نوابزادہ نصراللہ خان ایک دیوانہ تھا،نہ رہا کہتے ہیں۔۔۔

تحریر : محمد ابوبکرشیخ،ڈپٹی ایڈیٹر الجمعیۃ
پاکستان میں عوامی ، جمہوری حقوق اور آئین وپارلیمنٹ کی بالادستی کی جنگ کے سپہ سالار ، بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان26اور 27ستمبر 2003ء کی درمیانی شب انتقال فرماگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آپ کی وفات سے جمہوریت ، اصول پسندی اور ضع داری کی سیاست کا ایک باب بند ہوگیا۔ آپ آئین وقانون کی پاسداری ، پختہ سوچ اور ثابت قدمی کے کوہ گراں تھے ۔ صحافی تھے ، شاعر بھی تھے، مہمان نواز تھے، نگہ بلند ،سخن دلنواز تھے۔1933ء میں خان گڑھ میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا پہلا جلسہ کروا کر کوچہ سیاست میں قدم رکھا ، پھر عظیم احراری رہنما چوہدری افضل حق مرحوم کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔ تیرہ سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد مجلس احرار نے آپ کو جنرل سیکرٹری شپ کا اہل گردانا اور آپ کو آل انڈیا مجلس احرار اسلام کا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا ۔متحدہ ہندوستان میں انگریز حکومت نے آپ کے والد سیف اللہ کو1910ء میں نواب کے خطاب سے نوازا اور گیارہ گاؤں الاٹ کئے۔ لیکن نوابزادہ نصر اللہ خان نے اپنی خاندانی روایات سے انحراف کرتے ہوئے انگریز حکومت سے تعاون کی بجائے ان کی مخالفت کی سیاست کا آغاز کیا اور اپنے خاندان کے بزرگوں کے برعکس حکمران جماعت یونینسٹ پارٹی میں شامل ہونے کی بجائے مجلس احرار میں شمولیت اختیار کی۔ احرار کا نصب العین انگریزوں کا برصغیر سے انخلاء تھا، چنانچہ انگریز کے دور میں نوابزادہ صاحب کے خلاف غداری کا مقدمہ بنا۔ تقسیم ہند کے بعداحرار نے فیصلہ کیا کہ ان کا کا رکن کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتا ہے،چنانچہ نوابزادہ نصر اللہ خان مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ مسلم لیگ کے دامن میں چونکہ وفا اور خلوص شروع دن سے نایاب ہیں۔ اسلئے نوابزادہ صاحب نے حسین شہید سہروردی کے ساتھ عوامی لیگ کی بنیاد رکھی ۔ عوامی لیگ کا اجلاس جس میں شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات تشکیل پائے، نوابزادہ صاحب فوجی حکمرانوں کی ناروا پابندی کے باعث اس اجلاس میں شرکت سے محروم رہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر نوابزادہ صاحب اس اجلاس میں موجود ہوتے تو پاکستان دو لخت کرنے کا باعث بننے والے یہ چھ نکات سامنے ہی نہ آتے اور ملک دشمن قوتوں کے عزائم خاک میں مل جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات پیش کرنے کے بعد آپ نے عوامی لیگ کا الگ دھڑا قائم کرلیا۔نوابزادہ نصر اللہ خان نے ہمیشہ سیاسی جنگ لڑی، لیکن سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی میں کبھی ڈھلنے نہیں دیا۔ چنانچہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے متوازی دھڑا قائم کرنے کے باوجود جب ایوبی آمریت کو ختم کرنے کی جدوجہد کا مرحلہ آیا تو انہوں نے شیخ مجیب کی عوامی لیگ سمیت تمام جماعتوں کو جمہوری مجلس عمل (ڈیک) کے اتحاد پر جمع کرلیا۔ نوابزادہ نصر اللہ خان نے سیاسی میدان میں اپنے لئے حزب اختلاف کا کردار چنااور پچاس سال سے زیادہ عرصے تک اسے بڑی خوبی سے نبھایا۔ وہ بہت شائستہ اور فصیح گفتگو کرتے تھے، ان کی آواز بھاری اور دلآویز تھی۔ وہ اپنی تقاریر میں جابجااور برمحل اشعار کا استعمال کرتے تھے اور ان کے منہ سے اپنے بدترین مخالفین کے بارے میں بھی کوئی ناشائستہ بات نہیں سنی گئی ۔ آپ لاہور میں ریلوے اسٹیشن کے پاس نکلسن روڈ کے ایک سادہ سے کرائے کے مکان میں رہتے تھے جو ان کی جماعت کا صدر دفتر بھی تھا اور جس کے چھوٹے سے کمرے میں پاکستان کے بڑے بڑے سیاستدان سیاسی معاملات پر ان سے مشورے اور بات چیت کیلئے آتے تھے۔ جنرل ایوب کے خلاف نوابزادہ نصر اللہ خان کے نعرہ مستانہ کی گونج ہم نے ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے خلاف چلنے والی ایم آر ڈی اور اے آر ڈی کی تحریکوں میں سنی ۔ نوابزادہ صاحب کی سیاست اور اجلے کردار کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے اہم ترین سیاسی عہدوں پر رہنے کے باوجود کبھی کوئی اہم سرکاری عہدہ یا وزارت قبول نہیں کی ۔ لالچ ، طمع اور اقتدار کی ہوس سے کوسوں دور تہجد گزار نوابزادہ مرحوم نے زندگی بھر نہ تو کسی حکمران کو ملاقات کی درخواست دی اور نہ ہی کسی کو ان کی ایمانداری پر انگلی اٹھانے کی جرأت ہو سکی ۔ سیاست کے ذریعے مال کمانا، فیکٹریاں لگانا دور کی بات،وہ تواپنی زمینیں بیچ کرسیاسی سفر کی مسافتوں کو طے کرتے رہے۔ ہمیشہ صاف ستھری ،چمکتی ہوئی سفید شلوار قمیض میں ملبوس دلآویز شخصیت کے مالک نوابزادہ نصر اللہ خان کا دستر خوان وسیع تھا اور کھانے کے وقت ہر مہمان ان کے کمرے میں ان کے ساتھ کھانا تناول کرتا تھا۔ وہ شاعری بھی کرتے تھے اور آخر وقت میں اپنی سیاسی یاداشتیں بھی لکھ رہے تھے۔ اچکن، ترکی ٹوپی اور حقہ ان کی ذاتی شناخت تھے۔ آپ کی رحلت پرجیو نے ان کا ذاتی کمرہ دکھایا تو کتابوں کی الماری سے کیمرے کی آنکھ نے دیکھا کہ معارف الحدیث اور کاروان احرار بڑے سلیقے سے سجی ہوئی تھیں۔ نوابزادہ نصر اللہ خان رہنماؤں کے رہنما تھے۔ ہر وہ حکمران جس نے اقتدار میں ان کی مخالفت سے تنگ آکر ان کو برا بھلا کہا،اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ان کے آستانے پر حاضری دیتا نظر آیا۔ ان کی وفات سے پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت اور آئینی طرز حکومت کی جدوجہد کو ایک بڑا دھچکا لگا اور پاکستان ایک حقیقی جمہوری رہنما سے محروم ہوگیا۔ آپ نے اپنی شاعری سے آمروں پر طنز کے تیر برسائے، قوم کی محرومیوں کا شکوہ کیا، مگر سوچ کے پختہ اس شاعر کو کبھی جواب شکوہ لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔دینی جماعتوں بالخصوص جمعیت علماء اسلام اور قائد جمعیت کے ساتھ ان کا تعلق ہمیشہ مثالی رہا۔ 1972ء میں متحدہ جمہوری محاذ،1977ء کے پاکستان قومی اتحاد(PNA)اور1983ء کی تحریک بحالی جمہوریت(MRD) میں وہ علمائے حق کے شانہ بشانہ رہے۔ اسی طرح افغانستان پر امریکی حملے کے دوران انہوں نے کھل کر پرویز مشرف حکومت کی مخالفت کی۔ نوابزادہ جیسے بااصول، کھرے اور پرعزم سیاستدان کی جدائی یقینا ملک وقوم کیلئے بڑا نقصان دہ ہے۔ انہیں مرحوم لکھتے ہوئے ہر صاحب دل کا قلم غم واندوہ میں ڈوب جاتا ہے۔ مستقبل میں جب کبھی حریت فکر کی بات ہوگی، جب کبھی عوام اور جمہوری حقوق کا سبق دہرایا جائے گا،جب کبھی اسیروں کی کہانی سنائی جائے گی، تو نوابزادہ مرحوم ضرور یاد آئیں گے۔ ان کی عظمت ودانائی اور علم واستقامت کا تذکرہ تادیر زندہ رہے گا۔ اللہ ان کو غریق رحمت فرمائے۔آمین

Facebook Comments