تحریر :عمرفاروق /آگہی
الیکشن میں کامیابی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے کھلاڑیوں نے سیاسی مخالفین کونشانے پررکھ لیاہے اوران کاسب سے بڑاٹارگٹ اس وقت مولانافضل الرحمن ہیں ، جیت کے نشے میں مخمورکھلاڑیوں نے مولانا کے خلاف سوشل میڈیاپرمحاذقائم کرلیاہے سوشل میڈیا پر مولانا پر شدید تنقید کی جارہی ہے اورانہیں طعن وتشنیع کانشانہ بنایاجارہاہے کچھ لوگ تو اخلاقیات کے تمام تر حدود کو پار کرتے ہوئے مولانا کو ایسے ایسے القابات والزامات عائدکررہے ہیں کہ الامان والحفیظ ۔
دوسری طرف مولانا بھی ہارماننے والے نہیں ہیں اہل سیاست پرجب بھی مشکل وقت آیاتوانہوں نے مولاناکے ہی درپرہی دستک دی، مولانا الیکشن میں کامیاب ہوں یانہ ہوں، حکومت میں ہویااپوزیشن میں ۔انہوں نے ہمیشہ اعتدال کے ساتھ بلاخوف وخطر اپنی رائے کااظہارکیا الیکشن کی شام ہی مولاناکواندازہ ہوگیاتھا کہ کیاکھیل کھیلاجارہاہے اس خوف اوربے یقینی کے ماحول میں انہوں نے سب سے پہلے مسلم لیگ ن کے صدرشہبازشریف ،سابق صدرآصف عی زرداری ودیگرسیاسی قائدین سے رابطے کرکے مشترکہ لائحہ عمل کے لیے اے پی سی کی تجویزدی اورپھراسلام آبادمیں آل پارٹیزکانفرنس کرکے انتہائی سخت مئوقف اپناتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے حلف نہ اٹھانے کی تجویزسامنے لے آئے ،اس پریس کانفرنس میں مولاناکاغم وغصہ ان کے چہرے سے چھلک رہاتھا ۔ان کاغم وغصہ بجاتھا کہ کیوں کہ ا نتخابات میں بڑی مہارت اورشفاف طریقے سے دھاندلی کی گئی تھی صبح کے جیتے ہوئے شام کوہارے ٹھرے ، فکس میچ میں ایمپائرنے پی ٹی آئی کوجتواکر نو بال پرمولاناکو آوٹ قرار دے دیاتھا۔
مولانافضل الرحمن الیکشن میں ناکام کیاہوئے حالانکہ وہ ناکام نہیں بلکہ ان کی کامیابی کاراستہ روکاگیا اس کے بعد پی ٹی آئی اتنی خوشی اپنی حکومت بنانے کی نہیں ہے جتنی خوشی انہیں مولاناکوپارلیمنٹ سے باہرہونے کی ہے حالانکہ مولانافضل الرحمن نہ زندگی کاپہلاالیکشن ہارے ہیں اورنہ ہی یہ ان کی زندگی کاآخری الیکشن تھا۔ مولاناکی سیاسی زندگی کاجائزہ لیاجائے توجب سے وہ جمہوری میدان کاحصہ بنے ہیں توکامیابی اورناکامی وہ دیکھتے رہے ہیں، شہسوارہی گرتے ہیں میدان کے مصداق مولاناجہدمسلسل کانام ہیں وہ گرنے کے بعد دوبارہ اٹھتے ہیں اورنئے عزم سے بنیادسحررکھنے کی کوشش کرتے ہیں ،ٹی وی اورسوشل میڈیاپرجتناپروپیگنڈہ مولاناکے خلاف کیاجارہاہے اتناشایدہی کسی اور سیاسی ومذہبی رہنماء کے خلاف کیاگیاہو ،مگراس کے باوجود وہ اعتدال کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑرہے ہیں ان کی تنقیدکانشانہ عمران خان یاپی ٹی آئی نہیں ہے بلکہ و ہ ایمپائرہیں جنھوں نے میچ فکس کیاتھا ،انہیں معلوم ہے کہ کردارکشی کے اس مہم کے پیچھے کون سے کردارہیں مگروہ خاموش ہیں ۔
