تحریک جاری رہتی ہے ۔ عزم نہ ٹوٹے
“یوسف خان “
تحریک ختم نہیں ہوتی تحریک جس مقصد کے لئے چلائی جاتی ہے وہ مقصد حاصل کرکے رہتی ہے، اس میں نشیب و فراز آتے ہیں اس میں سختیاں اور آسانیاں بھی آتی ہیں۔ اس میں کبھی فتح کا احساس ہوتا ہے کبھی کچھ بھی حاصل نہ ہونے کا احساس لیکن جب تک مقصد حاصل نہ ہوجائے تو تحریک جہد مسلسل رہتی ہے۔ 1857 کو ہی دیکھ لیں انگریز نے اسے غدر کہا بغاوت لکھا اس تحریک کی ابتداء پُرتشدد تھی سو خون بہا لاشیں اٹھیں ۔ شہر کے شہر تباہ ہوگئے اکابرین قوم تختہ دار پر لٹک گئے آزادی و حریت کی آوازوں کو دبا دیا گیا
کیا تحریک ختم ہوگئی ؟
کیا تحریک حریت کی قیادت دبک کر بیٹھ گئی ؟
ایسا وقت آگیا کہ صرف ایک استاذ اور ایک شاگرد تھا ؟ کوئی بھی تو بچا نہیں تھا تحریک تو تب بھی نہیں رکی تھی تحریک چلتی رہی، ایک مرتبہ پھر وہی ولولہ وہی جذبہ نظر آنے لگا۔ آزادی کی آوازیں پھر سے گونجنے لگی تھیں، 1857 جنگ آزادی کے بعد انار کے درخت کے نیچے تربیت حاصل کرنے والے ایک شاگرد نے دوبارہ وہی ولولہ جگا دیا تھا۔ اب کی بار ایک ہی قیادت کے تحت منظم سلسلہ بھی موجود تھا ہندوستان بھر کے مختلف مقامات پر مراکز قائم کرکے ان کے ذمہ داران کا تعین بھی ہوچکا تھا۔ تحریک کا ایک سپاہی افغانستان میں موجود حکومت مؤقتہ کا قیام بھی کرچکا تھا ،
تحریک کے سپہ سالار نے حجاز مقدس کا رخت سفر باندھ لیا تھا، لیکن کیا ہوا ؟
منصوبہ ایکسپوز ہوگیا ؟ ریشمی رومال پر لکھا خط میر کارواں تک پہنچنے سے قبل ہی انگریز کو پہنچ گیا ؟
پھر وہی ہو جو 1857 میں ہوا فرق صرف اتنا تھا کہ اب کی بار خون کی ہولی کچھ کم کھیلی گئی، گرفتاریاں ہوئیں تشدد ہوا جیلوں میں بند کیا گیا باغی قرار دے دئیے گئے۔
حجاز مقدس سے سفید ریش میر کارواں کو گرفتار کرکے مالٹا کے ٹھنڈے یہ جزیرے پر سزا کاٹنے بھیج دیا گیا۔
1857 سے 1916/17 تک نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ بنتا ہے۔ یہ وہی انار کے درخت کے نیچے بیٹھا اکیلا طالب العلم تھا جو آج مالٹا میں سزا کاٹ رہا تھا لیکن کیا ہوا کیا تحریک رُک گئی ؟
کیا جذبات ماند پڑ گئے ؟ کیا مقصد کے حصول کا جذبہ ختم ہوگیا ؟ کیا نظریہ مٹ گیا ؟
کیا تحریک جمعیت علماء کی شکل میں دوبارہ سے چلنے نہی لگ پڑی ؟ کیا مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ میر کارواں نہیں بنے ؟ کیا مولانا سید حسین احمد مدنی کی استقامت و جرات ختم ہوگئی ؟ کیا مالٹا سے رہائی کے بعد شیخ الہند خاموش ہو کر بیٹھ گئے ؟ نہیں بلکہ انہوں نے تحریک کو نیا رُخ دیا
بالآخر 1947 میں انگریز کو جانا ہی پڑ گیا یہ دھرتی چھوڑنی پڑی، اندازہ کریں کس قدر مصائب و مشکلات آئیں ؟
ذرا سوچیں کہ تحریک ریشمی رومال کی وقتی ناکامی پر کتنے طعنے دئیے گئے ہوں گے شیخ الہند کو ان کے کارکنان کو ،
پھر آگے بڑھتے ہیں پاکستان بن گیا ہے۔ بنتے ہی اس ملک میں پہلا وزیرخارجہ قادیانی لگتا ہے کیا ختم نبوت کی حفاظت کا مشن رک گیا؟ نہیں
لاہور خون میں نہا گیا ؟
جیلیں بھر دی گئیں ؟ 1953 سے 1973 تک کتنے نشیب و فراز آئے کتنے اکابر سرپرستی چھوڑ کر چلے گئے لیکن جذبہ نہیں ٹوٹا عزم میں کوئی آنچ نہیں آئی ؟ مقصد سے نظر نہیں ہٹی بالآخر آئین پاکستان میں منوا لیا گیا کہ ختم نبوت ﷺ کا منکر کافر ہے۔ ناموس رسالت ﷺ میں توہین کے مجرم ناقابل معافی ہے،
اے کارکنان جمعیت جمہوریت کی مضبوطی ، آئین کے نفاذ کی جنگ ، عوامی رائے کے احترام کا عَلم آپ کے قائد نے ابھی نہیں اٹھایا عنفوان شباب سے اٹھایا ہے ؟ اس نگری میں قائد ملت کو چالیس سال کا عرصہ ہونے کو ہے ان پر تشدد بھی ہوا ، جیل میں بند بھی ہوئے ، پابندیاں بھی سہیں ان کے سامنے نخوت بھرے مکے بھی لہرائے گئے ، ان کو پیسوں سے خریدنے کی کوشش بھی کی گئی ؟ لیکن انہوں نے جمہوریت اور عدم تشدد کا عَلم نہیں پھینکا ،
ہاں آج جب پچھلے الیکشن میں انہوں دیکھ لیا کہ اب ایک منظم تحریک کے بغیر مقصد کا حصول نہیں ہوسکتا تو انہوں نے اس عَلم کو تحریک کا رنگ دے دیا،
یہ آزادی کی اسی تحریک کا تسلسل ہے جس میں میرے اور آپ کے اکابرین نے پہلے برٹش آمریت سے نجات حاصل کی اب برطانیہ کے ایجنٹوں سے نجات حاصل کرنے نکلے ہیں۔ یہ ایک تحریک ہے جو اس وقت تک جاری رہے گی جب تک جمہوریت کو حقیقی معنوں میں مضبوط نہیں کرلیا جاتا ، یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک عوامی رائے کو بوٹوں تلے روند ڈالنے کی روایت ختم نہیں ہوتی، یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک تہتر کے آئین کا مکمل نفاذ نہیں کردیا جاتا یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں نہیں آجاتا اور یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک فنگر پرائم منسٹرز کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند نہیں کردیا جاتا ۔
سو ہمت نہیں ہارنی، جانشین شیخ الہند کی قیادت میں آگے بڑھتے جانا ہے بڑھتے جانا ہے تاوقتیکہ ہم ان مقاصد کو حاصل کرکے اس ملک کو امن و سکون کا گہوارہ نہ بنا دیں ،
تحریک جاری رہتی ہے ، عزم نہ ٹوٹے
Facebook Comments