عید قرباں قریب قریب ہے ۔اس موقع پر مسلمان قربانی کرکے ایک عبادت کی ادائیگی سے عہدہ برآں ہوتے ہیں ۔قربانی اپنے پس منظر میں ایک فلسفہ رکھتی ہے ۔ اس فلسفے کی روح کو باقی رکھتے ہوئے اگر یہ عبادت ادا کی جائے تو روح سرشاررہتی ہے۔لیکن اگر اسے ایک تہوار کے طور پر منایا جائے تو عبادت تو ادا ہوجائے گی ۔روح کو وہ تازگی اور سرشاری نصیب نہ ہوگی جو ایک عبادت کی ادائیگی کے بعد ہوتی ہے ۔روح پاک صاف ہو جاتی ہے ۔
ماضی قریب میں جب ہم ابھی شعور کی منزلیں طے کر رہے تھے ، ہوتا یوں تھا کہ قربانی خریدی جاتی ،گاؤں دیہاتوں میں عموما بڑے جانوروں کی قربانی ہوتی تھی ،۔ بکروں اور دنبوں کا رواج کم کم تھا، لوگ عموما اپنی استطاعت کے مطابق جانور خریدتے ،ظاہر ہے ایک عبادت کی ادائیگی کی نیت سے خریدے تو اس پرکسی قسم کا فخر و غرور نہ ہوتا تھا ، ہاں اڑوس پڑوس میں دوسروں کے جانور دیکھنے کے لئے جانے کا رواج ضرور تھا۔ عید سے تین چار دن قبل سے جانور کی خدمت شروع ہوجاتی اور عید کے دن جانور کو ذبح کردیا جاتا،لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے ۔ اب مہنگے سے مہنگا جانور خریدا جاتا ہے ۔پھر گلی محلے میں بلکہ اب تو ڈیجیٹل زمانہ آگیا ہے ۔تو شہر شہر اور ملکوں ملکوں جانوروں کی پبلسٹی ہوتی ہے ،قیمتیں بتائی جاتی ہیں ،طرح طرح کے نخرے کئے جاتے ہیں ،یوں ایک عبادت جس کی بنیاد خالص عبادت پر تھی ، ریا کاری اور فخر کی نذر ہوگئی ، لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں لیکن اصلی مقصد کو بھلا دیا جاتا ہے ۔یوں عبادت تو ادا ہوجاتی ہے لیکن وہ روح کو وہ سرشاری نصیب نہیں ہوتی ۔
اس طرز عمل کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے جو لوگ اس نعمت سے محروم ہیں ،ان کا دل پسیج کے رہ جاتا ہے ۔بڑے تو اپنی مجبوریوں کو سمجھتے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح خود کو سنھبال لیتے ہیں لیکن گھر میں بچے بھی ہوتے ہیں ان کی فرمائشیں شروع ہوجاتی ہیں اور والدین کو پھر اپنے بچوں کی فرمائشیں کسی نہ کسی طرح پوری کرنی پڑتی ہیں ۔
پہلے ہوتا تھا کہ قربانی ہوتی ،سب گھر والے مل کر گوشت بناتے ،گوشت ہانڈی میں رکھ دیا جاتا اور باقی کا گوشت چھوٹے چھوٹے تھیلوں میں ڈال کر محلے داروں ،رشتہ داروں اور اس عبادت کی ادائیگی سے محروم لوگوں میں تقسیم ہوجاتا ،نہ فریج ہوتے تھے نہ لمبی خواہشیں نہ مہینوں مہینوں گوشت کو سنھبالے رکھنے کا رواج ، محلے میں گوشت تقسیم کرنے سے آپس کی محبتوں میں اضافہ ہوتا ، رشتہ داروں میں تقسیم کرنے سے رنجشوں ختم ہوتی ،اپنائیت کا اظہار ہوتا اور ناداروں میں گوشت تقسیم کرنے سے اس نعمت کا عملی شکر ادا ہوپاتا کہ اللہ پاک نے ہمیں نوازا اور ہم نے اللہ کی مخلوق میں تقسیم کیا ۔لیکن اب حالات بدل گئے ،اب گھر گھر فریج اورفریزر آگئے ہیں، سو جو گوشت مختلف لوگوں میں تقسیم کیا جاتا وہ اب فریج اور فریزر کے مختلف خانوں میں فریز کردیا جاتا ہے ۔ محبتیں باٹنے کا ایک موقع ہم نے اپنے ہاتھوں سے ہی گنوا دیا ہے ۔ اللہ کی مخلوق کی خدمت کا فریضہ ہم سے چھن گیا ہے، یوں عید تو وہی ہے جو سالہاں سال سے آتی رہتی ہے ، وہی کچھ کم کرتے ہیں جو سالہاں سال سے کرتے آرہے ہیں لیکن پہلے جو خوشی نصیب ہوتی تھی وہ اب نہ رہی ،وجہ ہمارے بدلتے روئے ہیں ۔
گذشتہ روز جب علاقے کی مویشی منڈی جانے کا اتفاق ہوا تو قیمتوں کا سن کر پہلے تو اپنی قربانی ہوتی دکھائی دی ،آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں ، موٹے موٹے اور فربہ جانور ، وہی منظر سامنے نظر آیا جو عام طور سے رمضان میں نظر آتا ہے کہ کھانے پینے کی ہر چیز مہنگی لیکن دوسری طرف خریداروں کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ مفت کی چیز بٹ رہی ہے اور کسی نے اپنی طاقت نہ دکھائی تو محروم رہ جائے گا ، یہی صورتحال مویشی منڈی کی تھی، ایک آدھ جانوروں پر تو ایک قسم کی بولی لگنی شروع ہوگئی تھی ،وجہ ؟وجہ صرف اور اچھا جانور لے جاکر فخر کا اظہار ،نتیجہ یہ ہے کہ قیمتیں پہنچ سے دور ہوتی جاتی ہیں اور پھر ہم رونا روتے رہتے ہیں کہ مہنگائی زیادہ ہوگئی ہے ۔بنیادی طور مہنگائی کی ایک وجہ ہمارا رویہ بھی ہے ۔
ہمارے دین کی سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ اسے معتدل دین قرار دیا گیا کہ ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کریں ، لیکن ہمارے رویے ہر گز میانہ رو نہیں ، ہم دیکھا دیکھی ،مقابلے اور اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے ہر حد کو پار کرتے ہیں ، یہ انداز عبادات میں بھی پسندیدہ نہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہم عبادات تو کرتے ہیں لیکن وہ عبادات روح سے خالی ہوتی ہے ۔ ہمیں اپنے ان رویوں پر غور کرنا ہوگا ۔عید قرباں کے موقع پر جہاں جانور کی قربانی کرتے ہیں وہی اپنے نفسانی خواہشات کی قربانی بھی کریں تو اس قربانی سے روح کو سرشاری ملے گی۔