مولاناپرمختلف الزامات عائدکیے جارہے ہیں مگرکسی کے پاس ان الزامات کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں ،مولاناپرکرپشن کاالزام لگاناآسان ہے مگراسے ثابت کرنامشکل ہے کیا مولانا فضل الرحمن پر فقط الزامات کے سوا عدالت میں کوئی کیس ہے ؟کیا مولانا فضل الرحمن یاان کی جماعت سے وابستہ کسی فردکی آف شور کمپنی ہے ؟کیامولانااوران کی جماعت کااصغرخان کیس میں نام آیاہے ؟کیاوہ ملک اوراس کے اداروں کے خلاف کسی سازش میں شریک رہے ہیں ؟اس طرح کے جتنے بھی الزامات گنوالیں توان سب کاایک ہی جواب ہے کہ نہیں ۔
جہاں تک مولاناپریہ الزام ہے کہ وہ ہرحکومت کاحصہ ہیں تواس کاجائزہ لیاجائے تویہ الزام نہایت غلط اوربے ہودہ ہے اوریہاں بھی انصاف سے کام نہیں لیاجارہا۔ مولانا فضل الرحمن نے 1970 میں صرف 18 سال کی عمر میں اپنے والد کی الیکشن مہم چلائی اور ذوالفقار علی بھٹو کو ڈی آئی خان سے 13000 ووٹوں سے شکست میں اہم کرداراداکیا ،1979 کے مارشل لا، اور پھر جنرل ضیا کے خلاف احتجاجی تحریکوں کے دوران کئی مرتبہ گرفتار ہوئے اور ملک کی مختلف جیلوں میں رہے۔ 1985 کے اانتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ مولانا1988 کے الیکشن میں پہلی مرتبہ ایم این اے منتخب ہوئے ، 1990 کے انتخابات میں فضل الرحمان اپنے حلقے سے ہار گئے۔1993 کے انتخابات میں مولانا رکن اسمبلی بننے میں بھی کامیاب ہوگئے اور وہ خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ جس پریارلوگوں نے طعنہ دیا کہ وہ حکومت میں شامل ہوگئے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی ۔1997 کے انتخابات میںمیں مولانافضل الرحمن ایک مرتبہ پھراپنے حلقے سے کامیاب نہیں ہوسکے ،نواز شریف کے احتساب کمیشن نے مولانا کو خوب کنگھالا لیکن کچھ نہ نکلا ۔2002میں مولاناپھرکامیاب ہوئے اوروفاق میں وہ اپوزیشن لیڈربنے جبکہ خیبرپختون خواہ اوربلوچستان میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہوئی ،2008 میںمولانافضل الرحمن کامیاب ہوئے اورپیپلزپارٹی کے ساتھ حکومت میں شامل ہوئے مگرڈھاسال بعد حکومت سے باہرآگئے 2013ء میں مولاناالیکشن میں ایک مرتبہ پھرکامیاب ہوئے اورمسلم لیگ ن کی حکومت کے ساتھ اتحادکیا یہ پہلی حکومت تھی کہ جس کے ساتھ مولاناپورے پانچ سال رہے اورشایداسی کی سزاانہیں الیکشن میں شکست کی صورت میں دی گئی ۔
مولانا مروجہ سیاست کے ایسے کھلاڑی ہیںکہ وہ کسی وقت بھی بازی پلٹ سکتے ہیں شایدیہی وجہ ہے کہ انہیں ایک سازش کے تحت ا س لیے باہرکیاگیا کہ لاڈلے کوہرصورت کرسی پربٹھاناتھا مگریادرکھیں کہ مولاناپارلیمنٹ سے باہرہوئے ہیں سیاست سے نہیں ،موجودہ پارلیمنٹ میں مولانافضل الرحمن نہیں ہیںمگران نامساعدحالات میں بھی متحدہ مجلس عمل کے تیرہ ممبران اسمبلی میں سے 11جمعیت علماء اسلام ف اورسینٹ کے پانچ ممبران میں سے تین جے یوآئی ف کے ہیں اسی طرح خیبرپختون خواہ ااوربلوچستان اسمبلیوںمیں جمعیت علماء اسلام ف کے آٹھ ،آٹھ ارکان موجود ہیں یوں متحدہ مجلس عمل قومی اسمبلی میں چوتھی بڑی جماعت ،کے پی کے اوربلوچستان اسمبلی میںدوسری بڑی جماعت ہے ۔ متحدہ مجلس عمل کے امیدواران نے قومی اسمبلی میں25لاکھ 41ہزار 514ووٹ حاصل کیے ہیں اورچاروں صوبائی اسمبلیوں میں ان کے امیدواروں نے مجموعی طورپر 24لاکھ 8 ہزار911ووٹ حاصل کیے یوں وہ تقریبا پچاس لاکھ افرادکے نمائندہ ہیں ۔
