اسرائیل ایک ناجائز ریاست

تحریر: غلام نبی
نئی حکومت کے بنتے ہی ملک عجیب و غریب حالات سے دوچار ہے۔۔ سب سے پہلے اقتصادی کونسل میں میاں عاطف قادیانی کا دخول۔۔ پھر عوامی دباو پر خروج۔۔ اس کے بعد ملک میں اس بحث کا شروع ہو جانا کہ قادیانی بھی اس ملک کے شہری ہیں۔ ان کے بھی برابری کے حقوق ہیں۔ وہ اعلی عہدوں پر کیوں فائز نہیں رہ سکتے۔۔ وغیرہ ذالک۔۔ کچھ ہی دنوں بعد پارلیمنٹ میں توہین رسالت قانون میں ایک ترمیم کی کوشش کی گئی۔۔ کہ جو شخص توہین رسالت کا الزام لگائے گا الزام ثابت نہ ہونے کی صورت میں اس کے لیے وہ ہی سزا ہو گی جو توہین کے مرتکب کے لیے ہے۔۔ اس ترمیم کو بھی بروقت ناکام بنا دیا گیا۔۔ اس کے بعد ملک میں اسرائیلی طیارے کی آمد کا مسلہ اٹھا۔۔ اور چند ہی دنوں بعد آسیہ مسیح کا فیصلہ سامنے آ گیا۔۔ اسرائیلی طیارے کے بعد تسلسل کے ساتھ یہ فضاء بنائی جانے لگی کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں آخر حرج ہی کیا ہے۔۔ ٹالک شوز سے لے کر اب تو پارلیمنٹ کے اندر بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر دلائل دئیے جا رہے ہیں۔۔ اور ان تمام اقدامات کے پیچھے تحریک انصاف کا ہاتھ ہے۔۔

جو دانشور اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اسرائیل اس دنیا پر ایک ناجائز بچے کی طرح ناجائز ملک ہے۔۔۔ ہم بات 1948 سے شروع کرتے ہیں۔۔ موجودہ اسرائیلی حکومت کا دور 48 سے شروع ہوا۔۔ 1922 میں فلسطینی عربوں کی آبادی اس علاقے میں سات لاکھ جبکہ یہودیوں کی آبادی صرف اسی ہزار تھی۔۔ صرف 26 سال کے قلیل عرصے کے بعد 1948 میں جب اسرائیل کے وجود کا اعلان ہوا تو یہودیوں کی آبادی چھ لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ کس تیزی کے ساتھ یہودی سیٹلرز کو مقامی عرب فلسطینیوں کی زمینوں پر بسایا گیا۔۔جب فلسطین کو اسرائیل میں تبدیل کیا جا رہا تھا اس وقت وہاں کی آبادی کا بڑا حصہ فلسطینی مسلمانوں کا تھا یہ عرب النسل مقامی باشندے تھے۔۔اس سے یہ بات بہت اچھی طرح واضح ہو جاتی یے کہ عالمی قوتوں کی سرپرستی میں یہودی خنجر کو مسلمانوں کے سینے میں کس بے دردی سے کھونپا گیا۔۔ ایک خوفناک کھیل کھیلا گیا۔۔ہزاروں بلکہ لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر اور خاندانوں کو تباہ کر دیا گیا۔۔ خانہ بدوشی، فاقہ کشی اور بھیک مانگنے پر مجبور کیا گیا۔ فلسطین کے پشتوں سے جو شہری تھے انہیں مہاجر کیمپوں میں زندگی کے تلخ ایام گزارنے پر مجبور کیا گیا۔۔زبردستی ملک بدر کر کے غیر مقامی یہودیوں کو مسلط کیا گیا۔ فلسطینیوں کے 78 فیصد علاقے پر قبضہ کر کرتے ہوئے سات لاکھ پچاس ہزار فلسطینیوں کو بے دخل کیا گیا۔۔ لہذا! اس بات پر بہت سے یہودی دانشور بھی متفق ہیں کہ اسرائیل ایک نسل پرست Apartheid ریاست ہے۔۔ اسرائیل کے قوانین اور رولز نسل پرستانہ ہیں۔۔ایسی ریاست کو تسلیم کرنا مسلمانوں کے زخموں کے ساتھ کھیلنا ہے۔۔

پاکستان کی اسرائیل کے حوالے سے پوزیشن دوسرے ممالک سے قدرے مختلف ہے۔۔ پاکستان اگر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرتا یے۔۔ تو کشمیر پر ہندوستان کی گرفت مظبوط ہوتی ہے۔۔ آپ پھر کس منہ سے اینڈیا کو قابض کہو گے۔۔ جب اسرائیل کی بدمعاش اور قابض ریاست کو آپ تسلیم کرنے کی باتیں کرتے ہو تو کل اگر آپ ہی کے اندر سے ہندوستان کا کشمیر پر حق اگر کوئی اور تسلیم کرے گا تو آپ کے پاس کیا جواب ہو گا۔۔۔ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے اور فلسطینیوں کی حمایت کرنے کی بات تو قائد اعظم محمد علی جناح بھی کر چکا ہے۔۔۔ ہزاروں فلسطینی مسلمانوں کا قاتل، دنیا کا ظالم ترین طبقہ، آئے روز مظلوم فلسطینیوں کی جانوں کے ساتھ کھیلنے والی قوم کے جبر کو اگر کوئی تسلیم کرنے کی بات کرتا ہے اور اپنی دانشوری جھاڑتا ہے تو پاکستانی قوم اور عوام اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔۔

Facebook Comments