تحریر : مفتی محمد عمران اسلام آباد
مغربی تہذیب ایک نئی تہذیب ہے جو ابھی نو عمر ہے لیکن عروج پر ہے اس تہذیب نے پرانے اقتدار عقائد ونظریات، خیر وشر کے پیمانے، بود وباش کے طریقے آلات حرب وضرب حرفت وصنعت سب کو بدل دیا ہے، اس کی جگہ نئے اقدار ، عقائد ، نظریات، افکار، معیارات زندگی، مقاصد زندگی اور طرز زندگی نے لی ہے۔یہ نئی تہذیب اپنے اندر بڑی وسعت رکھتی ہے، یہ عقائد وخیالات، فکری نظاموں ، سیاسی واقتصادی فلسفوں اجتماعی طبعی وعمرانی علوم وتجارب حیات اور فکری نتائج کا مجموعہ ہے۔ اس میں مفید اور مضر دونوں اجزاء پائے جاتے ہیں ۔ اس تہذیب نے مغربی اقوام کی طرف مسلم مشرقی اقوام کو بھی متاثر کیا اور مسلم بلاد میں اس متعلق تین رویے سامنے آئے
ایک رویہ یہ سامنے آیا کہ اس نئی تہذیب کو بالکل مسترد کردیا جاناچاہیئے دوسرا رویہ یہ سامنے آیا کہ اس کو من وعن قبول کیا جائے تیسرا رویہ اعتدال پر مشتمل ہے کہ اس میں سے صافی ومفید حیات اجتماعی، اجزاء کو لیا جائے اور مضر حیات عناصر کو مسترد کیا جائے ۔ یہ کام انتہائی عمیق فکری وعلمی رسوخ کا متقاضی کام ہے ، اس حوالے سے مسلم مفکرین نے بڑی کوششیں بھی کی ہیں لیکن ان ممالک میں اقتدار کی بھاگ ڈور ان طبقات کے ہاتھ میں ہے جن پر عوام کو اعتماد نہیں بلکہ سرمایے اور بیرونی امداد وشہہ پر ان ممالک پر مسلط ہیں۔ چنانچہ پاکستان میں ایک طرف پہلے رویے کے حاملین طالبان وعسکریت اس تہذیب کو مکمل مسترد کرتے ہیں جس سے ہم ایک مرکزی شاہراہ حیات سے کٹ رہے ہیں تو دوسری طرف سیکولر ولبرل قوتوں کی کوشش ہے کہ وہ ملک میں مغربی طرز زندگی کو پروان چڑھائے اور من وعن اس تہذیب کو اختیار کرے۔ اس طبقہ کو مغرب کی مکمل آشیر باد حاصل ہے وہ مختلف حربوں سے، حیلوں سے انہی لوگوں کو اقتدار میں لاتے ہیں میڈیا پر انہی کو پیش پیش رکھتے ہیں ملکی سلامتی کے اداروں کو بھی انہی کو لانے کا ٹاسک دیتے ہیں۔ اس طریقے سے وہ ملک پر اپنا تسلط جمانا چاہتے ہیںملک کی اکانومی کو قابو میں رکھنا چاہتے ہیں، خاندانی نظام کو تہس نہس کرنا چاہتے ہیں۔ روش خیالی کے نام پر جذبہ حریت کو کچلنا چاہتے ہیں۔ مساوات مرد وزن کے عنوان سے مخلوط ماحول بناتے ہیں جس سے معاشرہ جنسی انارکی وفکری انتشار، اور اضمحلال کا شکار ہو۔ ان دو انتہاؤں سے ہٹ کر ایک معتدل راہ ملک میں موجود مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام اور متحدہ مجلس عمل نے چنا ہے۔ جو خذ ما صفا ، ودع ما کدر پر عمل پیرا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام نے جہاں افراطی سوچ یعنی طالبان کو بھی رد کیا ہے تو اس سے کئی گنا شدت کے ساتھ اس تفریطی پہلو کو بھی رد کیا ہے اور کرتی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام اور متحدہ مجلس عمل اس ملک کے فقط مادی ترقی کے خواہش مند نہیں بلکہ اس ملک کی تہذیب وثقافت کی جنگ بھی لڑ رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن قائد متحدہ مجلس عمل جامعہ حقانیہ کے فاضل عالم دین، جامعہ قاسم العلوم کے مدرس رہے انہوں نے مفتی محمود رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ستائیس سال کی عمر میں جمعیت علمائے اسلام کی بھاگ ڈور سنبھالی ہے اس مرد آہن نے دور استبداد کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اس