عمران خان کی تقریر کا مختصر تجزیہ

تحریر : مفتی محمد عمران اسلام آباد
خان صاحب کا ایک گھنٹہ نو منٹ پر محیط تفصیلی خطاب سننے کا موقع ملا، یہ رسم ہے کہ جو بھی ملک کے زمام اقتدار کو ہاتھ میں لیتا ہے تو قوم کو اپنے آنے کی حکمت سے روشناس کراتا ہے اور اس موقع پر ماہرین نفسیات ولفظیات سے حاصل کردہ جام شیرین قوم کو پلاتا ہے قوم کچھ عرصے کے لیے اس جام شیرین کی شیرینی سے محظوظ ہوتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ تلخ زمینی حقائق سے ان کے منہ کا ذائقہ تبدیل ہوتا ہے یہاں تک کہ قوم اس بلا عظیم سے چھٹکارے کے لیے نئے مسیحا کی تلاش میں سرگردان ہوجاتی ہے سیاہ سفید کے مالکان پھر ایک نیا گھوڑا میدان میں اتارتے ہیں اور قوم اس پر مرنے لگتی ہے بات دور نکل گئی خان صاحب نے جو خطاب عالی شان ارشاد فرمایا سیاسی طالب العلم کے سامنے اس کی کوئی خاص اہمیت اس لیے نہیں کہ ان کے پیشرو ضیاء صاحب اور مشرف صاحب کے خطابات اس سے زیادہ بلیغ ہوا کرتے تھے۔ اول الذکر نے اسلامی ماڈل اور مؤخر الذکر نے جو اتاترک وترکی ماڈل اور قضیہ احتساب سے قوم کو جن مسائل سے دو چار کیا تھا اور اس کے اثرات بد سے قوم ابھی تک جس طرح مسائل میں گھری ہے اس کا اندازہ ہر ذی شعور کو ہے۔ خان صاحب نے اپنے خطاب میں جن مسائل کا رونا رویا ہے وہ پاکستان میں ستر سال سے ہر حکمران روتا آرہا ہے یہاں تک کہ یہ باتیں یونین کونسل کے انتخابات لڑنے والا بھی بخوبی کہہ جاتا ہے لیکن اس پر عمل ہیچ ندارد، دیگر حکمرانوں کی طرح خود خان صاحب نے صوبہ سرحد میں پانچ سال حکومت کی وہاں بھی دعوے بلند بانگ ہوئے تھے لیکن نتائج قوم کےسامنے ہیں۔ خان صاحب نے اپنے خطاب میں قرضوں پر بات کی تو اس حوالے سے ہم خان صاحب کی اس بات کی حقیقت اس کے سابقہ کے پی کے حکومت کے قرضوں سے معلوم کرسکتے ہیں چنانچہ 9 اپریل 2018 کو جیو کی ویب سائیٹ پر اس سے قبل اے این پی اور تحریک انصاف کے قرضوں کے تناسب پر جو رپورٹ دی گئی ہے وہ ملاحظہ کیجیے “پشاور: خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے قرضے لینے کا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے 2013 سے اب تک 2 کھرب 70 ارب 38 کروڑ کے قرضےلے لیے۔ صوبے میں گزشتہ دور حکومت میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے 2007 سے 2013 تک دو منصوبوں کے لیے 20 ارب 79 کروڑ روپے قرض لیا تھا جب کہ تحریک انصاف کی حکومت نے 5 گنا زیادہ قرض لیا ہے۔صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت 2013 سے اب تک 2 کھرب 70 ارب 38 کروڑ کا قرضہ لے چکی ہے۔”ظاہر ہے کہ اس تناسب سے قرض لینے کے بعد خان صاحب کے الفاظ کی جادو گری قوم کے سنجیدہ طبقے پر کیا اثر کریگی؟ خان صاحب نے ارشاد فرمایا کہ وزیر اعظم کے 524 ملازم ہیں اور 80 گاڑیاں جس میں 35 بلٹ پروف ییں۔ تو اس بات کی حقیقت یہ ہے کہ سارے ملازم وزیر اعظم کے گھر کے نوکر نہیں بلکہ وزیر اعظم ایک عہدہ ہے اس عہدہ پر فائز شخص پوری دنیا کے بادشاہوں وزیروں سفیروں فوجیوں سے سیاسی امور پر ملاقاتیں کرتا ہے شاہی وفود آتے ہیں ان کی میزبانی کی جاتی ہے بحیثیت پاکستانی قوم کے نمائندہ کے وہ ان کی خدمت خاطر داری بھی کرتا ہے تو اس کے لیے اگر یہ ملازمین نہ رکھے جائے تو یہ کام کون کریگا؟ پاکستان کے وہ شاہی مہمان اپنے ممالک سے اپنی گاڑیوں میں نہیں آتے اور نہ ان کے ساتھ جہازوں میں گاڑیاں لائی جاتی ہیں ظاہر ہے کہ ان کو ہم نے فل پروف گاڑیاں بھی مہیا کرنی ہے اس کے لیے ٹیکسی تو بک نہیں کیے جاسکتے خان صاحب فرماتے ہیں کہ ان گاڑیوں کو نیلام کرینگے کہ پیسوں کی ضرورت ہے تو جناب عالی قدر ان 35 گاڑیوں سے اگر سر بہ سر نکلے تو کل ملا کر 35×50000000=1​750​000​000ایک ارب پچھتر کروڑ بنتے ہیں لیکن اگر ہمت فرمائے تو صرف رضوان سے 37000000000 یعنی سینتیس ارب روپے ریورس ہوسکتے ہیں لہذا ان گاڑیوں کو فی الحال نیلام کرنے سے پہلے اس طرف توجہ درکار ہوگی۔ خان صاحب نے مدینہ کے پرنسپلز گنوائے تو اس میں انہوں نے کہا کہ وہاں قانون سب کے لیے برابر تھا تو اس حوالے سے قوم پوچھتی ہے کہ پرویز الہی ڈاکو اور الطاف حسین بوری بند لاشوں والی کمپنی کے لیے آپ کی ریاست مدینہ میں کیا ضابطہ قانون ہوگا ؟ اور آپ کا فی الحال رویہ کیا بتا رہا ہے؟ خان صاحب نے ریاست مدینہ کی بات کی تو یہ بات بھی ان کے علم ہوگی کہ ریاست مدینہ کے والیان نے 300 تین سو کنال پر محیط بنی گالہ محل میں کبھی زندگی بسر نہیں کی اور میانوالی و زمان پارک کے محلات میں تن تنہا عیش گوش ہرگز نہیں تھے ان کے پاس جو آیا سب مسلمانوں کی حاجات میں تج دیا تھا۔ اس تضاد عملی کو دیکھ کر قوم کیونکر آپ کے دعوے پر یقین کرسکتی ہے؟خان صاحب سادہ دل کے مالک ہے انہوں نے مدارس کے طلباء کو انجنیئر اور ڈاکٹر بنانے کی طرف اشارہ کیا تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جناب یہ تو بالکل ایسا ہے کہ آپ انجنیئر کو پیمز ہاسپٹل میں ڈاکٹر کی فیلڈ میں فکس کرے، عالم دین کا منصب فریضہ امامت وخطابت ہے قوم کی رہنمائی کے لیے معلم القرآن والتفسیر والحدیث والفقہ ہے ان کو اپنی فیلڈ میں رہنے دیجیے بس جس طرح آپ نے ان کے لیے پچھلے دور اقتدار میں بجٹ میں دس ہزار ماہانہ مقرر کیا تھا اس کو تیس ہزار کردیجیے اور داڑھی والوں کو اسی فیصد اور بیس فیصد کے ترازو سے نکال دیجیےخان صاحب نے وزیر اعظم ہاوس کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا ہے تو اس پر تبصرہ بعد میں کرینگے جب ادارے ان کو سمجھا پائینگے کہ صاحب یہ ریڈ زون ہے یہاں ایک عام تعلیم گاہ بنانا اور ہر ایک شخص کا آزادانہ نقل وحرکت سے سیکورٹی کے کیا مسائل پیدا ہونگے ۔ خان صاحب نے کرپشن کی نشان دہی پر بیس فیصد کا اعلان کیا ہے اس حوالے سے عرض ہے کہ جہانگیر ترین اور علیم خان کا حساب لیجیے تحریک پاکستان فرانس کے سابق صدر اکبر ایس احمد نے جو آپ پر پارٹی چندہ میں کرپشن کا مقدمہ دائر کیا ہے اس کا سامنا کیجیے۔ ڈاکٹر عاصم صاحب اور ارسلان افتخار اور رضوان اختر صاحب کا ذرا احتساب کیجیے اور اگر یہ کرسکے تو ہمارا بیس فیصد قوم کو دیا جائے۔ ارشاد فرمایا کہ میرا منصوبہ ہے کہ اس ملک کو مغربی ممالک کی طرف بناؤں تو اس پر آپ کی شاندار پانچ سالہ ماضی گواہ ہے کہ آپ تو پشاور کو لاہور کے ہم پلہ بھی نہ بناسکے تو اس دعوے سے قوم کیونکر دھوکہ کھائیگی؟عمران احمد خان نیازی صاحب نے جو عرق شیرین پلایا ہے اس کی حقیقت تو آپ کے سامنے ہے لیکن انہوں نے جو نہیں بتایا اور قوم وہ سننے کے لیے منتظر تھی خان صاحب نے تمام سیاسی پارٹیوں کے الیکشن کو مسترد کرنے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی اور اس کا تدارک اور حل کوئی نہیں بتایا اداروں کی دخل اندازی کا جو پہلے رونا روتے تھے اس پر ان کا کوئی نوٹس نہیں آیا خارجہ پالیسی کون بنائے گا اس پر بات نہیں ہوئی سی پیک کے منافع میں میں قوم واداروں کے منافع کی حصہ داری کا ذکر کوئی نہیں ہوا {جملہ معترضہ جس طرح بھٹو کے ایٹمی پروگرام کو خلائی مخلوق نےنواز شریف کے کھاتے میں ڈال دیا تھا اب سی پیک کو خان صاحب کے کھاتے میں ڈالا جائے اور قوم کو بتایا جائے گا لو جی خان نے ملک کو خوشحال کردیا۔} حالیہ گستاخانہ خاکوں پر اپنا رد عمل نہیں دیا کشمیر کے قضیہ کو لف کرلیا بجلی کے بحران کو موضوع سخن ہی نہیں بنایا وغیرہ الغرض خان صاحب نے یونین کونسل سطح کے ارشادات میں چند قومی مسائل کو ذکر کیا جس کی حقیقت اوپر ذکر کی گئی اور بہت سارے اہم ملکی مسائل ہیں جو وزیر اعظم کو اس پر بات کرنی چاہیے تھی اس کو فراموش کرگئے۔خلاصہ کلاماب کے بار پھر پرانی شراب نئی بوتل میں دستیاب ہے اس میں کچھ ترمیمات کے ساتھ اٹھارہ سالہ جو پروگرام تشکیل دیا گیا ہے اس سے بحیثیت سیاسی طالب العلم ہم ہرگز اتفاق نہیں کرسکتے ہیں ہم اس ملک کے ساختیات سے واقف ہیں قوم کے مزاج سے واقف ہیں یہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ملک ہے اس میں پڑوسی ممالک کا وہ ماڈل اپلائی کرنا جس سے وہ قوم خود بتدریج واپس آنا چاہتی ہے بالکل ناکام تجربہ ہے۔ ہر ملک کا الگ جغرافیہ ہے اس میں بسی اقوام کا الگ سیاسی مذہبی ثقافتی پس منظر ہے لہذا ایک ملک کو دوسرے ملک پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے جتنا جلد ہمارے ارباب دانش اس نکتے کو سمجھیں گے اتنا ہی بہتر ہوگا۔

Facebook Comments