی، یہاں کے چیف ایگزیکٹیو کے اختیارات وہاں نہیں چلتے تھے، وہاں چیف ایگزیکٹو کے اختیارات کشمیر میں نہیں چلتے تھے، یہاں صدر مملکت بہ وساطت گورنر کے فاٹا کے نظام کو چلاتا تھا اور وہاں پر قانونی تبدیلیاں کرتے اور وہاں پر صدر جمہوریہ بہ وساطت وزیراعلی کے، اور اسمبلی وہاں اپنا قانون خود بناتی، یہ مشابہت تھی۔
اِس تمام تر مشابہت کو سامنے رکھتے ہوٸے ہم نے کہا کہ اگر ہمارا کشمیر کے مسٸلے پر سٹینڈ ہے کہ ہمیں استصواب راٸے کی طرف جانا ہے تو پھر یہاں پر بھی کرو تاکہ دنیا کے سامنے ایک حوالہ آجاٸے ایک ریفرنس ہوجاٸے، جس طرح صوبہ سرحد کے پاکستان میں شمولیت کے ریفرنڈم کا ایک حوالہ ہے، یہ بھی ایک حوالہ ہوجاٸے گا اور وہ کشمیر پر آپ کے موقف کو متاثر نہیں کرے گی ورنہ پھر یہ مسٸلہ خراب ہوجاٸے گا، انضمام کردیا گیا اور سرحد پر ہمارے طرف سے کانٹے دار باڑ لگا دیا گیا۔ اب دو راٸے بن گٸی ایک یہ کہ انضمام سے ڈیورنڈ لاٸن کا مسٸلہ حل ہوجاٸے گا، دوسرا یہ کہ انضمام سے ڈیورنڈ لاٸن کا مسٸلہ از سر نو پیچیدہ ہوجاٸے گا۔ دو راٸے تھی، ہماری راٸے قبول نہیں کی گٸی اور ہم حکومت کے اتحادی ہونے کے باوجود اپنی گورنمنٹ کو نہیں منوا سکے۔ بغیر ڈیبیٹ کے ترمیم آٸی اور اِس آرٹیکل کو اڑا دیا گیا۔ آج جو نتاٸج ہم دیکھ رہے ہیں ایک تو فاٹا میں کوٸی نظام نہیں، ڈپٹی کمشنر کو سمجھ ہی نہیں آرہی میں نے کرنا کیا ہے، ایس پی چلا جاتا ہے اُس کے پاس پولیس نہیں، پرانے خاصہ داروں کو وردی پہناتے ہیں اُن کی تربیت نہیں، پورے فاٹا میں لینڈ ریکارڈ نہیں ہے، پٹواری جاٸے گا تو کرے گا کیا، فاٹا کے علاقے تک اگر ہم نے عدالتوں کو توسیع دے دی ہے وہ فوجداری کیس تو سن سکے گا لیکن دیواری کیس نہیں سن سکے گا کیوں کہ وہاں پر کوٸی مسٸلہ ہی نہیں ہے تو وہ کیا کرے گا، کوٸی ڈیڑھ فیصد لینڈ ریکارڈ جس کا انگریز کے زمانے میں بندوبست ہوا تھا بس وہی ہے اور کچھ نہیں۔
اب ایسی صورتحال میں جب کہ آپ وہاں نظام بھی نہ دے سکے ہم نے اُن سے وعدہ کیا تھا کہ ہر سال سو ارب روپے دس سال تک دیں گے یعنی ایک ہزار ارب روپے، ابھی ہم چوتھے سال میں داخل ہورہے ہیں اور میری معلومات کے مطابق ابھی تک ہم نے اُن کو ساٹھ ارب روپے بھی ادا نہیں کیے۔ دوسرے اداروں کے کچھ فنڈ ہم اُدھر منتقل کررہے ہیں جس کا کوٸی حساب کتاب ابھی تک قوم کے سامنے نہیں رکھا گیا ہے۔ در بدر ہوگٸے، پورے قباٸل کو مہاجر بنادیا۔ کراچی سے لے کر کوہستان تک آج قباٸلی اپنے ملک میں مہاجروں کی زندگی گزار رہے ہیں، اُن کی ماٸیں، بہنیں، بیٹیاں در بدر پھر رہی ہیں۔ ایک باعزت قوم کو اِنہوں نے گلی کوچوں میں بھکاری بنادیا، وہ کیا کرتے۔ تو آج اِس صورتحال میں کشمیر کا مسٸلہ کھڑا ہے۔
