Yousaf Khan , a social media activist, Content Writer, Blogger/Columnist been associated with numerous digital media establishments for writing on political and social issues across the globe. To know more about Yousuf Khan , have a look on his Twitter Account @juifpak
اُس پر اعتراض کئے گئے۔۔۔۔۔اُسے گالیاں دی گئیں۔۔۔۔۔اُس کی پگڑی کا مذاق بنایا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔اُس پر آوازے کسے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔اُسے مطلب پرست سیاستدان کہا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔کسی نے اُس کی پالیسیوں کی جہاد سے متصادم قرار دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس پر چار سے زیادہ جان لیوا حملے ہوئے لیکن وہ اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس کے گھر پر راکٹوں کی برسات ہوئی لیکن وہ ملک چھوڑ کر نہیں بھاگا۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس نے ہمیشہ اپنے اکابر کے مشن کی لاج رکھی۔۔۔۔۔۔ اپنوں نے اُس کے خلاف لمبی لمبی تقریریں کی ۔۔۔۔۔۔کتابیں لکھیں ۔۔۔۔۔لیکن اُس نے ان چیزوں پر دھیان نہیں دیا۔۔۔۔۔۔۔ جو اُس کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے اُس نے ان کو بھی سینے سے لگایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یاد ہے وہ لمحہ جب کراچی کے ایک مشہور معروف عالم نے ڈیڑھ گھنٹہ سے زیادہ صرف اُس کی کردار کشی پر تقریر کی اُس کی قربانیوں پر پردہ ڈال کر اُسے مفاد پرست ثابت کرنے پر لگا رہا حقائق سے برعکس وہ تقریر اُس نے بھی سنی تھی ۔۔۔۔۔لیکن مسکردا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کچھ بھی نہ کہا۔۔۔۔۔ پھر وقت نے دیکھا کہ وہی عالم جب ایجنسیوں کے نرغے میں آیا اور اس پر کراچی کی زمین تنگ کی جانے لگی چاروں طرف سے خطرات میں گھرا یہ عالم جب حجاز مقدس میں ۔۔۔۔۔۔ اُس کے سامنے آیا۔۔۔۔۔۔۔ تو وہ مسکرانے لگا اور کہا میں نے آپ کی وہ تقریر سنی تھی ۔۔۔۔۔ لیکن شاید وہ میری اصلاح کے لیے تھی۔۔۔۔۔۔بتاؤ کیسے آنا ہوا۔۔۔۔۔۔ ایجنسیوں نے جینا حرام کردیا ہے۔۔۔۔۔۔ کراچی بہت وسیع۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کی زمین مجھ پر تنگ کردی گئی۔۔۔۔۔۔ جاؤ آج کے بعد کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔۔۔۔۔۔ وہ عالم آگیا وہ آج بھی کراچی میں ہے۔۔۔۔۔۔ علماء آئے وفود آئے حضرت ہمارے جامعہ کی زمین پر سرکار نے دعویٰ کردیا ہے کہتے ہیں کہ گرادیا جائے گا۔۔۔۔۔۔ وہ مرد قلندر اٹھا اس جامعہ کے سامنے اس مسجد کے سامنے کھڑا ہو گیا ایوان اقتدار کےمیں بیٹھے ہوئوں کو کہا کہ یہ جامعہ بھی یہیں رہے گا یہ مسجد بھی یہیں رہے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چشم فلک نے وہ نظارہ دیکھا وہ جامعہ آج بھی وہیں ہے وہ مسجد آج بھی وہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے کہا گیا کہ لال مسجد کو کھلوا دو جامعہ حفصہ بحال کروا دو وہ میدان میں کود پڑا اس نے حکومت سے معاہدہ کروا کر دونوں کو بحال کروادیا ۔۔۔۔۔۔ اس کی کردار کشی کی گئی کہ ہر حکومت کا حصہ ہوتا ہے لیکن اس نے اپنی ذات پر مسجد اور مدرسہ کو فوقیت دی وہ تمام اعتراضات جو اس کی ذات پر کیے گیے جو کیچڑ اچھالا گیا اس نے ان کو جواب کے قابل نہ سمجھا۔۔۔۔۔ اسمبلی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ آواز آئی کہ ناموس رسالت قانون بدل دیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ آواز آئی ہی تھی کہ اسمبلی اُس کی آواز سے لرز اٹھی ۔۔۔۔۔۔ کراچی کے درو دیوار نے دیکھا کہ ایک شخص دیوانہ وار کہ رہا تھا کہ اسمبلی میں بیٹھے یورپ و مغرب کے غلاموں اگر تم نے پوپ بینی ڈکٹ سے معاہدہ کیا ہے کہ اس قانون کو تبدیل کردوگے ۔۔۔۔۔تو سن لو میں نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عہد کیا ہے کہ جب تک جسم میں جان ہے اس قانون کو تبدیل نہیں ہونے دیں گے۔۔۔۔۔۔ اس آواز نے قانون ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کی آوازوں کو دبا کرکے رکھ دیا ۔۔۔۔۔۔۔ ختم نبوت کے قانون کا مسئلہ آیا تو اُس نے جرآت و بہادری کی وہ مثالیں قائم کیں کہ اکابرین ختم نبوت داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد بن قاسم پر آوازیں اٹھیں ۔۔۔۔۔راجہ داہر کو ہیرو بنانے کی کوششیں کی جانے لگیں ۔۔۔۔۔۔ تب بھی وہ سامنے آیا اور ببانگ دہل کہا کہ میرے اکابر کے خلاف بھونکنے والی زبانیں کاٹ دی جائیں گی۔۔۔۔۔۔۔ پاکستانی کی اسلامی شناخت کو بچانے کا مسئلہ ہو یا عورت کو مادر پدر آزاد بنانے کی سازشیں/مدارس پر پابندیوں کا مسئلہ ہو یا علماء کو جیل سے رہائی دلوانے کا مسئلہ۔مساجد پر بے بنیاد چھاپے ہوں یا مدارس کے نصاب کا معاملہ۔وہ ہر محاذ پر ڈٹا رہا۔اُس نے اسلام کا پرچم اٹھائے رکھا۔اُس نے اکابر کا سر فخر سے بلند کیے رکھا/اُس نے دیوبند کے فرزندوں کے سروں کو جھکنے نہیں دیا اُس نے یورپ کی پارلیمنٹ میں بھی اسلامی پیغام کو بخوبی و احسن طریقہ سے پہنچایا وہ افغانستان سے لیکر چیچنیا تک بوسنیا سے لیکر برما تک کشمیر سے لیکر بنگلہ دیش تک ہر محاذ پر اسلام اور مسلمان کی بات کرتا رہا لیکن افسوس اُن نگاہوں پر جو اپنا محسن نہیں پہچان سکیں صد افسوس اُن پر جو میڈیا کے بے بنیاد پروپیگنڈوں کا شکار ہو کر اُس پر جھوٹے اور من گھڑت الزامات لگاتے رہے آخر یہ ہے کون جاننا چاہتے ہو؟؟؟؟؟؟ پہچاننا چاہتے ہو؟؟؟؟؟ تو آؤ اپنی نگاہوں کو بند کرو اور ذرا تصور کی نگاہوں سے دیکھو کہ<لاہور کا شہر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جامعہ اشرفیہ کا وسیع ہال ہے۔۔۔۔۔۔۔ علماء کا ایک سمندر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرف نورانی چہروں کی بہار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علم و عمل کے کوہ گراں موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہیں ایک نوجوان عالم سید عدنان کاکا خیل ۔۔۔۔۔اپنے خوبصورت انداز میں کہ رہا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اے قائد محترم اسلام پاکستان اور مدارس کے لیے آپ کی جتنی خدمات ہیں ان کا پانچ فیصد بھی یہ قوم نہیں جانتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کو آپ کا تصور دکھائے گا کہ عمامہ جبرائیلی پہنے ایک شخص وہاں بیٹھا ہے جس پر تمام علماء کی نگاہیں جمی ہوئی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں یہ ہے وہ جسے ابن مفتی محمود کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ جسے قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن کہا جاتا ہے۔
“بقلم یوسف خان”