مولاناصرف ملکی سیاستدان نہیں بلکہ بین الاقوامی رہنماء ،بہترین مدرس ،مصنف،مبلغ ،خطیب اورمدبربھی ہیں،مولانامدارس کے وکیل ،تحفظ ناموس رسالت کے محافظ اوراسلامی روایات واقدارکے پاسبان ہیں مولانانے جس ماحول میں سیاست کی ہے اس کااگرجائزہ لیاجائے تومولاناہمارے محسن ہیں گزشتہ چالیس سال سے ہمارے ملک اورآس پڑوس میں جنگ ہے اس جنگ زدہ ماحول میں نوجوان سب سے زیادہ متاثرہوئے ہیںاوردینی طبقہ گزشتہ تین دہائیوں سے مسائل کاشکارہے نائن الیون کے بعد مدارس اورمذہبی طبقے کوتختہ مشق بنایاگیا ایسے ماحول میں یہ مولاناکاکمال تھا کہ انہوں نے لاکھوں کی تعدادمیںجذباتی نوجوانوں اورخاص کرکے مذہبی طبقے سے وابستہ افراد کی سیاسی تربیت کی اورانہیں جمہوریت کے ذریعے حقوق حاصل کرنے کاراستہ بتایا۔
سچ تو یہ ہے کہ مولانا کی ذات نے اس وقت اسلام پسندوں کی ایک بڑی تعداد کو ریاست کے نظم کیساتھ جوڑے رکھا ہے اور ریاستی اداروں کی طرف سے زیادتی، تشدد اور ہر طرف سے تنگ کرنے کے باوجود بھی وہ سارا طبقہ پرامن رہاہے، جس کا انتساب مولانا کی سیاسی فکر کیساتھ ہے۔
مولانا فضل الرحمن اپنی سیاست کے آغاز ہی سے مقتدر حلقوں کے لئے بھاری پتھر ثابت ہوئے۔کچھ لوگوں کی پریشانی یہ ہے کہ ایک مدرسے کامولوی ملکی اوربین الاقوامی سٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں کھٹک رھا ہے کبھی اسے سیاست سے آوٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے توکبھی عملی زندگی ختم کرنے کے لیے ان پرحملہ کیاجاتاہے مولاناملک کی اعلی وسنجیدہ فکرسیاسی قیادت کی امیدوں کے مرکزومحورہیں وہ تدبر،حکمت ،بصیرت اورفہم وفراست سے اپنے فیصلے کرتے ہیں انہوں نے ہمیشہ دلیل سے بات کی ہے شایدیہی وجہ ہے کہ ان کامخالف دلیل کی بجائے گالی سے بات کرتاہے ،انہیںجمہوری راستے سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے اسلامی انقلاب کے لیے انہوں نے جس راستے کاانتخاب کیاہے اس راستے میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں ۔
مجھے مولاناکایہ قول یادآرہاہے کہ ہمارے بغیرحکومت بن نہیں سکتی اگربن جائے توچل نہیں سکتی اورپاکستان تحریک انصاف کی بیساکھیوں کے سہارے قائم ہونے والی حکومت کے متعلق نہ جانے کیوں میرے ذہن میں یہ سوال آرہاہے کہ کیا یہ پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرپائے گی
مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف مہم
Facebook Comments