میرے ساتھیو! میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر انسانی حقوق انسانی حقوق کی بات کرے تو فاٹا کے انسانی حقوق کی بات کیوں نہ کرے، یہ تو ہم پہلے سے کررہے ہیں، فلسطینیوں کے بارے میں کیوں نہ کرے وہ تو ہم کررہے ہیں۔ جب ہم چیخ رہے تھے کہ برما میں انسانی حقوق کا مسٸلہ پیدا ہوگیا ہے تو پاکستان سمیت پوری دنیا خاموش تھی۔ تو ایسی صورتحال میں نہ ہم جنگ لڑنے کے، اور ہم نے کشمیریوں کو ہندوستان کے حکمرانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، ہم نے اُن کا مقدمہ ختم کردیا ہے اور جو لوگ، جو ج ہ ا د ی تنظیمیں وہاں ج ن گ لڑ رہی تھی سب کو بلا کر انگلی ہلاکر اُن سے کہا گیا کہ خبردار اگر آج کے بعد تم نے کشمیر کی طرف دیکھا بھی تو، یہاں تک ہوا ہے۔ پھر ہمیں کہتے ہیں صاحب ہمارا کشمیر پر موقف برقرار ہے، کوٸی موقف نہیں ہے سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ تم نے کشمیر بیچ دیا ہے اور ابھی نہیں بلکہ عمران خان نے تو الیکشن سے پہلے کہہ دیا تھا کہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرو، جب پاکستان کا ریاستی موقف اقوام متحدہ کے قراردادوں کے حوالے سے ہے، آپ ہوتے کون ہے کہ اپنی طرف سے آپ کسی کو کوٸی فارمولہ دے رہے ہو۔ فارمولے آتے جاتے رہتے ہیں نام پیپرز کے ذریعے جاتے ہیں۔ کہاں کس وقت اِس میں میچیورٹی آتی ہے یہ بعد کی بات ہے، کہاں کس وقت ریاست اِس کو اوپن کرنا چاہتے ہیں لیکن کسی پارٹی کسی فرد کو اپنے طور پر ریاست کو باٸی پاس کرتے ہوٸے ایک موقف دینا اِس کی کوٸی حیثیت نہیں ہے۔ میں بھی کشمیر کمیٹی کا چیٸرمین رہا ہوں، میں بھی فارن افیٸر کمیٹی کا چیٸرمین رہا ہوں۔ میرے بھی کٸی دورے ہوٸے ہیں، انڈیا کے اعلی ترین قیادت کے ساتھ میری ملاقاتیں رہی ہیں، مجال ہے کہ ہم اپنے موقف سے ایک انچ آگے پیچھے بات کرتے تھے۔ واضح طور پر کہتے کہ میں پاکستان کا ایک شہری ہوں میری اگر کچھ بھی نماٸندگی ہے تو جمعیت علماٸے اسلام کی ہے اور فرد یا جماعت اِس کو ریاستی معاملے میں ریاست سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
تو سرکاری طور پر اِس وقت ہے آپ کی پوزیشن یہی ہے۔ لیکن پھر بھی انسان کے حوالے سے ہمارا جو ایک رشتہ رہا ہے میں تو یہ سوال بھی اٹھانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ پنجاب کے سِکھ برادری کو کرتارپور پر اپنے عبادت خانے آنے کی سہولت مہیا کرسکتے ہیں تو کیا ستر سال میں کشمیریوں کے خاندان کو ایک دوسرے کے ساتھ ملنے کے لیے ایسی سہولت مہیا نہیں کرسکتے تھے۔ جہاں بھاٸی ایک ہی برادری کے لوگ دریا کے اِس طرف اور اُس طرف کھڑے ہوکر ایک دوسرے کی آوازیں بھی سنتے تھے ایک دوسرے کو سلام بھی کرتے تھے لیکن بچپن سے لے بڑھاپے تک اور مرنے تک ایک دوسرے سے ہاتھ نہیں ملاسکتے تھے۔