پاداش میں جیلیں کاٹی ہیں مخالفین کی تہمتیں سہی ہیں امریکا اور عالمی سرمایہ دار قوتوں کے خلاف کھل کر مہم جوئی کی ہے اپنی قوم کو ان کی غلامی سے باہر آنے کا درس دیا ہے عالمی فورم پر ان کے نفاق سے پردہ اٹھایا ہے مسلم ممالک پر امریکی یلغار کے خلاف پوری قوم کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے افغانستان عراق فلسطین کشمیر برما وزیرستان کے مظالم کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ امن اور بقائے باہمی کے لیے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے، جنگ وجدل کے بجائے مذاکرات اور حقوق انسانی پر زور دیا ہے۔ تکریم انسانیت اور حریت آدم کا بول بالا کیا ہےملکی ترقی کے لیے ایران افغانستان بھارت چین سعودیہ کے ساتھ تجارتی معاھدات کے لیے تگ ودو کی ہے۔ ملک کے اندر ہمیشہ آئین ودستور کی بات کرتے رہے ہیں فوجی مداخلت کے خلاف کھڑے رہے ہیں عدلیہ اور سیاسی اداروں کے ٹکراؤ پر نالاں اور ان کی باہمی تعاون کے لیے کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے باجود اس کے کہ ملک کے سیاست دان کرپٹ رہے ہیں غیروں کے کاسہ لیس رہے ہیں بامر مجبوری کہ ملک کا نظام برباد نہ ہو کسی نہ کسی درجہ میں ملک کا پہیہ چلتا رہے انہوں نے کبھی حزب اختلاف کا ساتھ دیا تو کبھی حزب اقتدار کے ساتھ بیٹھنا پڑا۔ دو راستے تھے اول دیگر علماء کی طرح کنارہ کش رہا جائے اور ملک کے آئینی ادارے ان مغرب نواز لوگوں کو سپرد کیے جائے اور روڈوں پر غیر مؤثر احتجاج کرتے رہے۔ دوم آئینی اداروں میں ایسے افراد آئے جو دین الہی سے بھی واقف ہوں عالمی سیاست کے داؤ پیچ سے بھی آگاہ ہوں، اور ملکی حالات پر گہری نگاہ رکھتے ہوں، اور جس مقصد کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا ہے اس نظریہ پر کاربند ہوں اور ملک کی تدریجی سفر میں مؤثر کردار ادا کرسکتے ہوں۔مولانا نے مفتی محمود رحمہ اللہ کی اتباع میں اس خار دار وادی کو چنا جہاں انہوں نے ہر طرح کے الزام کو سہا اپنے اوپر خود کش حملوں کو جھیلا اپنوں کے ناروا سلوک کو برداشت کیا۔ اس پورے دورانیہ میں انہوں پاکیزہ سیاست کی تاریخ رقم کی ہے ہمیشہ مدارس دینیہ کے بقا کی جنگ لڑی ہے سنت نبوی داڑھی پگڑی کے دفاع میں کھڑے رہے اسلامی ثقافت اور اسلامی اقدار کے لیے جدوجہد مسلسل کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا۔ پروپیگنڈے کی زبان نے اس مشرقی مجاھد کو گرانے کی کوشش کی لیکن شیخ الہند کے اس جانشین نے ایک قدم پیچھے نہیں لیا بلکہ ہر دن نئے عزم وحوصلے کے ساتھ آگے بڑھتے رہے اور منزل پر منزل عبور کرتے رہے آج مولانا تمام مذہبی قوتوں کو یک جا کرکے پچیس جولائی کے معرکے کے لیے اتر چکے ہیں۔ اس معرکے میں صفیں بن چکی ہیں خیمے لگ چکے ہیں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنا بھولا ہوا سبق تازہ کریں اور نظریہ پاکستان، اسلامی جمہوریہ پاکستان، اسلامی روایات، اسلامی اقدار کے حاملین کو کامیاب کریں مجھے امید واثق ہے کہ اگر تیسری قوت حائل نہ بنے تو اسلامی ملک حاصل کرنے کے لیے لاکھوں نفوس کا نذرانہ دینے والی قوم کا فیصلہ میڈیائی پروپیگنڈے کے علی الرغم اسلامیان پاکستان کے حق میں ہوگا۔۔ آو کہ بنائیں ہم ایک اسلامی فلاحی مستحکم پاکستان
مشرقی مجاہد مولانا فضل الرحمٰن
Facebook Comments