صرف جمعیت کے بہادروں کے نام

تحریر :مولانا محمد فیاض خان سواتی گجرانوالہ
حالیہ انتخابات اپنی نوعیت کے وہ منفرد انتخابات ہیں ، جس میں حصہ لینے والی تمام ہی پارٹیاں اسے مختلف حوالوں سے غیر شفاف قرار دے رہی ہیں ، حتی کہ خفیہ طاقتوں کی منظورِ نظر جماعت کے بعض ہارنے والے ارکان بھی یہی کہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے ، لیکن ان قوتوں نے بزورِ طاقت سب ہی کے لئے بڑے ہی عیارانہ اور غیر محسوسانہ طریقہ سے ایسی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کی ہوئی ہے ، جو اس موقع پر اس محاورہ کی صحیح مصداق معلوم ہوتی ہے کہ نہ ہی اُگل سکو اور نہ ہی نِگل سکو”اس منصوبہ بندی میں انہوں نے علماء کرام اور ان کے اتحادیوں کو نہ صرف اسمبلیوں سے باہر رکھا بلکہ انہیں باہر بھی تنہا کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے ، وہ اس طرح کہ ملک کی تین بڑی جماعتوں میں سے ایک کو تو انہوں نے اپنی توانائی کے استعمال سے اس قابل بنا دیا کہ وہ وفاق میں حکومت سازی کر سکے اور دیگر دو کو اتنی اتنی سیٹیں عطا کر دیں کہ ان میں بھی صوبائی حکومتیں بنانے کا لالچ پیدا ہو گیا ہے ، اور اس عنایت و مہربانی کے انجکشن سے کچھ دیر کے لئے انہیں یہ بالکل بھلا دیا گیا ہے کہ ان کے ساتھ بھی کوئی زیادتی ہوئی ہے ، یوں احتجاج کے لئے صرف علماء کرام اور ان کے اتحادیوں کو تنِ تنہا چھوڑ دیا گیا ہے ، اور یہی ان کا مقصودِ نظر ہے اور طرفہ یہ کہ عوام الناس جو انتخابات کی اصل پاور ہے ، اس کو بھی مختلف حیلوں سے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ یہ دھاندلی تو انتخابات میں روٹین کا ایک حصہ ہوتی ہے ، لہٰذا سب کو حسبِ سابق اب بھی اسے جوں کا توں دل و جان سے قبول و منظور کرکے چپ سادھ لینی چاہئیے ، بظاہر تو یہ ایک بڑا پر امن سا منصوبہ ہے اور سطحی سوچ کے لوگوں نے اکثر و بیشتر اسے قبول بھی کر لیا ہے ، جو در حقیقت ایک بڑا ہی عبرت ناک رویہ ہے کہ ایک طرف تو یہ سب لوگ ملک عزیز کے نظامِ انتخاب کو درست دیکھنے کے خواہش مند ہیں اور اس کے لئے اپنے بھاری بھرکم ٹیکس ادا کرتے ہوئے نہایت مہنگے الیکشنوں سے بھی بار بار گزر رہے ہیں ، لیکن جب اس نظام کو صحیح کرنے کا کوئی موقع آتا ہے تو یہ ان خفیہ طاقتوں کے پھیلائے ہوئے پراپیگنڈوں سے متاثر ہو کر اپنی اپنی مصلحت پسندیوں کا شکار ہو جاتے ہیں بلکہ الٹا اس موقع پر آوازِ حق بلند کرنے والوں کا ساتھ دینے کی بجائے ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے ، کیا ایسی صورتِ حال میں اور ہمارے اس دیرینہ رویہ سے کبھی وطنِ عزیز کا نظامِ انتخاب ٹھیک ہوسکے گا ، کیا ہم ہمیشہ اسی دھاندلی کے ظلم و ستم کا شکار رہیں گے اور اُف تک بھی نہیں کر سکیں گے ، یہ ہماری سوچ اور طرزِ عمل پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔یاد رہے کہ اس ملک کا نظام آسمان سے فرشتوں نے اتر کر ٹھیک نہیں کرنا بلکہ یہ ما و شما ہی کی درجہ بدرجہ ذمہ داری ہے ، اگر ہم نے اپنی اس قومی ذمہ داری کی ادائیگی میں کسی بھی قسم کی کوئی شعوری کوتاہی روا رکھی تو یہ اپنی آئندہ نسلوں کو بھی اپنے ہی ہاتھوں اس غلامانہ اور خوفناک دلدل میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا اور پھر ہم سب ہی اس کے ذمہ دار بھی ہوں گے ، اس لئے آئیے اس موقع پر اپنے ہر دل عزیز قائدِ جمعیۃ علماء اسلام اور ان کے مظلوم ساتھیوں کا شجاعت و بہادری سے ساتھ دیں اور ان کے نعرہ حق میں ان کا دست و بازو بننے کی پوری کوشش کریں ، اپنے جمہوری اور آئینی حق کے حصول کے لئے تحریکیں ہمیشہ دلیر اور شجاع لوگ ہی چلاتے اور ان میں حصہ لیا کرتے ہیں ، بز دل اور کم ہمت لوگوں کا تاریخ میں کوئی نشان نہیں رہتا بلکہ آنے والی نسلیں ان کے اس فعلِ شنیع پر پَھٹکاریں ہی ڈالتی ہیں ، لہٰذا بے وفا اور موقع پرست لوگوں سے بھی کسی ہمدردی اور تعاون کی توقع نہیں رکھنی چاہئیے بلکہ جگر مراد آبادی مرحوم کے اس شعر کو پیش نظر رکھنا چاہئیے ، جس میں انہوں نے کیا خوب کہا ہے ۔۔۔
خود اپنے ہی سوزِ باطن سے، نکال اک شمعِ غیر فانی
چراغِ دِیر و حرم تو اے دل، جلا کریں گے بجھا کریں گے

Facebook Comments