تو اِس حوالے سے ہم پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناٸیں گے تو آپ حضرات کے سامنے یہ پس منظر رکھنا ضروری تھا کہ یہ پس منظر آپ کے ذہنوں میں رہے کہ ہم نے ریاستی سطح پر کشمیریوں کے ساتھ کتنا بڑا غدر کیا ہے۔ تو اپنے پاکستان کے لیے ہم کیا تعبیر کرے کیا یہ انضمام کا کام اُس وقت اِس نیت سے ہورہا تھا کہ ہم نے فوج کو اور دفاعی قوت کو مشرقی سرحد سے مغربی سرحد پر لے جانا تھا اور پھر یہاں مشکلات پیدا کرنی تھی۔ ہمارے نوجوان بھی نماز پڑھ کے اللّٰہ اکبر کا نعرہ لگاٸیں گے اور اُدھر سے بھی اللّٰہ اکبر اور دونوں بھاٸی ج ہ ا د لڑ رہے ہوں گے۔ کچھ پاکستان پر رحم کرو، اپنے بھاٸیوں پر رحم کرو۔
ایک تو اِس حوالے سے میں نے سوچا کہ آپ کو تھوڑا آگاہ کرو کہ ہمارا موقف کیا ہے ہم پاکستان کے اِس ریاستی موقف کے ساتھ ہیں جس کی پاداشت میں لاکھوں کشمیری شہید ہوٸے ہیں، اِس کے لیے وہاں کے ماٶں بہنوں نے قربانیاں دی ہے۔ اور کشمیر ایک انسانی المیہ ہے اب نہ عالمی برادری اِس کا کوٸی نوٹس لیتی ہے نہ ہی اُن کے لیے یہ کوٸی مسٸلہ ہے۔
ہم نے اگر اپنے خارجہ پالیسی کو کامیاب بنانا ہے تو یہ بات یاد رکھے ہم یہاں روزانہ میٹینگز کرتے ہیں آج قومی مالیاتی پالیسی کا اعلان ہوگا، آج قومی سلامتی کے حوالے سے پالیسی کا اعلان ہوگا، بابا قومی سلامتی ہو یا مالیاتی پالیسی ہو ہر دو کے لیے اقتصادی طاقت ریڑھ کی ہڈی ہے اِس کے بغیر نہیں ہوسکتا، اپنے ملک کو اقتصادی لحاظ سے مظبوط کرو، اور جہاں ہمارے ایک سال کے ترقی کا تخمینہ جی ڈی پی گروتھ ساڑھے پانچ فیصد تک پہنچ گٸی تھی اور اگلے سال ساڑھے چھ تک جانی تھی وہاں حکومت تبدیل ہوگٸی اور تبدیلی کیا آٸی کہ ساڑھے پانچ سے ہم زیرو پر آگٸے، یہ ہماری معشیت ہے۔ چاٸنہ کے ساتھ بچہ بچہ کہتا تھا یہ ہمارا دوست ہے اور دونوں کی دوستی ہمالیہ سے بلند ہے، بحر الکاہل سے گہری ہے، شہد سے میٹھی ہے، لوہے سے مظبوط ہے، اُس کو کیسے خاکستر کردیا، اِنہوں نے اُس کو کیسے ملیامیٹ کردیا، اور پھر فلسفہ کیا دیا ہے یہ بھی ذرا دیکھے ایسی عالیشان دماغ پتہ نہیں آپ لوگ کہاں سے پیدا کریں گے کہتے ہیں پاکستان میگا پروجیکٹس کا متحمل نہیں ہے، ہم ماٸیکرو لیول اور میڈیم لیول کے کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ خدا کے بندوں ماٸیکرو لیول جو ہے وہ پبلک ٹو پبلک ہوتی ہے۔ ایک دکاندار اگر انڈے بیچتا ہے تو گاہک آکے انڈہ خرید کر چلا جاتا ہے، منڈی میں جانور خرید لو اور گاوں میں جاکر بیچ دو بات ختم، غلہ منڈی جاو ایک بوری گندم خرید کے گھر لے او اور پیسے اُس کے حوالے کردو اللّٰہ اللّٰہ خیر سے اللّٰہ، بات ختم، سبزی منڈی جاٸے وہاں سے سبزی خرید کے دکان لے آٸے اور اُن کو پیسے ادا کیے یہ ایک خاص لیول جو پبلک ٹو پبلک ہوتا ہے۔ میڈیم لیول آپ ایک ایسا یونٹ بنانا چاہتے ہیں جہاں آپ کو سٹیٹ کی طرف سے کچھ مدد کی ضرورت ہو، جیسا زمینداروں کو قرضوں کی ضرورت پڑ جاتی ہے یا آپ کوٸی چھوٹا کارخانہ لگانا چاہتے ہیں تو یہ آپ ملک کے اندر کچھ فرد جمع ہوکر، پھر وہ گورنمنٹ سے مدد لیتی ہے قرض لے لیتی ہے اور اِس طریقے سے سٹیٹ اور پبلک کے درمیان معاہدات ہوتے ہیں اور یہ سارا کاروباری نظام چلتا ہے۔ اور جو بڑے بڑے میگا پراجیکٹس ہوتے ہیں اُس میں تو ملٹی نیشنل کمپینیاں انوسٹ کرتی ہے اور اُس سے تو نہ چاٸنہ بے نیاز ہے، نہ امریکہ بے نیاز ہے، نہ یورپ بے نیاز ہے سارے دنیا میں یہ نظام چل رہا ہوتا ہے۔
