تحریر : خالد شریف
ایک جمہوری ملک میں سیاست، جمہوریت، انتخابات اور صحافت کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ مزید بھی ہونا چاہئے اور بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھا کیونکہ ہماری قومی عادت رہی ہے کہ ہر خرابی جب تک عروج پر نہ پہنچ جائے اس خرابی کا احساس نہیں ہوتا… کرپشن، دہشت گردی، نا انصافی، لاقانونیت سمیت کونسی ایسی خرابی ہے جو اول مرحلے میں محسوس کی گئی اور پھر اسے قملع قمع کرنے کی کوششیں شروع کی گئی ہاں مگر جب وہ خرابی خوب عروج پر پہنچتی ہے تب سرگوشیاں شروع ہوتی ہیں پھر سیمینار ہوتے ہیں پھر قراردادیں پاس ہوتی ہیں پھر بڑے بڑے سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور پھر اس خرابی کا قلم قمع کیا جاتا ہے… اب کی بار جس خرابی کی طرف خلق خدا متوجہ ہونے جارہی ہے اسے خرابیوں کی جڑ کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا اور مقابلے میں ملک کا سب سے طاقتور صوبہ ہے یعنی اہل پنجاب پھر اہل پنجاب میں بھی سب سے طاقتور طبقہ ہے عشروں اقتدار میں رہنے والے ن لیگی…. وگرنہ ملک میں کسی مصیبت اور آفت نے آنا ہوتا تو کے پی کے یا بلوچستان کے پہاڑوں پر وہ مصیبت اور آفت آتی پھر یہاں کی قیادت مقابلے میں اترتی اور غدار کا لقب پاکر خاموش کردی جاتی سکون کی زندگی گزر رہی تھی اقتدار کا کھیل کھیلا جارہا تھا غداری کے ڈر سے بولنے والے بھی خال خال تھے…. کیا کبھی سوچا بھی جا سکتا تھا کہ میاں نواز شریف اور ن لیگ کی قیادت بھی وہ بولی بولیں گے جو کسی زمانے میں مفتی محمود، عبد الولی خان،اکبر بگٹی، غوث بزنجو اور دیگر قوم پرست اور مذہبی قیادت بولا کرتے تھے وہاں سے اٹھنے والی آواز کو ہمیشہ اجنبی سمجھا گیا، ہمیشہ غدار کہا گیا لیکن ستر کی دہائی میں ان مذہبی اور قوم پرست قیادت کے بیانیے کو جب میاں نواز شریف، سعد رفیق.، پرویز رشید، احسن اقبال اور دیگر لیگی قیادت کی زبان ملی ہے تب وہ ماحول بننے لگا ہے جب کسی خرابی کےختم ہونے سےقبل کا ماحول ہوتا ہے ایسے میں اگر کوئی فی الحال قومی قیادت کی صف سے باہر بھی ہے تو کوئی ایشو نہیں کہ بہت جلد اسے بھی اس صف میں آنا ہوگا پھر اس خرابی کو ختم کرنے کے لئے نفرت کا ماحول بہت ضروری ہے یہ ماحول ایسے ہی پیدا ہوگا کہ کسی کو نااہل کر دیا کسی پر کرپشن کا الزام لگا دیا کسی کو اقتدار سے بے دخل کر دیا کسی کو انتخابات میں ہرا دیا کسی کا انٹریو نہیں شائع کیا…. اب عوام میں بحث کا آغاز ہوگا، گلی گلی باتیں ہونگی، سرگوشیاں،سیمینارز، اعلامیے، قراردادیں، مظاہرے، اتحاد واتفاق….. پھر یہ خلائی مخلوق سامنے آئے گی اور پھر ان کا قلع قمع آسان ہوگا…. ہمیں خوشی ہے کہ گذشتہ چند سالوں سے ملک کےاسلامی اور جمہوری حوالے سے ہماری قیادت کا کردار واضح ہوتا چلا جا رہا ہے اور اب ہماری قیادت ایک علامت بنتی جارہی ہے جمہوری اور خلائی مخلوق میں فرق کرنے والی….. یہ علامت مزید نمایاں اور گہری ہونی چاہئے….اسے مزید واضح اور نمایاں خلائی مخلوق کا جبر کرے گا… خلائی مخلوق کے سایے سے جتنا دور رہیں گے یہ ہمارے لئے آکسیجن ثابت ہوگا…. سیاست کرنے والا نفع نقصان کا بعد میں سوچتا ہے فیصلہ پہلے کرتا ہے…. ہماری قیادت نے اچھا کیا فیصلہ پہلے کیا اپنی جماعت اور دوستوں سے مشاورت بعد میں کی… اس جبر کے خلاف جس والیم، کرختگی اور دوٹوک انداز میں بات کرنے کی ضرورت تھی… مولانا صاحب نے اسی والیم میں بات کی ہے کھل کر بات کی ہے ڈٹ کر بات کی ہے اور لگتا ہے جس طبقے تک اپنی بات پہنچانی تھی وہاں تک بلا کم وکاست پہنچ چکی ہے انٹرویو کا مقصد حاصل ہو چکا ہے اب انٹرویو شائع نہ بھی ہو تو بھی کوئی مسئلہ نہیں….. ٹیکا جہاں لگانا تھا چیخیں وہی سے سنائی دے رہی ہیں اور یہی اصل مقصد تھا
مولانا صاحب کا انٹرویو
Facebook Comments