ملکی سیاست میں پیزے اور چائے کی بازگشت

تحریر : خالد شریف

https://www.facebook.com/khalid.sharif.5

حکومت مخالف تحریک پی ڈی ایم نے آج مالاکنڈ میں میدان سجایا ، حسب توقع ٹھنڈے موسم میں ہزاروں کی تعداد میں کارکنوں کو نکالا ،ریلیاں نکالی گئیں ، کاٹلنگ سے قائد جمعیۃ ، سوات سے مولانا عبد الغفور حیدری ،دیر سے مولانا عطاء الرحمان اور بونیر سے مولانا اسعد محمود کی قیادت میں جمعیۃ علماء کے ہزاروں کارکن احتجاجی ریلی میں پہنچے ،دیگر جماعتوں کے قائدین اور کارکن بھی بڑی تعداد میں موجود تھے ،جناب بلاول بھٹو زرداری ایک بڑی ریلی کی قیادت کرتے جلسہ گاہ پہنچے ، ملکی مسائل پر تفصیلی بات ہوئی اور یوں ایک کامیاب احتجاجی مظاہرہ اپوزیشن کے نام ہوا ۔آج ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس بھی تھی جہاں ان سے بہت سے سوالات کئے گئے ،ایک سوال قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمان کے اس اعلان کہ فیصلہ کریں گے کہ لانگ مارچ کا رخ اسلام آباد کی طرف ہو یا راولپنڈی کی طرف ، کی بابت بھی ہوا، محترم ڈی جی آئی ایس پی آرنے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ راولپنڈی آنے کی وجہ سمجھ نہیں آتی ، ہاں اگر آگئے تو چائے پانی پلائیں گے اچھا لک آفٹر (دیکھ بھال )کریں گے ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اور اس میں کئے گئے سوال و جواب کی حیثیت ان کے ذاتی تبصرے کی نہیں ہوتی بلکہ ادارے کی پالیسی ہوتی ہے ۔ یوں ادارے کی طرف سے اپوزیشن کو چائے پانی پلانے پر اکتفاء کرنے کی پالیسی سامنے آئی ہے ۔
ڈی جی صاحب کا یہ جواب اگرچہ روایتی اور مشرقی اقدار کے مطابق تھا ،مشرقی روایات یہ بھی ہیں کہ چائے پانی کی دعوت میزبان کے چہرے پر مسکراہٹ نمایاں ہوتی ہے جو دلیل ہوتی ہے کہ آپ کی آمد سے خوشی ہوگی ،لیکن یہاں نری دعوت تھی گرم جوشی اور خوشی نا تھی ۔ ڈی جی صاحب کے اس بیان کا جواب مولانا صاحب نے ہنستے مسکراتے ہوئے مالاکنڈ میں دیا کہ خود پاپا جونز کے پیزے کھاؤ اور ہمیں صرف چائے پانی پلاؤ ، یہ زیادتی ہے اور مہمان نوازی کے خلاف ہے ۔ ڈی جی صاحب کا جواب اور مولانا صاحب کا جواب الجواب ظاہرا سفارتی آداب کے پیرائے میں ہے ۔لیکن حقیقتا دونوں جواب بہت گہرے ہیں ، ادارے نے اشارے اشارے میں کہا ہے کہ اصل مالک ہم ہیں بس آپ ما حضر پر اکتفاء فرمائیں ،اپوزیشن کہتی ہے کہ ملک ہم سب کا ہے لہذا رہیں گے تو برابری کی بنیاد پر رہیں گے یہ نہیں ہوسکتا کہ اچھا اچھا خود کھاؤ اور بچا کھچا عوام کے لئے چھوڑ دو ۔
اپوزیشن اس بار اپنے اس ایجنڈے پر مضبوط کھڑی ہے ، ایک بحث کی ابتداء کردی ہے ،اگرچہ اس تحریک کو انجام تک پہنچانا مشکل کام ہے لیکن جمہوریت پر روز کے بالواسطہ یا بلاواسطہ ٹیک آور سے بہتر یہ ہے کہ سیاست میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف میدان سجا کر جو کڑوی گولی اپوزیشن نے کھائی ہے اسے نگل بھی لے ۔
چائے کون پئے گا اور پیزا کون کھائے گا کا فیصلہ ہوجائے تو ہی اس قوم کے حق میں بہتر ہوگا

Facebook Comments