ہمارے جو فلاسفر ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم میگا پراجیکٹس کے متحمل نہیں ہوسکتے، پھر آپ نے کرنا کیا ہے۔ اور وہ جو ستر ارب کی انویسٹمنٹ چین نے پاکستان میں کرنی تھی اُس کو ضاٸع کردیا۔ بجلی کی پیداوار ہے کافی پیداوار ہوٸی ہے، مین جو نیشنل گریڈ ہوتا ہے اُس میں بجلی آگٸی ہے، لیکن اب ٹرانسمیشن لاٸن نہیں ہے تو کس کے اوپر چلاٸے، ٹرانسمیشن لاٸن اُس کی برابر ہونی چاہیے نا، جتنی گاڑی اتنی اُس کے اوپر بوجھ، رکشے کے اُوپر ٹرک کا بوجھ ڈالوگے تو کیسے چلے گا۔ اِس وقت ہمارے صوبہ پختونخواہ میں جو ٹرانسمیشن لاٸن ہے وہ سترہ سو میگاواٹ بجلی کا متحمل ہے اب اگر ہم نے سترہ ہزار تک لے جانا ہے، ہم نے راستے میں اقتصادی اور صنعتی علاقے بنانے ہیں، کارخانے بنانے ہیں، پیداوار بڑھانے ہیں اور چین سے لے کر گوادر تک ہم نے تجارت کرنی ہے اور گوادر سے آگے جاکر سمندر میں ہم نے سعودی عرب تک جانا ہے، اور اِس سے آگے بحر ابحر میں جانا ہے، اور ا،س سے آگے ہمیں افریقہ کی طرف جانا ہے، تو اتنا بڑا بین الاقوامی تجارتی راستہ پاکستان میں بن رہا ہے ہم نے کیوں اِس کو خاکستر کردیا، وہ دوستی جو چین کے ساتھ تھی ایک اقتصادی دور میں داخل ہوگٸی اور اقتصادی دوستی میں بدل گٸی ہم نے اُس کو خاکستر کردیا۔
یہ کیسی خارجہ پالیسی ہم نے بناٸی ہے، ہر پانچ چھ مہینے بعد اتنا بڑا عنوان دے کر شاٸع کردیتے ہیں جیسے لوگ سمجھے کچھ ہونے والا ہے حالاں کہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ آپ کے اِس بلڈنگ کی بنیاد میں کوٸی چیز ہے نہیں اور آپ اتنی بڑی عمارت کھڑی کردے تو یہ زمین بوس ہوجاٸے گی۔ تو اُنہوں نے اِس ملک کی بنیادیں ختم کردی ہے، اِس کا اَساس ختم کردیا ہے۔
اب ظاہر ہے معشیت بنیادی چیز ہے آپ کی معشیت مظبوط ہوگی تو دنیا آپ کے ساتھ ہوگی۔ آپ کو میں مثال دیتا ہوں کسی زمانے میں آپ کو یاد ہوگا ٩٧۔٩٨ میں واجپاٸی وہ وزیراعظم ہند تھے اور اِسی بے جے پی کے پراٸم منسٹر تھے وہ بس میں آٸے مینار پاکستان پر کھڑے ہوکر اِس کی حقیقت کو تسلیم کیا کیوں کہ آپ کی معشیت مظبوط تھی، وہ آپ سے کاروبار کرنا چاہتا تھا۔ آج بھی اُسی بے جے پی کی حکومت ہے لیکن اُس کا جو رویہ پاکستان کے ساتھ ہے وہ بلکل الٹا ہے اس لیے کہ آپ کنگال ہے اُس کو آپ کی کیا ضرورت ہے۔
