تحریر: یوسف خان لغاری
حافظ محمود اختر کے ذریعے 1935-36 میں بنیاد پانے والا ادارہ ایک مرتبہ پھر حکومت گردی کا شکار نظر آرہا ہے۔
جب سے جامعہ کا نظام اھتمام قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کے صاحبزادے ممبر قومی اسمبلی مولانا اسعد محمود کو ملا ہے ادارے کو مختلف حیلے بہانوں سے تنگ کیا جا رہا ہے
کیوں تنگ کیا جا رہا ہے اس پر بات ہم آخر میں کرتے ہیں پہلے میں ان سوالات کے جواب دینا چاہتا ہوں جو اٹھائے گئے،
(۱) مسمار کی گئی دکانوں کی جگہ کی مالیت دو ارب بتائی جا رہی ہے،
اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ دکانوں کی مالیت چاہے دو ارب ہو یا دو کھرب جب تک جگہ کو غیرقانونی ثابت نہیں کیا جاتا تو کسی بھی حکومت یا ادارے کو محض مالیت کی بنیاد پر کسی بھی جگہ کے خلاف کاروائی یا مسمار کا کوئی حق حاصل نہیں ہے،
1961 میں جب مدرسہ کے لئے جگہ کم پڑی تو اس وقت کے مہتمم مفتی محمد شفیع صاحب نے مدرسہ کی توسیع کے لئے باقاعدہ حکومت کو درخواست دی جس پر موجودہ جگہ “ گلگشت کالونی “ میں 99 سال کی لیز پر 1963 میں الاٹ کی گئی،
جب گورنمنٹ سے پراپر چینل کے ذریعے درخواست دے کر تمام قانونی تقاضے پورے کرکے جگہ حاصل کی گئی تو یہ سوال بالکل بے معنی ہوجاتا ہے کہ جگہ کی مالی حیثیت کیا ہے۔
(دوسرا اعتراض جو کہ شد و مد سے کیا جا رہا ہے۔ وہ یہ کہ 2007 سے یہ ادارہ مولانا اسعد محمود کے پاس ہے وہی اس کا کرایہ لے رہے ہیں جو کہ کروڑوں روپے بنتا ہے۔ )
اس حوالے سے میں آپ تمام حضرات کو کلیئر کرتا چلوں کہ 2007 میں تو اسعد محمود صاحب خود طالب العلم تھے اور وہ جامعہ خیر المدارس میں تعلیم حاصل کررہے تھے انہوں نے 2010 میں جامعہ خیر المدارس سے فراغت حاصل کی۔
تو ایک طالب العلم جس کا 2007 میں مدرسہ سے لنک نہیں تھا وہ کیسے 2007 میں مدرسہ کی ان دکانوں کا کرایہ حاصل کرسکتا ہے ؟ کوئی ہمیں بھی یہ لاجک سمجھا دے پلیز ؟؟؟؟
مولانا اسعد محمود صاحب نے 2011 میں جامعہ قاسم العلوم میں باقاعدہ تدریس شروع کی۔
2016 میں مدرسہ کا باقاعدہ اھتمام مولانا اسعد محمود صاحب کو ملا، اھتمام کے ملنے کے بعد اسعد محمود نے دیکھا کہ مدرسہ کی دکانوں پر کچھ قبضہ گروپس ناجائز طور پر قابض ہوچکے ہیں اور انہوں نے مدرسہ کی انتظامیہ سے ہر قسم کی قطع تعلقی کر رکھی ہے، مدرسہ کو کسی بھی قسم کا کرایہ ادا نہیں کیا جا رہا بلکہ ( جس کی تفصیلات مدرسہ اور عدالت میں موجود ہیں )ایک بدمعاش قبضہ گروپ کو ماہانہ پیسے دے کر دکانوں پر اپنا قبضہ جمایا ہوا ہے۔
اسعد محمود صاحب نے کوئی بھی سیاسی اثر رسوخ استعمال نہیں کیا بلکہ قانونی طریقہ کار سے عدالت کا دروازہ کھٹکھایا اور مدرسہ کی قبضہ کی گئی اکثر جگہ کو واگزار کرایا۔ اور حد تو یہ ھے کہ جب دو روزپہلے عدالت نے دکانوں کا کرایہ مدرسے کو دینےکا فیصلہ دیا تو دکانوں کو ھی مسمار کردیا گیا
متعدد افراد یہ شکایت کررہے ہیں کہ جامعہ قاسم العلوم اس حوالے سے کیوں خاموش ہے ؟؟
