تحریر: محمد عمران اسلام آباد۔
ہمارے ایک دوست ہے، درس نظامی کا فاضل ہے جو روشن خیالی کے سفر پر نکلا ہے بار بار مجھے وہاں مینشن کرتے ہیں جہاں مذہبی طبقات میں سے کسی نے شدت پر مبنی موقف اختیار کیا ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جمعیت علماء عدم تشدد پر مبنی جماعت ہے اور یہ اہل السنہ کی وہ جماعت ہے جو دین کو مکمل وسطیت واعتدال کے ساتھ پیش کرتی ہے اگر کوئی فرد یا مجموعہ ان میں سے سخت ترین موقف اپناتا ہے تو وہ جمعیت علماء کے نظریے کا حامل نہیں ہے۔
ہاں اس فرق کے ساتھ کہ جمعیت علماء حقائق دنیا پر نظر رکھنے والی جماعت ہے وہ حالات کا تجزیہ کرکے موقف اختیار کرتی ہے چنانچہ ہمارا ذاتی مشاھدہ یہی ہے کہ مسلم ممالک میں جو شدت پسندی کی لہر در آئی ہے وہ بلا سبب نہیں بلکہ وہ ایک طویل جبر وتشدد استہزاء وتمسخر کا رد عمل ہے۔
مسلمانوں کے پیغمبر کا مذاق اڑایا جائے ان کے مقدس شخصیات پر تبرا کیا جائے، مسلم ممالک پر اپنا بلا واسطہ یا بالواسطہ اپنا تسلط جمایا جائے ان پر جنگیں مسلط کی جائے ان کی عزت وناموس کو بے آبرو کیا جائے ان کے گھروں کا اینٹ سے اینٹ بجایا جائے تو اس جبر کے خلاف ان کا رد عمل سخت ترین الفاظ کی شکل میں آتا ہے وہ مرنے مارنے پر آجاتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنے اوپر بم باندھ لیتے ہیں
یہ ان کا رد عمل ہوتا ہے جس میں وہ جادہ اعتدال سے ہٹ جاتے ہیں اور شدت اختیار کرجاتے ہیں
جمعیت علماء جس طرح اس رد عمل میں حد سے تجاوز کو غلط سمجھتی ہے تو اس سے کئی گنا زیادہ اس عمل کو غلط قرار دیتی ہے جس عمل کے نتیجے میں یہ رد عمل سامنے آتا ہے۔
امریکہ برطانیہ فرانس وغیرہ لبرل ممالک جو انسانیت کا علم اٹھائے ہوئے ہیں یہی سب سے بڑھ کر انسانیت کش پالیسیوں سرمایہ دارانہ نظام اور عالمی جنگی سوچ پر عمل پیرا ہیں انہوں نے انسانیت کو تباہ وبرباد کیے رکھا ہے۔
لہذا جو دوست روشن خیالی پھر سیکولر ازم اس سے آگے لبرل ازم وایتھی ازم کے راستے پر نکلے ہوئے ہیں ان کی خدمت عالیہ میں گزارش ہے کہ عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ رد عمل سے زیادہ عمل پر تنقید کریں کہ اصل محرک ہی وہی عمل ہے چنانچہ خادم حسین رضوی اہانت رسول اور ان کے پاس داران کا رد عمل ہے لہذا جب تک رفع رضا جیسے لبرل متشدد پیدا ہوتے رہینگے تب تک خادم حیسن رضوی بھی پیدا ہونگے جمعیت علماء اس عمل و رد عمل دونوں سے بری ہے ان کا اپنا ایک اصولی موقف ہے جس پر ہم مکمل شعوری علمیت کے ساتھ قائم ہیں۔