تو اِس مقام پر ملک کی معشیت پہنچنے سے تو بغاوتیں شروع ہوجاتی ہے یہ تو پاکستان کی قوم ہے جو اپنے وطن سے وفادار ہیں اور ہر قیمت پر وہ پاکستان سے وابستہ رہنا چاہتے ہیں۔ تو اِس محاذ پر بہر حال ہم نے جو کام کیا ہے آپ جماعت کے لوگ ہیں میں آپ کو بتادینا چاہتا ہوں کہ ١٩٩٥ میں میں جب فارن افیٸر کمیٹی کا چیٸرمین تھا چاٸنہ نے ہمیں دعوت دی تھی اور چوں کہ ١٩٩٢ میں سویت یونین ا ف غ ا ن س ت ا ن میں شکست کھا چکا تھا، تو کمیونزم کا نظریہ شکست کھا چکا تھا جس کے اثرات چاٸنہ پر پڑ رہے تھے۔ تو چاٸنہ نے اپنے مستقبل کو دیکھا اور پھر ایک نیا نظریہ انہوں نے بنالیا اور چاٸنہ بھر میں اُنہوں نے چار یا پانچ فری اکنامی زون بناٸے، جہاں پبلک کو سرمایہ کاری کرنے کا حق دے دیا گیا کہ افراد بھی سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ اور جب ہم نے اُن کی یہ ساری باتیں سنی تو ہم نے اُن سے کہا سنیے! آپ نے سمندر میں شنگھاٸی کے ساٸڈ سے اُترنا ہے اور جاپان کے سمندروں میں جانا ہے، تو جاپان کی سمندریں امریکہ کی زیر اثر ہے وہ آپ کے لیے مشکلات پیدا کرے گی، آپ تاٸیوان کی طرف جاٸیں گے تو وہاں آپ کا تنازعہ ہے امریکہ اُس آگ کو اور بڑکاٸے گا، آپ انڈیا کے ساٸڈ پہ جاٸیں گے تو وہاں آپ کے سامنے دو جہاز یوں کھڑے کردیں گے پھر کیا کروگے۔ ایک پاکستان ہے جو آپ کو بلیک میل نہیں کرے گا اور اِدھر سے آپ کو بارہ ہزار کلومیٹر کا سفر کرکے بحیرہ عرب تک آنا ہوگا، اور سمندری رفتار کے ساتھ یہاں سے آپ کو ڈھاٸی ہزار کے فاصلے سے زمینی رفتار کے ساتھ جانا ہوگا، آپ کا ٹاٸم بھی بچتا ہے اور سیدھا آپ گوادر پہنچ کر آگے جاسکتے ہیں۔ اب پوری ایشیا میں بلکہ پوری دنیا میں جو سب سے گہرا ترین بندرگاہ ہے وہ ہمارے گوادر کا ہے، نہ کراچی اِس کا مقابلہ کرسکتا ہے، حالاں کہ کراچی ہمارا اپنا بندرگاہ ہے، نہ دوبٸی اِس کا مقابلہ کرسکتا ہے نہ ایران کی بندرگاہیں اِس کا مقابلہ کرسکتی ہے، اور یہ سب سے مظبوط قسم کا ہمارا تجارتی مرکز بن سکے گا۔ اُس وقت میں نے سات دلاٸل دیے تھے seven reason for the trade via pakistan اُس وقت تو نام سی پیک نہیں تھا اور اُنہوں نے ایک ہفتے کے بعد ہمارے دلاٸل تسلیم کرلیے۔ اور وہاں سے شروع ہوا اور چلتے چلتے چلتے یہاں تک پہنچا۔
اور پھر آپ کو یاد ہونا چاہیے کہ یہ جو مغربی روٹ ہے یہ اُس وقت حکومت کی راٸے نہیں تھی، لیکن ہم نے ٹھیک ٹھاک مقدمہ لڑا اور ژوب سے لے کر گوادر تک ہم نے اِس میں پورے بلوچستان کو کوور کردیا۔ اور وہ علاقے جہاں سے دنیا کو شکایتیں ہیں وہاں پر معاشی مواقع پیدا کرنا تاکہ پبلک میں ایک معاشی خوشحالی آٸے تو پھر لوگ بندوق رکھے اور اپنا کوٸی کاروبار کرے، اور وہاں کے لوگوں کی معشیت بہتر ہو۔ اِن ساری چیزوں کو سامنے رکھتے ہوٸے بالاخر ہم نے اِس میں آج صرف ڈھاٸی سو یا دو سو ساٹھ کلومیٹر سڑک جو اُس وقت ٹیندر ہوچکے تھے وہ بن گٸے ہیں اور اُس کے آگے کچھ نہیں ہے۔ اور اُس کا افتتاح انہوں نے کیا ہے جس کے ساتھ اِن کا کوٸی تعلق ہی نہیں ہے، جیسے پراٸے انڈوں پر مرغی بیٹھ جاٸے پھر اُس کے اوپر کُڑ کُڑ کرے۔