اس لئے کہ جامعہ قاسم العلوم ایک ادارہ ہے۔ اور ادارے کے متعدد معاملات اس وقت عدالت میں زیربحث ہیں کئی معاملات حل ہوچکے جبکہ کچھ پر فیصلے آنے ابھی باقی ہیں اس لئے مدرسہ میڈیا میں بطور ادارہ فریق نہیں بننا چاہتا۔ لیکن چونکہ مدرسہ کے اس ایشو کو سیاسی ایشو بنایا جارہا ہے اس وجہ ہم اس کا جواب دینے کے پابند ہیں جو کہ ہم مدلل انداز میں عوام کی اوپن عدالت میں رکھ رہے ہیں،
مدرسہ سے متعلقہ وہ تمام معاملات جو عدالت میں زیربحث ہیں ان کی تفصیلات کسی بھی وقت “ جوائنٹ رجسٹرار آفس “ سے حاصل کی جا سکتی ہے، اور اب جبکہ حکومت بھی پی ٹی آئی کی ہے اوپر بتایا گیا تمام ریکارڈ نکلوایا جائے اور بتایا جائے کہ کہاں پر بے ضابطگی ہوئی ہے۔
حد تو یہ ہے کہ میڈیا کے بڑے بڑے نام بھی سیاسی انتقام کے اس گند میں اپنے ہاتھ گیلے کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ1963 میں جب جگہ مدرسہ کو لیز پر دی گئی تب قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کی عمر محض نو سال تھی ؟
اسعد محمود تو تب پیدا بھی نہیں ہوئے ؟ لیکن نمونہ حکومت ابتداء دن سے ہی مولانا فضل الرحمن اور ان کے صاحبزادے اسعد محمود صاحب کو ٹارگٹ کئے ہوئے ہے۔
پھر آگے غور کریں۔ 1981 میں جب دکانیں تعمیر ہوئیں اس وقت بھی اسعد محمود صاحب تو پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ اسعد محمود صاحب کی پیدائش تو 85 کی ہے پھر کیسے دکانوں کی الاٹمنٹ اور اور تعمیر میں انہیں مورد الزام ٹہرایا جا رہا ہے،
2011 سے تدریس شروع کرنے کے بعد سے اسعد محمود صاحب کے تمام پرسنل بینک اکاؤنٹس اور 2016 میں جب سے مدرسہ کا اھتمام مولانا اسعد محمود صاحب کے پاس آیا ہے اس وقت سے مدرسہ کے تمام اکاؤنٹس کسی بھی قانونی فورم پر ہر وقت احتساب کے لئے پیش ہیں۔ یاد رہے جب سے اسعد محمود صاحب مدرسہ کے مہتمم بنے ہیں مدرسہ کا سالانہ آڈٹ بھی باقاعدگی سے کیا جا رہا ہے،
اب میں آتا ہوں آخری بات کی طرف کہ جامعہ قاسم العلوم کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے
اس کی وجہ محض سیاسی انتقام ہے۔ موجودہ حکومت جو قائدین جمعیت کے خلاف کسی بھی محکمہ سے ایک بھی ایسی رپورٹ نہیں لے سکی جس کی بنیاد پر انہیں کرپٹ ثابت کیا جا سکے ان سے سیاسی انتقام لیا جا سکے۔ انہوں نے خاندان مفتی محمود رح کو ٹارگٹ کرنے کی ابتداء کی، جس کا پہلا نشانہ سابق افغان کمشنر قائد جمعیت کے بھائی انجینئر ضیاء الرحمن صاحب بنے ۔ جب اس پر بھی کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا تو قادیانی آقاؤں کی ایماء پر اس ادارے کو ٹارگٹ کیا گیا جس کے بوریا نشینوں نے اسمبلی کے اندر اور باہر منکرین ختم نبوت کو ناکام بنایا ، اس وجہ سے جامعہ قاسم العلوم کو ٹارگٹ کیا گیا۔
لیکن یاد رہے ہم آئین و قانون کی پاسداری کرنے والے لوگ ہیں جامعہ قاسم العلوم اس ظلم و ناانصافی کے خلاف عدلیہ میں جا رہا ہے اور حصول انصاف کے لئے ہر قانونی طریقہ بروئے کار لایا جائے گا۔