تحریر : غلام نبی کوئٹہ
این اے 35 بنوں میں ایک بڑا مقابلہ ہونے جا رہا ہے۔ اس حلقے کا انتخاب ایک تاریخی حیثیت کا حامل ہو گا۔ برسوں قوم کو یاد رہے گا۔ بنوں کی عوام کے پاس ایک نادر موقع ہے کہ وہ ایک نئی تاریخ رقم کریں۔ دوسری پارٹیوں کی ضمانتیں ضبط کروائیں۔ ویسے تو کئی کینیڈیٹس اس حلقے سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں لیکن اصل مقابلہ عمران خان نیازی اور اکرام خان درانی کے درمیان ہے۔بنوں اکرام خان درانی کا گھر بھی ہے اور گڑ ھ بھی ہے۔اکرام خان درانی خلیفہ گل نواز خان کے پوتے ہیں۔ خلیفہ گل نواز، حاجی صاحب (فقیر ایپی) کے ملٹری کمانڈر تھے۔ فقیرایپی برطانوی سامراج کے خلاف قبائل کی طرف سے گوریلا جنگ کے بانی تھے۔ اس طرح اکرم خان درانی کے خاندان کو برطانوی سامراج کے خلاف عملی جدوجہد کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ انہیں نفوس قدسیہ کا اثر تھا کہ درانی صاحب جمعیت علماء اسلام میں ایک بڑے لیڈر کے طور پر ابھرے۔ 1885 سے بنوں کی سیاست پر درانی خاندان چھایا ہوا ہے۔ بنوں سے اکرام خان درانی کئی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں جبکہ 2002 میںصوبے کے وزیر اعلی بھی رہ چکے ہیں۔ درانی صاحب کے بیٹے زیاد اکرام درانی بنوں کی قومی سیٹ پر پہلے سب سے کم عمر ترین ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ 2008 کے الیکشن میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب بھی بنوں سے جیت پائے تھے۔ کئی عشروں سے اکرام خان درانی اور ان کے خاندان نے جمعیت علماء اسلام کے ساتھ اپنی وفاداری نبھائی ہے۔ ہر مشکل وقت میں جمعیت علماء کے لیے دیوار ثابت ہوئے ہیں۔ علاقے اور صوبے کی ترقی و خوشحالی کے لیے درانی صاحب نے درجنوں اربوں کے منصوبے منظور کروائے اور پائی تکمیل تک پہنچائے ہیں۔ ان کی اسی خدمت کی بدولت ان کے جیتنے کے چانسز 90 فیصد ہیں۔عمران خان نیازی ایک سے زیادہ حلقوں سے انتخابی دنگل میں کود رہا ہے۔ نیازی نے کے پی کے سے بنوں کا انتخاب کیا ہے۔ پانچ سال ناکام حکومت کرنے کے بعد خان صاحب نے اس حلقے کا انتخاب کیا ہے جو جمعیت علماء اسلام کا گڑ تصور کیا جاتا ہے۔ آ بیل مجھے مار والے محاورے کے مطابق خان صاحب نے اپنی ناکامی کے لیے خود ہی گڑھے کا انتخاب کیا اور 25 جولائی کو اس گڑھے میں سیاسی طور پر دفن ہونے جا رہا ہے۔ خان صاحب جمعیت علماء اسلام کے قائدین کے بارے میں انتہائی گھٹیا اور بازاری زبان استعمال کرتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ جمعیت علماء کے کارکن ووٹ کی پرچی کے ذریعے عمران خان کی غلیظ باتوں کا جواب دیں۔ ان کے مغربی اور صیہونی ایجنڈے کو دفن کریں۔مغربی تہذیب کے علمبردار کو عبرت ناک شکست سے دوچار کریں۔اکرام خان درانی نے 2013 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے کینیڈیٹ سے کم و بیش پچاس ہزار ووٹ زیادہ لیے تھے۔ اس وقت پورے ملک میں عمران خان کی سونامی کے چرچے تھے۔ جنرل پاشا کی برکت سے عمران خان وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ پی ٹی آئی نے ملک کے کسی حصہ پر بھی حکومت نہیں کی تھی۔ مگر اب حالات یکسر مختلف ہیں۔ تحریک انصاف پانچ سال حکومت کر چکی ہے۔ ایک ارب درخت اور ساڑھے تین سو ڈیمز کی بھڑک صرف ڈھکوسلہ ثابت ہوئی۔ 90 دنوں میں تبدیلی لانے کا دعوی کرنے والے دو ہزار دنوں میں بھی بہتری نہ لا سکے البتہ تنزلی ضرور دیکھنے میں آئی۔ گورنر ہاوس اور وزیر اعلی ہاؤس کو کرکٹ سٹیڈیم بنانے کا وعدہ وفا نہ ہو سکا۔ کرپشن اور اقربا پروری تحریک انصاف کی حکومت کا شعار رہا۔ علاوہ ازیں بنوں کی سطح پر تحریک انصاف اندرونی انتشار اور خلفشار کا شکار ہے۔ ٹکڑیوں کی تقسیم پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔لہذا اب یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اکرام خان درانی کی پوزیشن عمران خان کے مقابلے میں کتنی مضبوط ہے۔ اور کے پی کے میں تحریک انصاف سیاسی موت مرنے جا رہی ہے۔ ایم ایم اے کی بحالی کے بعد تو زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں ۔ اکرام خان درانی ایک ایماندار، صاحب فہم و کردار، ملنسار، اور علاقے کے لوگوں کے غم خوار ہیں۔
آپ کے مقابلے میں عمران خان سمیت کوئی بھی مضبوط نمائندہ نہیں ہے۔
جمعیت علماء اسلام بنوں کے ورکرز کے لیے نادر موقع ہے کہ اکرام خان درانی کو تاریخی جیت دلوا کر ایک تاریخ رقم کریں۔ ۔۔ تحریک انصاف کی گندی اور بدبودار سیاست کا دروازہ
کے پی کے میںہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔
اکرم خان درانی بمقابلہ عمران خان نیازی
Facebook Comments