پھر اُس نے کہا کہ آفس کے اندر افتتاح کرنا ہے تو پھر ہم نے کہا جی اِس کا پورا حق اُن کا ہم پر بنتا ہے، تو اپنی جماعت کے سامنے میں نے تجویز کی ہے جو بھی آپ کی راٸے ہوگی، کہ پانچ فروری کو ہم ایک بہت بڑی ریلی کے ساتھ ہکلہ انٹر چینج پہ جاٸے اور وہاں سے آخر تک جاٸے جہاں پر موٹر وے بنا ہے وہاں تک پہنچے (ان شاء اللّٰہ)۔ تو آج کل ہم دو ڈھاٸی گھنٹے میں پہنچ جاتے ہیں پہلے تلہ گنگ میانوالی سے چھ سات گھنٹے لگتے تھے۔
تو اِس طریقے سے پبلک اُس کا افتتاح کرے اور اِس سے اُس کی ویلیو اٹھے گی، کاروباری دنیا متوجہ ہوگی، پبلک متوجہ ہوگی، حوصلہ افزاٸی ہوگی۔ چاٸنہ کی بھی حوصلہ افزاٸی ہوجاٸے تھوڑی سی خوشی ہوگی کہ چلو ہمارے منصوبے کو اتنی قبولیت حاصل ہورہی ہے۔
اِس حوالے سے میں نے سوچا کہ یہ تجویز آپ حضرات کے سامنے رکھو، پھر اُس دن ہم کشمیر کا یکجہتی دن بھی مناٸیں گے اور ظہر کے بعد ہم وہ دوسرا سفر شروع کریں گے۔ اور اِس طریقے سے پھر دس فروری کو فضلا کانفرنس ہورہی ہے۔ مولانا عبد المجید ہزاروی صاحب نے کہا کہ دستار بندی ہوگی یہ بات یاد رکھے دستار بندی والی بات اِس میں نہیں ہے اور نہ ختم بخاری والی بات ہے۔
تو یہ چیزیں مدنظر رہنی چاہیے ان شاء اللّٰہ وہ باقاعدہ ایک علما کنونشن کی شکل ہوگی، ورکرز کنونشن کی صورت ہوگی اور عنوان چوں کہ ہمارے دینی فضلا کرام کا ہوگا تو اُن کا اعزاز بھی ہوگا، اُن کی تکریم بھی ہوگی، اُن کو مبارکباد بھی دی جاٸے گی اور پھر وہ اپنے علاقوں میں جاکر عملی زندگی اپناٸیں گے۔
تو ماشاءاللّٰہ میں ذاتی طور پر اب چوں کہ جمعیت علما کی زمہ دار کی حیثیت سے میرے چالیس سال ہوگٸے اِن چالیس اکتالیس سالوں میں ہمارے جتنے نوجوان فارغ التحصیل ہوٸے ہیں اب تو ضلعوں کو اور تحصیلوں کو اُن نوجوانوں نے سنبھالا ہوا ہے، تو اُن سے تو میرا براہ راست تعارف بھی نہیں ہوتا، لیکن بہر حال میں خوش ہوں کہ علما نکل رہے ہیں اور جماعت کو سنبھال رہے ہیں اور ان شاء اللّٰہ اچھی طرح سنبھال رہے ہیں۔
تو صوبہ پختونخواہ میں جو کامیابی آپ کو ملی ہے تو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ پورے ملک میں عام آدمی کا سوچ اور جذبہ یہ ہے تو اب ان شاء اللّٰہ اگلے مرحلے میں جاٸیں گے، اور اگلے مرحلے میں اِس سے اچھے نتاٸج ان شاء اللّٰہ حاصل کریں گے۔
اللّٰہ تعالی سے مدد لے اور رجوع الی اللّٰہ ہونا چاہیے کہ اللّٰہ کی مدد کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔
تو آپ کی خدمت میں میری یہ گزارشات تھی، اللّٰہ تعالی اِس اجتماع کو قبول فرماٸے اور ایک بار پھر تمام شرکا کو خوش آمدید کہتا ہوں اور آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
 
Facebook Comments