تحریر : مفتی محمد عمران اسلام آباد
بوجہ چند یوم تعطیلات کے سوات میں مقیم ہوں۔ تین دن سے نئے پاکستان کے ضلع سوات میں بجلی ناپید تھی فقط ایک گھنٹہ کے لیے بجلی آتی تھی۔
اسی وجہ سے دو دن تمام عَالم سے منقطع رابطہ تھا۔
لیکن جیسے ہی موبائل آن ہوا تو واٹس ایپ اور فون ایس ایم ایس کا تانتا بندھ گیا۔ جس میں کپتان کے محبین نے شکایات کا انبار لگایا ہے قدر مشترک تمام سوالوں کا یہ تھا کہ مولانا کیوں ان چوروں کا ساتھ دے رہے ہے؟ مجھے تو مولانا سے نفرت ہوگئی اس سے علماء بد نام ہوتے ہیں۔
جواب عرض ہے:
کہ علماء دین میں سے ایک کثیر تعداد نے دعوت وتبلیغ کا میدان سنبھالا ہے اور ایک معتد بہ تعداد نے درس وتدریس کا نظام ہاتھ میں لیا ہے اسی طرح ایک عظیم تعداد نے سیاست کے شعبہ کو اختیار کیا ہے
چنانچہ جمعیت علماء اسلام کی صورت میں ہزاروں علماء کرام میدان سیاست میں موجود ہیں۔
ان علماء کرام نے مولانا فضل الرحمن صاحب کو اپنا لیڈر وقائد چنا ہے۔
مولانا صاحب کی سیاست وسیادت تدبر اور معاملہ فہمی دور اندیشی دوست ودشمن دونوں تسلیم کرتے ہیں۔
مولانا صاحب جمعیت علماء کے منشور کی سیاست کرتے ہیں اور ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ اپنی قلیل تعداد کے ساتھ وہ جمعیت علماء اور مذہبی طبقہ کے تدریجی اہداف کو اقتدار میں رہ کر حاصل کرسکتے ہے یا حزب اختلاف کا حصہ بن کر ہر، دو آپشن پر غور کرتے ہیں اور علماء کے شوری میں اس کا فیصلہ ہوتا ہے۔
اب آتے ہیں اصل سوال پر کہ مولانا ان چوروں کے ساتھ کیوں کھڑے ہوتے ہیں؟
تو یہ جان لیجیے کہ کافر یہ شہباز وزرداری بھی نہیں اور کافر عمران وپرویز الہی بھی نہیں۔ فرشتہ عمران خان بھی نہیں اور زرداری شہباز بھی نہیں۔
کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں اب تین آپشن ہیں
1- اہل اقتدار بد چلن کے ساتھ شریک ہوا جائے
2- حزب اختلاف بد کرداروں کے ساتھ ساتھ ہوا جائے
3- ملک کے اہم فیصلے ان بد چلنوں کے ہاتھ ہونے دیے جائے اور سیاست ہی چھوڑ دی جائے
ظاہر ہے کہ آخری آپشن کا کوئی ذی عقل بھی مشورہ نہیں دے سکتا ورنہ ممکنہ متبادل بتایا جائے۔
لازم ہے کہ اول دو آپشن زیر غور رہیں گے چنانچہ پارلیمنٹ میں ابو بکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما تو موجود نہیں انہی میں سے کسی کے ساتھ چلنا ہوگا۔
سو جس طرح ہم آپ کو سیاسی اختلاف کا حق دیتے ہیں آپ مولانا کو بھی اس اختلاف کا حق دیجیے
جس طرح آپ مذہبی ووٹ کے لیے درگاہ چوم سکتے ہے اس طرح مولانا کو بھی حمایت حاصل کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔
جس طرح آپ آزاد کلچر کا شو کرکے مغربی اور سیکولر خیال قوتوں کی حمایت لیتے ہیں اسی طرح مولانا بھی مذہبی قوتوں کو جمع کرکے حمایت کا حق دار ہیں۔
جس طرح آپ پیپلز اور نون لیگ سے الیکٹبلز چوروں کو اپنے آشرم میں ساتھ رکھ سکتے ہیں اسٹبلشمنٹ سے ساز باز کرسکتے ہے سینٹ میں زرداری کے قدموں میں اپنے ووٹ ڈھیر کرسکتے ہے پرویز الہی جیسے ڈاکو سے اتحاد کرسکتے ہے
تو اسی طرح مولانا کو بھی سیاسی جوڑ توڑ کا حق دیجیے اس پر اس قدر برا فروختہ ہونے اور سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟
میرے دوستوا یہ سیاست ہے اس میں نفرت نہیں باہمی حق اختلاف جان کر جیو۔